قائداعظمؒ نے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کو طے کرنے کیلئے 7، 8 اور 9 اپریل 1946ءکو دہلی میں کل ہند کنونشن طلب کیا۔ جس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، ”مرکزی اور صوبائی مجالس قانون ساز کے معزز اراکین! معزز خواتین و حضرات، میں خلوص دل سے آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ کو علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں الیکشن کے معرکے میں فتح و کامرانی عطا کی ہے۔ ہم نے 90 فیصد مسلم حلقوں میں کامیابی حاصل کر لی ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہمیں اب غیر مبہم الفاظ میں اپنے نصب العین کا اعلان کرنا ہو گا۔ جس کے متعلق ہم سب کی ایک ہی رائے ہے کہ ہم پاکستان چاہتے ہیں اور وقت آنے پر ہم اسکے حصول کیلئے اپنی جان قربان کر دیں گے۔ ہندو کانگرس صوبوں کی ازسرنو تنظیم اور مسلم اکثریت والے علاقوں کو خود مختاری دینے پر آمادہ ہے لیکن مضبوط مرکز کی شرط پر جو ہندوستان کے دفاع کیلئے (انکی نظر میں) ضروری ہے۔ سردار پٹیل کہتے ہیں ”کہ ہندو کانگرس یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ یہاں دو قومیں آباد ہیں اور نہ ہی یہ مذہب کی بنیاد پر جداگانہ قوم تسیم کرتے ہیں۔ پنڈت نہروں نے کہا تھا کہ موجودہ صورتحال کا حل یہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی کو تسلیم کر کے اسے ہندوستانیوں پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ کسی مداخلت کے بغیر اپنے اختلافات طے کر لیں۔ تیسری پارٹی کی موجودگی میں جو صورتحال پر قابو رکھتی ہے ان حالات کا سنورنا دشوار ہوتا ہے۔ پنڈت جی نے حال ہی میں ایسے مسخ شدہ پاکستان کی پیشکش کی ہے جو ایک مضبوط مرکزی کانگرسی حکومت کے تابع ہو۔ ان تجاویز کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو پہلے برطانوی حکومت تسلیم کرے۔ جو سول اور فوجی حکومتی نظام سے متعلق ہے۔ یہ سب کانگرس کے حوالے کر دئیے جائیں اور ہندو کانگرس پوری طرح اقتدار کی سیج پر قابض ہو جائے اس وقت آئین ساز مجلس کا کام شروع ہو۔ جسے اقتدار حاصل ہو گا وہ 40 کروڑ انسانوں کی تقدیر کا فیصلہ کریگی۔ پنڈت نہرو کے مطابق اس وقت اس فیصلے کو تسلیم کرنا ہو گا، ورنہ جدال قتال کرینگے“۔ ایسی ”فسطائی گرینڈ کونسل“ کو ایسے مستقل اختیارات سونپ دئیے جائیں جو فوراً دس کروڑ عوام کے مقدر کا فیصلہ نافذ کریگی۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے۔ ہندو مسلم میں سابق صدیوں میں کبھی بھی مجلسی، معاشرتی یا سیاسی اتحاد نہیں ہوا۔
ہندوستان کی وحدت کا تصور سراب ہے۔ متحدہ قومیت کا کوئی وجود نہیں۔ برصغیر کو دو آزاد مملکتوں میں تقسیم کر دیا جائے (بھارت اور پاکستان) کسی بھی عبوری حکومت میں مسلم لیگ کے تعاون کی شرط یہ ہے کہ پہلے پاکستان کے بنیادی اصول کو تسلیم کرو اور یقین دلا¶ کہ پاکستان کا مطالبہ بلاتاخیر پورا کیا جائیگا۔ چنانچہ ایک دستور ساز اسمبلی کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ اسے تسلیم کرنے کا مقصد متحدہ ہندوستان کی اساس کو تسلیم کر لینا ہے اس سے مسلمان ایک بے بس اقلیت بن کے رہ جائینگے۔ ہمارے فارمولا کے مطابق دو آئین ساز ادارے ہونگے ایک بھارت اور دوسرا پاکستان کیلئے۔ ہم ایسی کوئی بھی تجویز منظور نہیں کرینگے جو کسی صورت میں پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کیلئے مضرت رساں اور حقارت آمیز ہو۔ ہمارا مقصد عادلانہ ہے۔ اس لئے خدا ہمارے ساتھ ہے۔ ہمارے قدم آگے ہی بڑھنے چاہئیں“.... اس موقع پر مسلمانوں نے نعرہ ہائے تحسین و آفریں بلند کیا۔
قائداعظمؒ کا ”ک±ل ہند کنونشن دہلی 1946“ میں تاریخ ساز خطاب
Dec 25, 2013