عزیز ظفر آزاد
حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی سیاست کا آغاز مسلم حقوق کی بحالی کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم اتحاد کی جدو جہد سے ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ سر سید کی طرح آپ نے دونوں قوموں کے اتحاد و تعاون سے انگریز حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا مگر ہندو قیادت کے مستقتل تعصبانہ رویے نے حضرت قائد اعظم کو اس نتیجے پر پہنچا دیا کہ دونوں قومیں آپس میں بڑا تضاد رکھتی ہیں لہذا مسلمانان ہند کو علیحد ہ مادر وطن کیلئے کمر بستہ ہونا چاہیے جہاں اپنے دین کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔ آپ نے مسلم قوم کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بیڑہ اٹھایا ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانان برصغیر کی واحد نمائندہ جماعت قرار دے کر ہر مکتبہ فکر کے خاص و عام کو مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی۔ حضرت قائداعظم نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کے عمل کو وسیع پیمانے پر ہر مسلم مردو زن بلا تفریق رنگ نسل علاقہ ایک پرچم تلے جمع ہونے کا پیغام عام کیا ۔ آپ نے برصغیر میں موجود علمائے کرام مشائخ عظام سے باقاعدہ روابط قائم کر کے ان سے رہنمائی کی درخواست کی ۔ طلبہ اور خواتین کی تنظیمیں قائم کی گئیں ۔ نیشنل گارڈ کے نام پر نوجوان منظم نظر آنے لگے ۔ ہندوستان کے کونے کونے گوشہ گوشہ میں حضرت قائد نے خود جا کر مسلم لیگ کی تنظیمیں قائم کیں ۔ برصغیر میں بکھری ہوئی مسلم قوت کو یکجا کرنے کا عظیم کارنامہ سر انجام دیا ۔ اس عظیم عمل کے دوران ایسے واقعات پیش آئے کہ عرصہ سے موجود علاقائی اور قومیت کی بنیاد پر قائم تنظیمیں مسلم لیگ کے ساتھ جڑنے کو تیار ہوئیں جیسے مسلم راجپوتان ہند یا انجمن آرائیاں کے علاوہ دیگر تنظیموں نے اپنے تشخص کو قائم رکھتے ہوئے مسلم لیگ میں شمولیت کا ارادہ ظاہر کیا، مگر حضرت قائداعظم نے یہ کہہ کر وضاحت کر دی کہ مسلم لیگ راجپوتوں جاٹوں پٹھانوں کی جماعت نہیں اس میں شامل ہونے کیلئے صرف مسلم ہونا ضروری ہے اور ہر فرد اپنی ذاتی حیثیت میں مسلم لیگ میں شامل ہو سکتا ہے ۔
قیام پاکستان کے بعد بھی آپ نے بیشمار مرتبہ واضح کیا کہ پاکستان بنگالیوں پٹھانوں پنجابیوں نے نہیں بنایا بلکہ مسلم قومیت کی بنیاد پر قائم ہوا لہذا یہاں علاقائی ، لسانی اور فرقہ واریت کی قطعا گنجائش نہیں ہے ۔آپ نے متعدد بار آگاہ کیا کہ تعصبات قوموں کو برباد کر دیتے ہیں لہذا ہمیں ایسے عناصر سے ہوشیار رہنا ہے جو مسلمانوں میں کسی صورت تقسیم کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔12اپریل 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا "آپ کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اپنے صوبے سے محبت کرنے اور ملک سے محبت کرنے کے معنی اور ان دونوں کے تقاضے الگ الگ ہیں ۔ ہمارے فرائض جو ہم پر پوری مملکت کی طرف سے عائد ہیں وہ ہمیں صوبائیت سے آگے لے جاتے ہیں ۔ ان کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی نظر اپنے خیالات اپنے وطن دوستی کے تصور میں وسعت پیدا کریں ۔ ملک کی خدمت اگر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنی ذات اور صوبائی اغراض کو وسیع تر مقاصد میں ضم کردیں اسی میں سب کی بھلائی اور سب کا فائدہ ہے ۔ سب سے پہلے ہم اپنے ملک کی خدمت کرنا فرض ہے اس کے بعد صوبہ پھر اپنے ضلع قصبے یا گائوں اور سب سے آخر میں خود اپنی ذات یہ نہ بھولیں کہ ہم ایسی مملکت کی تعمیر کر رہے ہیں جسے پوری دنیا ئے اسلام کی قسمت بننا ہے لہذا ہماری نظر وسیع ہونی چاہیے۔ ایسی وسیع کہ وہ صوبائی حد بندی محدود قوم پرستی اورنسلی تعصبات سے بالا تر ہو ۔ہمیں اس وطن دوستی کو فروغ دینا چاہیے جو ہمیں ایک متحد اور طاقتور قوم کے سانچے میں ڈھال سکے ۔ صرف یہی ایک طریقہ ہے جس سے ہم اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں ۔ وہ مقاصد جن کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنا سب کچھ کھویا اور اپنی جانیں قربان کیں ۔ "
