قائداعظم اور ابوالحسن اصفہانی

Dec 25, 2013

ڈاکٹر محمد سلیم

مرزا ابوالحسن اصفہانی 1902ء میں بنگال کے ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ 1924ء میں بار ایٹ لاء ہوئے۔ وہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے۔ وہ ستمبر 1947ء سے فروری 1952ء تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہے۔ بعد میں برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر اور مرکز میں تجارت و صنعت کے وزیر رہے۔ 1981ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔
 1937ء کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ کا پہلا اجلاس 15 اکتوبر سے 18 اکتوبر 1937ء تک لکھئنو میں منعقد ہوا۔ جناح‘ راجہ صاحب محمود آباد کی کوٹھی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اجلاس میں شرکت کے لئے تیار ہو کر آئے تو شیروانی پہنے ہوئے تھے۔ اصفہانی، چوہدری خلیق الزمان اور راجہ صاحب بھی ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ اتنے میں نواب اسماعیل خاں بھی بے عیب لباس میں ملبوس اور ایک سیاہ سموری ٹوپی پہنے ہوئے آگئے۔ جناح نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا اور کہنے لگے کہ کیا آپ تھوڑی دیر کے لئے اپنی ٹوپی مجھے دے سکتے ہیں۔ نواب اسماعیل خاں نے اپنی روایتی خوش خلقی سے نہ صرف انہیں یہ ٹوپی دی بلکہ پہننے کے لئے بھی کہا۔ صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ کیسی لگتی ہے، جناح نے اسے پہن لیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ سب لوگ اس کی تعریف کر رہے ہیں تو وہ اٹھ کر ساتھ کی خواب گاہ میں چلے گئے اور وہاں ایک قدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ان کی رائے کا محاسبہ کرنے لگے۔ ٹوپی نہ صرف ٹھیک آئی تھی بلکہ ان پر زیب بھی دیتی تھی۔ دو منٹ بعد وہ واپس آئے تو اصفہانی نے ان سے کہا کہ آپ ٹوپی پہنے رہیں اور اسی طرح اجلاس میں شرکت کریں۔ انہوں نے یہ بات مان لی اور ٹوپی پہنے ہوئے جلسے میں چلے گئے۔ اصفہانی لکھتے ہیں کہ مجھے وہ مجمع ابھی تک یاد ہے۔ مجھے لوگوں کے مسکراتے ہوئے چہرے اب تک نظر آتے ہیں۔ وہ زور زور کی تالیاں اور اللہ اکبر کے فلگ شگاف نعرے اب بھی سنائی دیتے ہیں۔ سب لوگ سرگوشی کے انداز میں یا باآواز بلند اس ٹوپی اور شیروانی کی تعریف کرنے لگے۔ اس سے انہیں خود بھی اتنی ہی خوشی اور مسرت ہوئی جتنی ہم سب کو۔ لکھنو کا اجلاس ختم ہونے سے پہلے ہی شہر کے بہت سے نوجوان اور معمر لوگوں نے یہ ٹوپی پہننا شروع کر دی جو جناح کی بدولت راتوں رات مقبول ہو گئی تھی۔1۔ یہ ٹوپی اب ’’جناح کیپ‘‘ کہلاتی ہے۔
اصفہانی رقم طراز ہیں: قائداعظم کسی پر یا تو سو فیصد اعتماد کرتے تھے یا بالکل نہیں۔ اگر انہیں ذرا سا بھی شبہ ہو جاتا تو وہ احتیاط برتنے لگتے اور جب انہیں یقین ہو جاتا کہ وہ شخص واقع برا ہے تو اس کا نام فہرست سے خارج کر دیتے۔ دراصل اگر وہ کسی پر ایک بار اعتماد کر لیتے تو پھر ڈگمگاتے نہیں تھے جب تک کہ اس شخص کے بارے میں مایوس کن حقائق ان پر آشکار نہ ہو جائیں۔ جس شخص پر وہ اعتماد کر لیتے‘ اس کے کسی نامناسب کام پر بھی اسے کوئی سزا نہ دی جاتی ۔ وہ یہ کہہ کربات ختم کر دیتے کہ اس نے رائے قائم کرنے میں غلطی کی۔ اس کی نیت خراب نہ تھی۔
