ایک دن پہلے عمران کی مہنگائی ریلی تھی۔ غریبوں کی دلجوئی کے لئے یہ کام عمران کو پسند کرنے والی امیر کبیر عورتیں اور نوجوان کر رہے تھے۔ جن کی طرف خواجہ سعد رفیق نے اشارہ کیا ہے۔ وہ بھنگڑا ڈال رہے تھے اور ڈال رہی تھیں۔ ڈال کو ڈار بھی کہتے ہیں۔ اب ڈار اور ڈالر میں فرق نہیں رہا۔ توفیق بٹ نے لکھا ہے کہ ”جیسے یہ خواتین و حضرات عمران کے ولیمہ پر آئے ہوں“۔ ایسے لباس اور ایسا میک اپ تو شادیوں پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ مائزہ حمید اور پرویز رشید کہتے ہیں کہ عمران اسمبلی میں احتجاج کریں۔ وہاں نوازشریف تو آتے نہیں وہاں بھی اسمبلی سے باہر نکل کر احتجاج کرنا پڑتا ہے۔ ہر احتجاج کا رُخ چودھری نثار کی طرف ہوتا ہے اور اس حوالے سے ڈاکٹر بابر اعوان نے کمال کا جملہ کہا ہے ”نوازشریف نے قومی اسمبلی کو طلاق دے دی ہے“۔ اسمبلی میں غریبوں کے نمائندے امیر کبیر لوگ ہیں۔ یہی اسمبلی عمران نے باہر لگا لی ہے۔ مریم نواز ایک پسندیدہ سیاسی خاتون کی طرح سامنے آ رہی ہیں۔ مگر اُن کا یہ بیان اچھا نہیں لگا۔ لاہورئیے بڑے ظالم ہیں کہ عمران کی ریلی میں نہیں گئے“۔ وہ آ کے دیکھ لیتیں۔ بہت لوگ تھے۔ اگرچہ وہ مظلوم نہ تھے۔ مظلوم تو مہنگائی کے مارے ہوئے غریب لوگ ہیں۔ قرضہ سکیم کے لئے جو نوجوان مریم کی باتیں سُننے آئے تھے۔ وہ بھی غریب نہ تھے۔ غریبوں اور مظلوموں کیلئے مریم ہی کچھ کرے۔
دوسرے دن ترک وزیراعظم طیب اردگان لاہور آ گئے آج بھی مال روڈ بند تھی۔ دفعہ 144 تو رانا ثنااللہ نے لگائی تھی۔ کل بھی دفعہ 144 کے کم از کم 144 ٹکڑے کئے گئے۔ جب وزیر قانون اپنے قانون کی حفاظت نہیں کر سکتے تو اس تکلیف کا کیا فائدہ۔ تھانے میں عمران خان، شیخ رشید، منور حسن اور نامعلوم اڑھائی ہزار کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پہلے تو رانا صاحب یہ بتائیں کہ شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی، اعجاز چودھری، علیم خان، عندلیب عباس، ڈاکٹر یاسمین راشد نامعلوم ہیں؟ محمودالرشید کے لئے تو کہہ سکتے ہیں اُن کے لئے معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کہاں ہیں۔ کیا اس مقدمے کا کوئی نتیجہ نکلے گا؟
ایچی سن کالج اور حضوری باغ میں شریک عورتیں اور عمران ریلی میں موجود عورتیں ایک جیسی تھیں۔ ان کے لئے مریم نواز کا کیا خیال ہے۔ مریم کے علاوہ کوئی نہیں جو نوازشریف سے کہہ سکے کہ عمران کا احتجاج زیرو ہو جائے۔ مہنگائی کم کرو اور بیرون ملک دولت واپس لے آﺅ۔ قرضہ لینے اور قرضہ دینے کے تکلف سے نجات مل جائے گی۔ مریم نواز کو لیڈر بننے کیلئے مصنوعی قسم کی سکیموں کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اسحاق ڈار سے بچیں اور اپنے آئیڈیل والد کو بھی بچائیں۔ ایسے بیانات نہ دیں کہ پرویز رشید، رانا ثنااللہ اور خواجہ سعد رفیق کو مات ہو جائے۔ خواجہ سعد رفیق سے امیدیں ہیں۔ انہیں لالو پرساد بنا کے جیل بھجوانے کے لئے ن لیگ کے ہی کچھ لوگ سازش کر رہے ہیں۔ یہ سازش اس سے بھی بڑی ہے کہ انہیں غلام احمد بلور بنا دیا جائے۔ اور وہ گیت گاتے رہ جائیں۔ سُن وے بلوری اکھ والیا۔ وہ ن لیگ کے چند لوگوں میں سے ہیں جو سیاست کرنا جانتے ہیں اور خوشامد سے بچے ہوئے ہیں۔ جبکہ پاکستانی سیاست و حکومت میں خوشامد سے بڑھ کر کارآمد چیز کچھ اور نہیں ہے۔ سیاست میں فائدے اٹھانے والے خوش آمدید اور خوشامد میں فرق نہیں کرتے۔
