قائداعظم تاریخ کے جھروکوں میں

زندہ قومیں اپنے محسنین کو سر کا تاج بناتی ہیں نا کہ فراموش کر دیتی ہیں۔ وہ عظیم ہستیاں جو کہ اپنا آج آنے والی نسلوں کے کل کیلئے قربان کر دیں۔ بلاشبہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہتی ہیں۔ ایسی ہی عظیم ہستیوں میں سے ایک عظیم ہستی قائداعظم کی بھی ہے کہ جن کی بے پناہ صلاحیتوں سے معمور ہستی نے بیسیویں صدی میں برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا وہ آپ ہی کی ذات تھی کہ جس نے مسلمانان ہند کی صحیح رہنمائی کی اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مسلمانوں کو آزادی جیسی نعمت سے نوازا۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ قوموں کی رہنمائی کا حق اسی شخص کو پہنچتا ہے جس میں قیادت کے بارِ گراں کو سنبھالنے کی تمام صلاحیتیں موجود ہوں۔ آپ کی خودداری اور قوت فیصلہ چٹان کی طرح تھی۔ امانت و دیانت، متانت و شرافت، علم و دانش، خلوص و وفا اور مستقل مزاجی کی تمام صفات آپ میں موجود تھیں۔ آپ کا ہر فیصلہ درست اور اٹل ہوتا جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے۔ آپ کے منے سے نکلنے والا ہر فیصلہ درست اور اٹل ہوتا، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے، آپ کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ دشمن کے عزائم کو متزلزل کر دیتا تھا یہی وجہ تھی کہ ربّ کائنات نے آپ کو اس عظیم کام کیلئے چُن لیا تھا ورنہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے مسلمانوں کی حالت زار انتہائی کمزور تھی جس کی جھلک ہر اہم موقع پر دیکھنے کو ملتی۔
”وجے لکشمی سے کسی صحافی نے پوچھا کہ گاندھی بڑے لیڈر تھے، یا جناح ؟ تو انہوں نے جواب دیا ’جناح!‘ کیونکہ اگر گاندھی بڑے لیڈر ہوتے، تو ہندوستان دولخت نہ ہوتا۔“ عظیم انسان، اپنی عظیم اور اعلیٰ سوچ اور عمل سے بنتا ہے۔ اس میں شروع سے ہی خدا ایسی عادات اور سوچ عطا فرما دیتا ہے کہ بچپن ہی سے ان کے مستقبل کی جھلک دور اندیش آنکھیں دیکھ لیتی ہیں۔ آپ بچپن ہی سے اعلیٰ اطوار کے مالک اور محنتی تھے۔
اگر ہم غور کریں تو یہ حقیقت ہمیں سمجھ آتی ہے کہ قائداعظم نے وکالت کا جو پیشہ اختیار کیا اس کے پیچھے یہ جذبہ موجود تھا کہ وہ دنیا کے ضمیر کی عدالت میں بحیثیت وکیل اپنی آزادی کا مقدمہ پیش کریں گے۔ آپ ایک باوقار اور خوددار انسان تھے، اپنے مقاصد کو وقار سے حاصل کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اگر ہم تصور میں لائیں کہ جب انگریز اور ہندوﺅں کے مظالم تلے مسلمان کراہ رہے تھے ایسے میں آزادی کا مطالبہ کر دینا گویا شیر کے منہ میں ہاتھ ڈال دینے کے مترادف تھا لیکن قائداعظم نے نہ صرف مطالبہ کیا بلکہ آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کیلئے دن رات ایک کر کے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مسلمانانِ ہند کی بڑی تعداد کو منزل مُراد تک پہنچا دینے کے بعد خالق حقیقی کو جا ملے۔

ای پیپر دی نیشن