وڈرو وائٹ (Woodrow Wyatt)کیبنٹ مشن کے ایک سیکرٹری تھے۔ غالباً ان کے فرائض میںیہ بھی تھاکہ وہ قائداعظم سمیت مسلم لیگ کی قیادت سے اور گاندھی جی سمیت کانگریس کی قیادت سے قریبی رابطے رکھیں اور باضابطہ فیصلوں سے پہلے مسلم لیگ اور کانگریس کی سوچ کو کیبنٹ مشن تک پہنچائیں۔ مسلم لیگ کیمپ میں اپنا اعتماد قائم کرنے کے لئے وہ کانگریس کے کیمپ کی خبریں اصفہانی اور راجہ صاحب محمود آباد کے ذریعے مسلم لیگ کو پہنچاتے رہتے۔ اس طرح وہ مشن کے بعض تجاویز کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار بھی کرتے رہتے۔ ان سے جتنی اطلاع بھی اصفہانی اورراجہ صاحب محمود آباد کو ملتی، وہ اسے قائداعظم تک پہنچا دیتے۔
قائداعظم نے کبھی مسلم لیگ کے متعلقہ اداروں کی اجازت کے بغیر کسی اہم معاملے پر اپنا فیصلہ نہیں دیا۔ مختلف واقعات جمہوری قدروں پر ان کے اعتماد کے گواہ ہیں۔ 1939ء میں جب کانگریس وزارتوں کے مستعفی ہونے پر قائداعظم کو لکھاکہ آپ کے اس فیصلے سے مجھے شدید دھچکا پہنچا ہے۔ میں آپ سے ایسے حکم کی توقع نہیں رکھتاتھا۔۔۔ مجھے یہ دیکھ کر انتہائی افسوس اور مایوسی ہو رہی ہے کہ آہستہ آہستہ آپ کا میلان رجعت پسندوں اور جی حضوریوں کی طرف ہو رہا ہے۔ اس خط کے باوجود قائداعظم اوراصفہانی کے تعلقات آخر وقت تک نہایت خوشگوار رہے۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے انہیں امریکہ میں پاکستان کا پہلا سفیر مقرر کیا۔ کیا ایسا خط لکھنے والے کو کوئی آمر برداشت کر سکتا تھا؟ کرپس مشن کے زمانے مین سر سکندر حیات پس پردہ مسلم لیگ کے لئے دشواریاں پیدا کرتے رہے لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے وسیع تر مفادات کے پیش نظر قائداعظم نے ان پر فوری طور پر گرفت کرنا قرین مصلحت نہ سمجھا کیونکہ اس صورت میں مسلم لیگ کے اندر کے اختلاف کے باعث لیگ کی گفت و شنید کی طاقت پر بہت اثر پڑتا اور اس طرح دس کروڑ مسلمانوں کے مفاد کو نقصان پہنچتا۔ اصفہانی لکھتے ہیں کہ میں نے اس زمانے میں قائداعظم سے کہا کہ اگر میں مسلم لیگ کا صدر ہوتا تو سر سکندر حیات کو لیگ کی اعلیٰ قیادت سے برطرف کر دیتا اور برصغیر کے مسلمانوں کو یہ بتا دیتا کہ میں یہ قدم کیوں اٹھاتا۔ انہوں نے جواب میں کہا: ہمیں انتظار کرنا چاہئے جب آئندہ مجلس عاملہ کا اعلان ہو گا۔ تو اس میں وہ نہیں ہوں گے۔ چنانچہ جولائی 1942ء میں جب قائداعظم نے مسلم لیگ کی نئی مجلس عاملہ کا اعلان کیا تو اس میں سکندر حیات کی جگہ لاہور سے میاں بشیر احمد کا نام تھا۔ اصفہانی لکھتے ہیںکہ ایک روز نئی دہلی میں اپنے گھر میں مجھ سے باتیں کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا فضل الحق اور سر سکندر حیات نہ صرف مسلم لیگ بلکہ تمام مسلم قوم کے لئے خطرناک ہیں۔ جب بھی کھانا پک کر تیار ہو جاتا ہے۔ اور مسلم قوم کے آگے رکھا جانے کو ہوتا ہے وہ اسے کیچڑ میں گرا دیتے ہیں اور اس سب محنت کو برباد کر دیتے ہیں جو اس کی تیاری میں صرف ہوئی تھی۔
مندرجہ بالا واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابوالحسن اصفہانی کو قائداعظم ایک مخلص ساتھی سمجھتے تھے۔

مزیدخبریں