خواجہ سعد رفیق نے بہت اچھا کہا کہ ہمیں بیرونی امداد کا طعنہ دینے والے عمران خان اب چندہ اکٹھا کرنے بیرون ملک نہیں جائیں گے۔ خواجہ صاحب کو معلوم ہو گا کہ چندہ ماموں کس کا نام ہے۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔ ایک ن لیگئے نے کہا کہ ہم نے میٹرو بس چلا کے دکھا دی ہے۔ یہ موازنہ ٹھیک نہیں ہے۔ ترکی میں ہم نے شاندار ہسپتالوں کو وزٹ کیا تھا۔ ایسا ایک ہسپتال لاہور میں بنا دیا جائے۔ اس کا نام ٹرکش زبان میں رکھ لیا جائے۔ اس کا افتتاح طیب اردگان یا عبداللہ گل سے کرا لیا جائے۔ یہاں میں اپنے ایک اور دکھ کو تازہ کر لوں۔ میں بڑی شرمندگی میں ڈوب کے رہ گیا کہ تجارت اور کاروبار کو فروغ دینے کے لئے ایک تقریب میں شریف برادران نے انگریزی میں تقریر کی اور ترک وزیراعظم طیب اردگان نے ترکی میں تقریر کی۔ یہ ذکر نہ کیا گیا کہ مولانا ظفر علی خان نے بہت پہلے ترکی کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لئے زور دیا۔ راجہ اسد علی خان نے بتایا کہ اس حوالے سے پروفیسر احمد سعید نے زمیندار کے اداریوں پر مشتمل کتاب لکھی ہے۔ ایک بھی پاکستانی ایسا نہ تھا کہ جو ترکی جانتا ہو۔ شہباز شریف کچھ کچھ ترکی جانتے ہیں۔ تو وہ ترکی زبان میں تقریر کرتے۔ اردگان کی تقریر کا ترجمہ بھی انگریزی میں کیا گیا۔ اب نوازشریف کو اردو بھول گئی ہے۔ وہ پنجابی بھی بھول گئے ہیں۔ حضوری باغ میں جب پاکستانی ثقافت کی جھلکیاں پیش کی جا رہی تھیں تو پنجابی گیت گائے جا رہے تھے۔ ”وے بابل اساں اڈ جانا“۔ اس ساری کارروائی کو ترک وزیراعظم نے انجوائے کیا مگر پاکستان کے پنجابی وزیراعظم نے خاص انجوائے نہ کیا۔ آئندہ انگریزی مسلط کرنے والے بیورو کریٹس کو احتیاط کرنا چاہئے۔ وہ خواہ مخواہ نوازشریف کو بور نہ کیا کریں۔ ہم ترکی میں تھے تو ہمیں ایک بھی ترک نہ ملا۔ جو اردو جانتا ہو۔ جبکہ اردو ایک ترکی لفظ ہے۔ شلوار بھی ترکی لفظ ہے اور وہاں کسی نے شلوار ہمارے علاوہ پہنی ہوئی نہ تھی۔ حسن نثار، توفیق بٹ، میاں حبیب اور میں نے شلوار پہنی ہوئی تھی۔ صرف حفیظ اللہ خان نیازی نے پتلون پہنی ہوئی تھی۔ عمران پاکستان میں شلوار پہنتا ہے اور بیرون ملک پتلون۔ پتلون کوٹ تو اب ایک عالمی لباس ہے۔ کسی کو کسی پر اعتراض نہ تھا۔ ترکی والوں نے اپنی زبان کو بھی ترقی یافتہ زبان بنا لیا ہے۔ انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ مگر ہم نے اپنے لئے کیسی کیسی مشکلات بنا لی ہیں۔ ایک اور بھی سوال میرے دل میں ہے اور جواب دینے والا کوئی نہیں۔ عمران کے احتجاج اور اردگان کے استقبال میں کچھ فرق نہ تھا۔ دونوں صورتوں میں ذلیل و خوار ہونے والے عام لوگ تھے۔