حضرت قائداعظم نے 16جون 1948ء کو کوئٹہ میونسپلٹی میں خطاب کرتے ہوئے ایسے ہی خیالات کا اظہار فرمایا " ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے شہر سے محبت کرے اور اس کی بہبود کے لئے کوشاں رہے لیکن یہ بات نہ بھولنی چاہیے کہ شہر یا صوبہ پوری مملکت کا ایک حصہ ہوتا ہے لہذا ہر شخص کو اپنے ملک اور قوم کی بہبود کو اولیت دینی چاہیے ۔ میری لئے انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ صوبہ پرستی کی لعنت پاکستان کے کسی حصہ میں پائی جائے ہم سب پاکستانی ہیں ۔ ہم میں سے کوئی شخص بھی پنجابی ، بلوچی ، سندھی یا بنگالی نہیں ۔ ہم میں سے ہر ایک کو پاکستانی کی حیثیت سے ہی سوچنا ہے محسوس کرنا ہے اور عمل کرنا ہے۔اپنے ملک سے محبت کریں اس کی فلاح و بہبود کیلئے اور بھی کوشش کریں ۔ کسی خاص جگہ سے انس یا تعلق رکھنا بھی ایک ہی معنی رکھتا ہے مگر ایک جز کی حیثیت اسی وقت باقی رہتی ہے جب تک وہ کل کے ساتھ ہے اس سے ہٹ کر اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں رہتی ۔ یہ حقیقت ہے کہ لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں اور مقامی صوبائی فرقہ ورانہ مسائل کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں قومی مفاد سے بے پرواہی برتتے ہیں ۔ یہ پرانے نظام کی یادگار ہے جب آپ کو صرف صوبائی خود مختاری ملنی تھی اور آپ مقامی معاملات کی حد تک برطانوی حاکمیت سے بے پرواہ تھے لیکن اب جب آپ کی اپنی مرکزی حکومت ہے اور بااختیار ہے پرانے انداز میں سوچتے رہنا محض نادانی ہے ۔ صوبائی تعصب ایک لعنت ہے اسی طرح شیعہ سنی وغیرہ کے سلسلے میں فرقہ پرستی بھی ۔ میری برابر یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہوجائے میں نے اس سلسلے میں جو کچھ کیا ایک خادم اسلام کی حیثیت سے کیا اور اپنا فرض ادا کیا ۔قدرتی طور پراس بات سے مجھے سخت تکلیف پہنچتی ہے جب میں بعض پاکستانیوں کو دیکھتا ہوں تو وہ صوبائی تعصب کی لعنت میں مبتلا ہیں ۔ یہ لعنت تو پاکستان سے دور ہی رہنی چاہیے کسی ذاتی غرض کے لئے ملکی مفاد کو بھول جانا خودکشی کے مترادف ہے ۔ سندھی بنگالی پٹھان پنجابی یا بلوچ کی بجائے ہم سب پاکستانی ہیں اور ہمارے لئے یہی کافی ہے ۔"
قارئین کرام ! مسلم قومیت کی بنیاد پر کھڑی ہونے والی ریاست میں آج چار پانچ قومیتوں کا ڈھول پیٹا جارہا ہے اس عصبیت نے پہلے عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت کو دو لخت کر دیا مگر ہم پر جعلی اسناد جعلی ووٹوں سے مسلط جعلی اشرافیہ دشمنوں کے اشاروں پر شیعہ ،سنی، سرائیکی، ہزاروی ، سندھی ، بلوچی کے نعرے سے تقسیم در تقسیم کرنے پر تلی ہیں ہمیں اپنے اسلاف کی تاریخ ساز جدوجہد اور عظیم جذبوں کو دوبارہ بروئے کار لانا ہوگا ۔ ہمارے بزرگوں نے اتحاد کو قوت بنا کر مکار ہندو اور عیار انگریز کو شکست فاش دی۔ ہم انہی جذبوں سے اپنی صفوں میں تطہیر کا عمل کرتے ہوئے میر جعفر اور میر صادق کو نکال کر نشان عبرت بنانا ہوگا تب ہی پاکستان اپنی منزل ایک فلاحی اسلامی جمہوری ریاست کا روپ ڈھال سکتا ہے جس کی منتظر لاکھوں شہیدوں کی روحیں ہیں ۔
قائداعظم اورصوبائی تعصبات
Dec 25, 2013