قائداعظم ؒ اور اسلامی جمہوریت

Dec 25, 2013

ڈاکٹر جاوید اقبال

قائداعظمؒ کن معنوں میں یہ چاہتے کہ پاکستان میں اسلامی جمہوریت قائم ورائج ہو؟ شہریوں کے بنیادی حقوق کو وہ کتنی اہمیت دیتے تھے؟ وہ عدلیہ کو عاملہ کے ماتحت بنانا چاہتے تھے یا الگ اور آزاد؟ کیا وہ یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں یک شخصی حکمرانی یا یک جماعتی حکومت قائم ہونی چاہئے؟ وہ بالواسطہ انتخاب کے نظام کے حق میں تھے یا بلاواسطہ انتخاب کے حق میں؟
قائداعظمؒ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے۔ ان کی تربیت ’’قانون کی حاکمیت‘‘ کے اصول کے تحت ہوئی تھی۔ وہ شخصیتوں کی حکمرانی کی بجائے قانون کی حاکمیت پر یقین رکھتے تھے۔ چنانچہ جمہوریت ان کیلئے عقیدے کی حیثیت رکھتی تھی۔ اگرچہ اُنہوں نے یہ ظاہر نہیں کیاکہ وہ پارلمیانی نظام جمہوریت کو زیادہ پسند کرتے تھے یا صدارتی نظام جمہوریت کو۔ تاہم بنیادی امور و معاملات کے بارے میں ان کے خیالات اور ان کی رائے بالکل واضح تھی۔ وہ کامل یقین رکھتے تھے کہ حکومت عوام کے براہ راست انتخاب کردہ نمائندوں کوبنانی چاہئے‘ شہریوں کو بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہونی چاہئے اور یہ کہ عدلیہ کو عاملہ سے آزاد ہوناچاہئے۔اپنے اس ذہنی پس منظر اور نقطئہ نظر کے ساتھ قائداعظمؒ نے اسلام کا مطالعہ کیا اور اس اطمینان بخش نتیجے پر پہنچے کہ عمر بھر وہ جن اصولوں کی علمبرداری کرتے رہے ہیں‘ اسلامی جمہوریت کی بنیاد بھی انہیں اصولوں پر قائم و دائم ہے۔ قائداعظمؒ اسلام کے محقق یاماہر خصوصی نہیں تھے اور اسی لئے اُنہوں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ اسلامی اصولوں کو تاریخ میں آنے والی حقیقتوں نے کس طرح اورکیونکر تباہ و برباد کردیا۔ ان کا مقصد اسلامی جمہوریت کے اصولوں کا احیاء تھا، اسلامی تاریخ کی پیچیدگیوں کی تشریح نہیں تھا۔ قائداعظمؒ بخوبی آگاہ تھے کہ اسلام کی وساطت سے رسول اکرمؐ نے دنیائے عرب میں ایک دینی و سیاسی انقلاب کی تکمیل کردی تھی۔ منتشر و متحارب قبائل باہم متحد ہوگئے اور عرب ایک واحد جماعت یعنی امت کی حیثیت میں دنیا میں ابھرے۔
 قائداعظمؒ نے کراچی بار ایسوسی ایشن کو 25 جنوری 1948ء کو خطاب کرتے ہوئے پیغمبر اسلامؐ کو زبر دست خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اُنہوں نے فرمایا:۔ ’’تیرہ سو سال قبل ہی حضورؐ نے جمہوریت کی بنیاد رکھ دی تھیں۔ رسول اکرمؐ عظیم مصلح تھے۔ عظیم رہنما تھے۔ عظیم واضح قانون تھے۔ عظیم سیاست دان تھے اورعظیم حکمران تھے۔۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اسے پسند نہیں کرتے۔ اسلام رسوم‘ روایات اور روحانی تصورات کا مجموعہ نہیں ہے‘ اسلام ہر مسلمان کیلئے ضاطبہ حیات بھی ہے جس کے مطابق وہ اپنی روز مرہ زندگی‘ اپنے افعال و اعمال اور حتیٰ کہ سیاست و معاشیات اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ اسلام سب کیلئے انصاف‘ رواداری‘ شرافت‘ دیانت اور عزت کے اعلٰی اصولوں پر مبنی ہے۔ توحیدِ ربانی اور مساواتِ انسانی اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔ اسلام میں انسان، انسان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مساوات‘ آزادی اوراخوت اسلام کے اساسی اصول ہیں‘‘۔ اسلامی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی وضاحت قائداعظمؒ نے سبی دربار (بلوچستان) میں 14فروری 1948ء کو اپنی تقریر میں یوں کی:۔ ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضح قانون‘پیغمبر اسلامؐ نے ہمارے لئے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور نظریوں پر رکھنی چاہئیں ۔ اللہ نے ہمیں حکم دیاہے ’’مملکت کے امورومسائل کے بارے میں فیصلے مشوروں اور باہمی بحث وتمحیص سے کیا کرو‘‘۔ اس امر پر فقہا کا اجماع ہے کہ سر برآ وردہ شخصیت یا ملت کے چند سرکردہ اشخاص کی جانب سے خلیفہ کاانتخاب یا نامزدگی یا تعیناتی یا تقرر قانونی طور پر جائز اوردرست تبھی تھاا ور صرف اس وقت مسلم و موثر سمجھا جاتاتھا جب پوری کی پوری امت اس کے ہاتھ پر بیعت کرے۔ پوری امت کے اظہارِ وفاداری کی صورت ہی میں اللہ تعالٰی کی رضا کے ساتھ‘ اسے خلافت کے ممتاز عہدے پر فائز سمجھا جاتاتھا۔ یہ درست ہے کہ اسلام کے اوائل دور میں عوامی رائے یا توثیق محض رسمی بیعت کی صورت میں حاصل کی جاتی تھی لیکن یاد رہے کہ اس زمانے میں جو نمایاں اور سربر آوردہ لوگ خلیفہ کا انتخاب یا نامزدگی یا تقرر کرتے تھے‘ وہ آنحضورؐ کے صحابہ کرام ؓ تھے جن پر امت کو کامل اعتماد اور بھروسہ تھا۔ خلافت کے خاتمے کے بعد مسلم مفکرین نے اسلامی جمہوریت کا جو اصول اس اجماع سے اخذ کیاوہ یہ ہے کہ حکومت عوام کے براہ راست چنے ہوئے نمائندوں کو بنانی چاہئے۔ چنانچہ اسی بنا پر علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ مسلم ممالک میں قانون ساز اسمبلیوں کی تشکیل و ترتیب اسلام کی اصل روح کی طرف مراجعت ہے۔ قائداعظمؒ اس نقطئہ نظرسے پوری طرح باخبر تھے۔ اُنہوں نے فروری 1948ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لوگوں کے نام ایک تقریر ریکارڈ کرائی تھی۔ اس تقریر میں اُنہوں نے اسی نقطئہ نظر کی ترجمانی یوں کی:۔ ’’پاکستان کا دستور بھی بننا ہے اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس دستور کی شکل وہیئت کیا ہوگی لیکن اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا او اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل۔ ان اصولوں کا اطلاق آج کی عملی زندگی میںبھی اسی طرح ہوسکتا ہے جس طرح تیرہ سو سال پہلے ہوا تھا۔ اسلام اور اس کے نظریات سے ہم نے جمہوریت کا سبق سیکھا ہے۔ اسلام نے ہمیں انسانی مساوات‘ انصاف اور ہرایک سے رواداری کادرس دیاہے۔ ہم ان عظیم الشان روایات کے وارث اور امین ہیں اور پاکستان کے آئندہ دستور کے معماروں کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے بخوبی آگاہ ہیں‘‘۔ اس سے ایک ماہ قبل 25جنوری 1948ء کو قائداعظم نے کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔ ’’کسی کو ایسی جمہوریت‘مساوات اور آزادی سے خوف کیوںلاحق ہو جو انصاف‘ رواداری اور مساوی سلوک کے بلند ترین معیار پر قائم کی گئی۔۔۔۔ان کو کہہ لینے دیجئے ۔ ہم دستورِ پاکستان بنائیںگے اور دنیاکو دکھائیں گے کہ یہ رہا ایک اعلٰی اور مثالی نمونہ!‘‘
