لاہور (خبرنگار) پنجاب اسمبلی نے خیبر پی کے کے سینئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور اور دیگر افراد کے خودکش حملے میں جاں بحق ہونے پر مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔ قرارداد صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے پنجاب اسمبلی کا ایوان 22دسمبر کو پشاور میں ہونے والے خودکش بم دھماکے میں شہید ہونے والے خیبر پی کے کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور اور دیگر کے جاں بحق ہونے پر گہرے رنج و غم اور افسوس کا اظہار کرتا ہے اور بشیر احمد بلور کی شہادت کو قومی نقصان قرار دیتا ہے۔ بشیر احمد بلور جرا¿ت مند اور دلیر انسان تھے جنہوں نے مقصد اور نظرئیے کی خاطر اپنی جان دے دی لیکن دہشت گردی کے سامنے سر نہیں جھکایا، پنجاب اسمبلی کا ایوان ملک کے کسی بھی حصہ میں ہونیوالی دہشت گردی کی ہر قسم کی کارروائی کی پُرزور الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بزدلانہ کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری قوم کو متحد ہونا ہو گا۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ اور دیگر نے بشیر احمد بلور کی شہادت کے حوالے سے اپنی تقاریر میں دہشت گردی کی مذمت کی اور آمروں اور اسٹیبلشمنٹ کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا۔ ارکان نے بشیر بلور کو خراج عقیدت پیش کیا اور فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔ دہشت گردی 70ءاور 80ءکی دہائی میں اپنائی گئی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ بدقسمتی یہ ہے ان حالات کی ذمہ دار وہ قوتیں آج بھی خاموش نہیں۔ ہم ایسی قوتوں سے کہتے ہیں وہ ہوش کے ناخن لیں۔ افغانستان جہاد کے نام پر امریکی ڈالروں کی بنیاد پر مجاہدین تیار کئے گئے اور کہا گیا لال آندھی کو نہ روکا تو یہ پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ سرحدوں کی حفاظت کرنا پاکستان کی مستقل افواج کا کام ہے لیکن اسکے باوجود مدرسوں اور مختلف علاقوں سے مجاہدین کو لاکر بھرتی کیا گیا اور انہیں تربیت دیکر پرائیویٹ آرمی تیار کی گئی جس نے سپرپاور کو شکست دی۔ جن لوگوں نے مجاہدین تیار کئے تھے انہیں چاہئے تھا جب یہ کام ختم ہو گیا تو انہیں ٹھکانے لگایا جاتا ان لوگوں کو بارڈر فورس میں بھرتی کیا جاتا، ہم مانتے ہیں یہ لوگ بڑے کمٹڈ اور تربیت یافتہ تھے لیکن جب جنگ ختم ہو گئی تو انکا کوئی حل بھی نکالنا چاہئے تھا، لیکن انہیں تربیت دیکر اور کلاشنکوف دیکر چھوڑ دیا گیا اور جب ایسا ہو گا تو یہ اپنی تربیت اور کلاشنکوف سے بریانی پکاکر نہیں کھلائیں گے۔ افغان جہاد کے نام پر مجاہدین بنانے والے پھر امریکہ کے کہنے پر انہیں دہشت گرد کہنے والے ہوش کے ناخن لیں اور ملک کو سیدھے راستے پر چلنے دیں۔ اس ملک میں بڑی مشکل سے جمہوریت بحال ہوئی ہے، جمہوری پراسس اپنے پاﺅں پر کھڑا ہوکر ایک قدم آگے بڑھنے کیلئے تیار ہے۔ وہ جمہوریت، آزاد میڈیا، عدلیہ اور سیاسی جماعتوں کو سپورٹ کریں اور اپنے لوگوں سے پچاس، پچاس کروڑ کے جلسے کرا کر عوام کو کنفیوژ نہ کریں بلکہ قوم کو سیدھے راستے پر چلنے دیں اور ملک میں صاف اور شفاف انتخابات ہونے دیں۔ اسٹیبلشمنٹ جان لے وہ 65 برسوں میں حقیقی جمہوریت کے لبادے میں قوم کیساتھ جو کچھ کرتی رہی ہے اسکی تلافی نہیں ہو سکی۔ اس ملک کو صرف صرف اور شفاف جمہوری نظام سے ہی آگے لیکر جایا جا سکتا ہے۔ دوبارہ انہی کھیلوں، مجاہدین، دہشت گردوں اور حقیقی جمہوریت کے خطاب اور پچاس پچاس کروڑ کے جلسے کرنے کی کوشش کی گئی تو خدانخواستہ یہ ملک کے لئے بہت نقصان دہ ہو گا۔ سعید اکبر نوانی نے کہا آمرانہ ادوار کا نتیجہ آج پوری قوم اور ملک بھگت رہا ہے، کلاشنکوف، ہیروئن، برادری ازم، فرقہ واریت سب ضیاءالحق کی مرہون منت ہے۔ احسان الحق نولاٹیہ نے کہا کہ پہلے ڈکٹیٹر نے بنیادی جمہوریت، دوسرے نے اسلامی جمہوریت اور تیسرے نے حقیقی جمہوریت کا نعرہ لگایا، آمروں نے آئین کی پامالی کیلئے بہانے تلاش کئے۔ رانا فضل نے کہا آج ضرورت ہے جمہوریت کو پامال کرنیوالی قوتوں کے خلاف جمہوری قوتیں اکٹھی ہوں۔ ساجدہ میر نے کہا بشیر بلور جیسے اچھے لوگوں کو مٹانے والی سوچ کو ختم کرنا ہے ان کو بار بار ڈرایا گیا لیکن وہ نہیں ڈرے۔ چودھری ظہیر الدین نے کہا بشیر احمد بلور کی شہادت سے واقعات کی وجوہات کو ختم کرنا ہو گا۔ بشیر بلور کی شہادت دہشت گردوں کی شکست ہے۔ رانا ارشد نے کہا پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے۔ یہ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کا ملک ہے یہاں دہشت گردی قابل قبول نہیں۔ سید ناظم حسین شاہ نے کہا ماضی کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ آمنہ اُلفت نے کہا بشیر احمد بلور اپنا خون دیکر ملکی سالمیت کا نشان بن گئے۔ اعجاز احمد خان نے کہاکہ آمریت کے دور میں ہونیوالے فیصلوں کے نقصان اٹھا رہے ہیں۔ رفعت سلطانہ ڈار، سیمل کامران، سکینہ شاہین، اویس اسلم مڈھیانہ، احسن رضا خان، علی لالیکا، ڈاکٹر زمرد یاسمین، ذوالقرنین ساہی، میاں محمد رفیق، کرنل نوید ساجد نے بھی دہشت گردی کی مذمت کی۔ بعدازاں اجلاس جمعرات کی سہ پہر 3بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