حضوری باغ میں ثقافتی عیاشی ہو رہی تھی۔ اور یہ مہمان نوازی کے لئے ضروری بھی تھی۔ مگر سارے شہر میں لوگ ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے۔ باہر مینار پاکستان کے آس پاس ٹریفک پولیس کی بدمعاشی ہو رہی تھی۔ عیاشی اور بدمعاشی۔ لوگوں نے پولیس والوں کو زدوکوب بھی کیا۔ قانون نافذ کرنے والے مظلوم لوگوں کو غیر قانونی کارروائیوں کا نشانہ بناتے ہیں لوگ اگر تنگ آمد بہ جنگ آمد ہو گئے تو پھر کیا ہو گا۔ خدا کی قسم طیب اردگان نے غیر ضروری اقدامات کے لئے نہ کہا ہو گا۔ یہ سب کچھ پاکستانی حکمرانوں کے لئے کیا جا رہا تھا۔ ہم جب ترکی میں تھے تو ہماری ٹریفک میں پھنس کر بھی نہ پھنسے۔ کوئی پریشانی نہ تھی۔ ٹریفک پولیس کے مظالم تھے نہ پولیس کی حکمرانوں اور افسرانوں کے لئے زیادتیاں تھیں۔ ہمارے درمیان وزیراعظم طیب اردگان کی گاڑی بھی تھی۔ وہ ہماری طرح ٹریفک کو انجوائے کرتے ہوئے جا رہے تھے۔ ترکی کو اپنا آئیڈیل بنانے والے حکمرانوں سے گزارش ہے کہ ذاتی زندگیوں میں بھی ان کا کلچر لائیں۔ حکمرانوں کے لئے ٹریفک میں ہاتھا پائی کرتے ہوئے لوگ داتا دربار جا رہے تھے۔ آجکل داتا صاحب کا عرس ہے۔ حضوری باغ میں اپنا شاہی دربار لگانے والے داتا دربار حاضری دیتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ دربار تو ان لوگوں کی قبریں ہیں۔ حکمرانوں کی قبروں پر خاک بھی نہ اڑتی۔ داتا دربار پر حاضری دینے والوں کو درباری نہیں کہتے تو پھر درباری کون ہیں؟
مجھے برادرم شاہد رشید نے بتایا کہ بہت بڑے صوفی اور ولی اللہ پیر مہر علی شاہ کی تقریب کے لئے مال روڈ والا دروازہ بند ہے تم دوسرے دروازے سے آنا۔ اس دروازے تک پہنچنا بھی ممکن نہ تھا۔ ہر طرف پولیس ہی پولیس تھی۔ ناکے ہی ناکے تھے۔ پولیس والے عام لوگوں سے بہت بدتمیزی بھی کرتے ہیں کہ یہ افسران اور حکمران کی سکیورٹی اور پروٹوکول کے لئے ضروری ہے۔ مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی نے صدارت کرنا تھی اُن کو بھی پولیس نے نہ آنے دیا۔ وہ واپس نوائے وقت چلے گئے مگر وہ بے تاب تھے۔ برادرم شاہد رشید نے خاص طور پر ان کے لئے اہتمام کیا اور گاڑی کے ساتھ پولیس بھیجی۔ مجید صاحب نے اپنے خطاب میں بتایا کہ پولیس والوں کے ساتھ مجھے نکلتے ہوئے دیکھ کر دفتر والوں نے سمجھا کہ مجھے گرفتار کر کے لے جایا جا رہا ہے۔ مگر میں سید پیر معین الحق کی محبت میں پیر مہر علی شاہ کے لئے منعقد کی گئی تقریب میں گرفتار ہو کے آنا بھی سعادت سمجھتا ہوں۔ میں اب پیر معین الحق گیلانی گولڑوی کی زیر حراست رہنا چاہتا ہوں۔ میں گرفتار گولڑہ شریف ہوں۔
مدینہ میں نظریہ پاکستان فورم کے صدر خالد عباس، ذوالفقار راحت اور جسٹس (ر) نذیر اختر نے خطاب کیا۔ نزاکت گولڑوی گولڑہ شریف کے لئے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ رانا ارشد بھی سٹیج پر تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 31 دسمبر کو آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی صد سالہ تقریب ڈاکٹر مجید نظامی کی صدارت میں ہو رہی ہے۔ مرحوم حمید نظامی فیڈریشن کے پہلے صدر تھے۔ خواجہ سعد رفیق بھی شریک ہونگے کہ کبھی وہ بھی پاکستان سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر تھے۔
عمران کا احتجاج اردگان کا استقبال ایک جیسا
Dec 25, 2013