4جولائی 1947ء کو نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس ہوئی۔ قائداعظم نے اخبار نویسوں کے سولات کے جواب دئیے۔ بعض سوالات پاکستان کی ریاست کی نوعیت و ماہیت کے بارے میں بھی تھے۔مثلاً:۔
سوال: پاکستان سیکولر ریاست ہوگایا تھیوکر یٹک؟
مسٹر جناح: آپ مجھ سے ایک مضحکہ خیز سوال کا جواب پوچھ رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا تھیوکریٹک ریاست کیاچیز ہے۔۔۔۔؟
(اخباری نمائندے نے بزعم خویش اطلاع بہم پہنچائی کہ تھوکریٹک ریاست وہ ہوتی ہے جہاں ایک خاص مذہب کے لوگوں مثلاً مسلمانوں کو تو مکمل شہریت حاصل ہو لیکن غیر مسلموں کو مکمل شہری قرارنہ دیاہو)
مسٹر جناح: پھر تو جو کچھ میں پہلے کہہ چکاہوں‘ وہ چکنے گھڑے پر پانی ڈالنے کے مترادف ہے۔(قہقہہ) جب آپ جمہورت کی بات کرتے ہیں تومیں یہی خیال کرتا ہوں کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال پہلے سیکھ لی تھی۔ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ قائداعظمؒ پاکستان میں اسلامی ریاست کے روایتی نمونے کا ازسرِ کے ناموں سے یاد کیاجاتاہے۔ اسلامی ریاست کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں ان کا تصور یہ تھا کہ یہاں وفاقی پارلیمانی طرز کی جمہوریت ہوگی جس میں باقیما ندہ اختیارات مشمولہ اکائیوں کے پاس ہوں گے، ریاست کی نظر میں تمام شہری بلالحاظِ ذات و عقائد برابر ہوں گے، انہیں یقین تھاکہ یہ اصول کسی طوربھی دینِ اسلام کے احکامات سے متصادم نہیں ہیں ۔انہوں نے بارہا اس امر کا اعادہ کیاکہ پاکستان کوئی مذہبی ریاست نہیں ہوگی۔ المختصر‘ قائداعظم ایک ایسی جدید جمہوری اسلامی فلاحی ریاست کے علمبردار تھے جس میں ایک با اختیار مقننہ باہمی مشاورت کے ذریعے شرعی احکامات کی تشریح وتو ضیح کر کے وقت کے تقاضوں کے مطابق قانون سازی کرسکے گی۔ بالفاظ دیگر انہوں نے کبھی یہ نہ سوچا تھاکہ پاکستان میں اسلامی ریاست کی متروک ماہیئت نافذ العمل ہوگی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جہاں انہوں نے سیکولرازم کے داعیوں سے نظریاتی بُعد برقرار رکھا تھا، وہاں انہوں نے ’’مولویوں اور مولانائوں‘‘ کا پیش کردہ اسلامی ریاست کا نمونہ بھی مسترد کردیا تھا۔ قائداعظمؒ نے 5فروری 1938ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اپنی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کی حاصل کردہ کامیابیوں سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کے حوالے سے اپنے نقطئہ نظر کی بھی وضاحت کردی تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا:۔ ’’مسلم لیگ نے جو کچھ کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے آپ کو‘ مسلمانوں کے رجعت پسند عناصر سے آزادی دلادی ہے اور یہ تاثر پیدا کردیاہے کہ جو لوگ خود غرضی پر مبنی کھیل رہے ہیں‘ وہ غدار ہیں۔ اس نے آپ کو مولویوں او مولانائوں کے ناپسند یدہ عنصر سے بھی نجات دلادی ہے۔ میں مولویوں کے بارے میں من حیث الجماعت بات نہیں کر رہا ہوں۔ ان میں بعض ایسے ہیں جو اتنے ہی محب وطن اورمخلص ہیںجتنا کوئی دوسرا ہوسکتا ہے لیکن ان میں ایک طبقہ ایسا ہے جو ناپسندیدہ ہے۔ برطانوی حکومت‘ کانگرس‘ رجعت پسند عناصر اور نام نہاد مولویوں سے رہائی پانے کے بعد کیا میں نوجوانوں سے اپیل کرسکتا ہوں کہ وہ ہماری خواتین کو بھی نجات دلادیں۔ ایسا کرنا ضروری ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مغرب کی برائیوں کی تقلید کریں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی نہ صرف ہماری سماجی بلکہ سیاسی زندگی میں بھی حصہ لیں‘‘۔ عام طورپر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی تحریری ضمانت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دستور میں دی گئی تھی لیکن قائداعظمؒ اپنے ہم عصر مسلم مفکرین کی طرح یہ یقین رکھتے تھے کہ انسان کے بنیادی او ر قابل انتقال حقوق کے تحفظ کی تحریری ضمانت سب سے پہلے قرآن مجید نے دی تھی۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دستور کا تصور بھی آنے سے پہلے، براعظم امریکہ کے دریافت ہونے سے بھی بہت پہلے‘ جدید مغربی تہذیب کی پیدائش سے بھی بہت پہلے۔ قرآن مجید نے انسان کے جن بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی ہے‘ وہ اسلامی جمہوریت کے بنیادی اصول ہیں۔ کسی فانی انسانی طاقت میں اتنی جرات نہیں ہوسکتی کہ ان پر ابہام پر پردہ ڈال دے یا ان کومسخ یا مسترد کردے کیونکہ یہ احکام الٰہی کا جزو ہیں۔ انسان کے مندرجہ ذیل بنیادی حقوق قرآن و سنت میں آسانی سے دستیاب ہوسکتے ہیں:۔
-1قانون کے رو بروتمام شہریوں کی مساوات نیز مرتبے اور مواقع کی برابرای۔ -2ضمیر اعتقاد اور مذہب کی آزادی ۔-3 جان کے تحفظ کا حق ۔ -4ملکیت کے تحفظ کا حق۔-5کوئی کسی کے برے اعمال کی سزا نہیں بھگتے گا۔ -6شخصی آزادی ۔ 7۔اظہار رائے کی آزادی  -8 نقل و حرکت کی آزادی۔9۔اجتماع کی آزادی ۔
 -10نجی زندگی کے تحفظ کا حق۔ -11زندگی کی بنیادی ضروریات حاصل کرنے کا حق ۔12۔ عزت کے تحفظ کا حق ۔ -13مناسب عدالتی کارروائی کے مطابق فیصلے کا حق۔
