علامہ اقبالؒ نے اپنے انگریزی خطبات (Reconstruction) میں لکھا ہے کہ زندگی دراصل اموات کے سلسلے کا نام ہے۔ انسانی شخصیت کا ایک حصہ ختم ہوتا ہے تو اس کی راکھ پر دوسری شخصیت جنم لیتی ہے۔ انسان جو کل تھا وہ آج نہیں ہے۔ اس کی ماضی کی شخصیت امریکی اور اس پر نئی شخصیت جنم لے چکی۔ اسے اقبال سلسلہ وار اموات (Series of deaths) کا نام دیتے لیکن قائداعظم سیاسی زندگی کے آغاز میں سرسید احمد خان اور علامہ اقبال کی مانند متحدہ قومیت کی بات کرتے تھے لیکن سرسید اور اقبال کی مانند غور و فکر اور تجربات کی گھاٹیوں سے گزرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتے کہ مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں تہذیبیں، الگ کلچر، الگ تاریخ اور منفرد علامات اور انکے تشخیص باہم متصادم ہیں۔ وہ الگ الگ قومیں کیوں ہیں کیونکہ ان کے مذاہب الگ الگ ہیں۔ چنانچہ اسی بنیاد پر انہوں نے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ وہ خلوص نیت سے سمجھتے تھے کہ اسی علیحدگی میں مسلمانوں کی بقا کا راز مضمر ہے۔ کسی صحافی نے ایک بار قائداعظم سے پوچھا کہ آپ تو متحد قومیت میں یقین رکھتے تھے اور اب آپ کیوں دونوں کو الگ قومیں قرار دیتے ہیں؟ جواب تھا کہ کبھی میں ہائی سکول میں بھی پڑھتا تھا۔ مطلب یہ کہ علامہ اقبال کے الفاظ میں وہ شخصیت مر چکی اور ماضی تاریخ کا حصہ بن چکا۔ کسی دور میں قائداعظم مذہب کو سیاست سے الگ سمجھتے اور جب گاندھی نے مذہب کو سیاست میں ملوث کیا تو قائداعظم نے بغاوت کر دی اور کانگرس کے ناگپور جلسہ میں ناخوشگوار واقعہ ہوا۔ وہی قائداعظم جب تجربات، مشاہدات اور غور و فکر کی بھٹی میں پگھل کر کندن بنتے ہیں، اسلامی تعلیمات کو سمجھتے ہیں اور قرآن حکیم پر تدبر کرتے ہیں تو وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں سیاست کو مذہب سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ سیدھی سی بات ہے کہ یا تو اسلام کو مکمل ضابطہ حیات نہ کہئے اور عیسائیت کی مانند چرچ کو طلاق دے کر سیاسی و عملی زندگی سے نکال دیجئے ورنہ اگر آپ اسلام کو مکمل ضابطہ حیات سمجھتے ہیں تو پھر سیاست کو کیونکر اس سے الگ کریں گے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمارے روشن خیال اور سیکولر دانشور اس حوالے سے دو اعتراض کرتے ہیں اول کہ مذہب اور سیاست کو ملانے سے دہشت گردی، فرقہ واریت اور انتہا پسندی پیدا ہوئی ہے۔ یہ ان کا واہمہ ہے اور بے بنیاد ہے کیونکہ دہشت گردی، فرقہ واریت وغیرہ وغیرہ ہماری سیاست اور بین الاقوامی سیاست کے تحفے ہیں جبکہ ہمارا دین ان کی نفی کرتا ہے۔ تمام اسلامی سکالرز اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردی اسلام سے خارج ہے اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے تو اس پر فتویٰ دے کر ضخیم کتاب بھی لکھ دی ہے جو علم و فکر کا نمونہ ہے۔ دوسرا اعتراض اقلیتوں کے حوالے سے کیا جاتا ہے حالانکہ اسلام ریاستوں کوپورے حقوق اور مکمل سرپرستی عطا کرتا ہے۔ اس کی بہترین عملی مثال میثاق مدینہ ہے جو ہمارے نبی کریمﷺ نے ”مدینہ ریاست“ تشکیل دینے سے پہلے طے کیا۔ جن پارٹیوں سے ”میثاق مدینہ“ طے کیا گیا ان میں بارہ غیر مسلم یا ایسے سردار شامل تھے جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا اور بقول ڈاکٹر عبداللہ میثاق مدینہ میں غیر مسلم شہریوں کو برابر کے حقوق دئیے گئے تھے۔
قائداعظم نے جب گیارہ اگست 1947ءکو دستور ساز اسمبلی میں تقریر کی تو ان کے پیش نظر میثاق مدینہ ہی تھا کیونکہ میں نے قائداعظم کی تقاریر کے بغور مطالعے سے یہ اخذ کیا ہے کہ انہوں نے قرآن حکیم، اسلامی فقہ اور تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اسلامی معاشرے کے اصولوں کی روح کو سمجھتے تھے۔ ہمارے روشن خیال سیکولر دانشوروں کا سانحہ یہ ہے کہ انہوں نے قائداعظم کو پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی وہ اسلامی اصولوں کی روح سے آگاہی رکھتے ہیں۔ اگر یہ حضرات اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر صرف احمد سعید کی کتاب گفتار قائداعظم پڑھ لیں تو ان پر میری گزارشات عیاں ہو جائیں گی۔