 قائداعظم ؒ ان قرآنی حقوق سے بخوبی آگاہ تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اُنہوں نے مساوات وحریت اور مذہبی آزادی کو نسبتاً زیادہ اہمیت دی۔ مساوات کے حق کے سلسلے میںوہ قرآن مجید کی اس آیت سے پوری طرح واقف تھے:’’ اے انسانو! اپنے رب کا حکم بجالانے میں کوتاہی مت کرو جس نے تم کوایک واحد روح سے پیدا کیااور پھر اس سے مادہ تخلیق کی اور پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔‘‘ (1-4) مذہبی آزادی کے سلسلے میں قائداعظم اس قسم کی آیات قرآنی سے بخوبی آگاہ تھے:’’دین کے معاملات میں کوئی زبردستی نہیں‘‘ (156-2)۔ غیر مسلم مذہبی اقلیتوں کے تحفظ اور رواداری کے متعلق قائداعظمؒ قرآن مجید کی اس ہدایت سے ناآشنا نہیں تھے’’ اگر اللہ نے طاقتور حملہ آوروں کے تدارک کیلئے ایک جماعت (یعنی مسلمانوں کی) پیدا نہ کی ہوتی تو نصاریٰ کے کلیسا‘ یہود کے عبادت خانے‘ خانقاہیںاور مسجدیں جن میں اللہ کی پرستش بکثرت کی جاتی ہے‘ منہدم ہوگئے ہوتے۔‘‘ (4-22) قائداعظمؒ جانتے تھے کہ اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو غیر مذاہب کے لوگوں کیلئے رواداری کا سلوک کرنے کی تلقین کی ہے‘ بلکہ انہیں یہ حکم بھی دی گیا ہے کہ انکی حفاظت میں غیر مسلموں کی جو عبادت گاہیں ہیں‘ ان کا تحفظ ان کا فرض ہے۔ قائداعظمؒ کے نزدیک پاکستان کے مطالبے اور اسے حاصل کرنے کی جدوجہد کی حقیقی وجہ یہ تھی کہ متحدہ ہندوستان میں ان بنیادی انسانی حقوق کے سلب ہونے کا شدید خطرہ پیداہوگیاتھا۔ اپنی اس تقریر میں جو اُنہوں نے چٹاگانگ کے جلسئہ عام میں 26مارچ 1940ء کو کی تھی، آپ نے ارشاد فرمایا:۔ ’’ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی بنیادمعاشرتی اسلامی مساوات، انصاف اور اسلامی سوشلزم کے اصولوں پر رکھی جائے جو بنی نوع انسان کی اخوت و مساوات (برابری) پر زور دیتے ہیں تو آپ میرے اور لاکھوں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔یونیورسٹی سٹیڈیم ‘ لاہور میں ایک عظیم الشان جلسئہ سے ‘ جو 30اکتوبر 1947ء کو منعقد ہوا تھا‘ خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایاتھا:۔’’اسلام کے اصولوں نے ہر مسلمان کو یہ سکھایا ہے کہ وہ بلالحاظ رنگ و نسل اپنے پڑوسیوں اور اقلیتوں کی حفاظت کرے۔ 11اگست 1947ء کو پاکستان دستور ساز اسمبلی کے مشہور خطبہ صدارت میں قائداعظمؒ نے اعلان کیا:۔ ’’آپ آزاد ہیں۔ آپ عبادت کیلئے اپنے مندروں میں جانے میں آزاد ہیں۔ آپ اپنی مسجدوں میں جانے میں آزاد ہیں۔ آپ مملکت پاکستان میں اپنے عقیدے کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں جانے میں آزاد ہیں۔ آپ خواہ کسی مذہب‘ فرقے یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں‘ امور مملکت کواس سے کوئی سروکار نہیں ۔۔۔۔ ہم اس زمانے میں آغاز کررہے ہیں جبکہ دو فرقوں کے درمیاں کسی قسم کا امتیاز روانہیں ترجیح نہیں دی جاتی ۔ ہم اس بنیادی اصول سے آغاز کررہے ہیں کہ ہم سب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں اور برابر کے شہری۔۔۔۔ پس ہمیں اس نصب العین کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور آپ وقت کے ساتھ ساتھ دیکھیں گے کہ نہ ہندو رہے گا اور نہ مسلمان مسلمان ‘ مذہب کے معنوں میں نہیں کیونکہ یہ تو ذاتی عقیدے کا معاملہ ہے‘ بلکہ سیاست کے معنوں میں جب ہر شخص مملکت کا شہری ہوتاہے‘‘۔ (جاری)

مزیدخبریں