احمد سعید درویش طبیعت سکالر ہے جس نے قائداعظم پر خاصا تحقیقی کام کیا ہے۔ گفتار قائداعظم قومی کمشن برائے تحقیق تاریخ نے چھاپی ہے اور اس میں زیادہ تر قائداعظم کی روزنامہ انقلاب میں چھپنے والی تقاریر شامل ہیں جنہیں خلوص نیت سے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگلستان سے واپسی کے کچھ ہی عرصہ بعد قائداعظم ذہنی فکر، سیاسی سوچ اور خیالات کے حوالے سے وہ محمد علی جناح نہیں تھے جو وہ انگلستان ہجرت سے قبل تھے۔ مجھے ایک بار پھر یہ کہنے دیجئے کہ یہ نہ میرا ذاتی مسئلہ ہے اور نہ ہی مجھے اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ میں نے فقط قائداعظم کو آزاد ذہن کے ساتھ خلوص نیت سے پڑھا ہے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میں اپنی اس تحقیق کے حق میں سینکڑوں ثبوت دے سکتا ہوں لیکن ظاہر ہے کہ کالم ان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
چنانچہ ان کی 1920ءکی دہائی کے اواخر کی تقاریر پڑھتے ہوئے بار بار قرآن حکیم، اسلامی تعلیمات، سیرت نبوی اور اسلامی اصولوں کے حوالے ملتے ہیں جو انگلستان ہجرت سے قبل آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ یہ تو ان کے دشمن بھی مانتے ہیں کہ محمد علی جناح ایک سچا اور کھرا انسان تھا، منافقت اور جھوٹ ان کے قریب سے بھی گزرے تھے۔ نہ ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا تھا اور نہ یہ ذاتی مقصد اور اسی خلوص اور کردار کے پیش نظر علامہ اقبال نے محمد علی جناح کو ہندوستان کے مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے چنا تھا اور کہا کہ ....
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ماضی کا ذکر کرتے ہوئے محمد علی جناح نے میمن چیمبرز آف کامرس کے سپاسنامے کے جواب میں کہا تھا ”مجھے شروع شروع میں گجراتی پڑھائی گئی اس کے بعد انگریزی۔ پھر انگلستان بھیج کر انگریزی زبان کی انتہائی تعلیم دلوائی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میری رگ رگ میں انگریزیت سما گئی۔ میں اپنی کمزوری کا احساس کرتا ہوں اور اس سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہوں۔ میں اپنے پر قیاس کرتا ہوں کہ قوم کی تمدنی، معاشرتی اور مذہبی اصلاح و تعمیر پر زبان کا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ اسی لئے میں مسلمانوں کی مادری زبان اردو کو جاری رکھنے کے حق میں ہوں لیکن کانگرس نے ہماری ایک نہیں سنی۔“ ذرا رک کر غور کیجئے کہ قائداعظم کس طرح اپنا تجزیہ کرتے اور کمزوریوں کو رفع کرنے کی کوششیں کرتے تھے اور وہ ایک قومی زبان کے حق میں کیوں تھے؟ اسی پس منظر میں قائداعظم نے مارچ 1948ءمیں اردو کی بحیثیت قومی زبان حمایت کی تھی اور بنگالیوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے صوبے مشرقی پاکستان میں بنگالی کو سرکاری اور صوبائی زبان کا درجہ دیں لیکن قومی رابطے کیلئے زبان صرف اردو ہو گی۔ میمن چیمبرز آف کامرس کی اسی تقریر میں آگے چل کر قائداعظم نے جو کچھ کہا اس سے سیکولر حضرات کو صدمہ ہو گا لیکن ذرا غور کیجئے کہ وہ جون 1938ءکیا کہہ رہے ہیں اور انکے باطن سے کیا الفاظ نکل رہے ہیں ”مسلمانوں کیلئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تو تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ ہے قرآن پاک۔ قرآن پاک ہی میں ہماری اقتصادی، تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کے علاوہ سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اس قانون الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلام الٰہی کی تعمیل ہے۔ قرآن پاک ہمیں تین چیزوں کی ہدایت کرتا ہے۔ آزادی، مساوات اور اخوت۔ بحیثیت ایک مسلمان کے میں بھی ان ہی تین چیزوں کے حصول کا متمنی ہوں۔ تعلیم قرآنی ہی میں ہماری نجات ہے اور اسی کے ذریعے ہم ترقی کے تمام مدارج طے کر سکتے ہیں۔“
(روزنامہ انقلاب 12 جون 1938ءبحوالہ گفتار قائداعظم مصنف احمد سعید صفحہ 213-15) (جاری)