قائدِاعظمؒ کے چٹان کی طرح مضبوط اور غیر متزلزل عزم کے بغیر قیام پاکستان ممکن نہ تھا

پاکستان کی جدوجہد آزادی  کے بارے میں گزشتہ 65 سالوں کے دوران بہت سے مورخین نے پاکستان اور بھارت کے علاوہ برطانیہ اور دیگر ممالک میں درجنوں کتابیں تصنیف ہوئی ہیں ان میں اگرچہ ستمبر 1940ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہور ریزولوشن کے بعد تحریک پاکستان کے نتیجہ میں اگر 1947ء  میں پاکستان کا معجزہ برپا ہونے کا خاص طور پر ایک مورخ اور تجزیہ کار نے نئی ریاست کے بانی محمد علی جناحؒ کی قائدانہ صلاحیت اور کرشماتی شخصیت کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ہے لیکن تحریک پاکستان  اور لاہور ریزولوشن کے بارے میں ہندوستان اور برطانیہ کے بعض پاکستان مخالف شرانگیز عناصر جن میں بدنیت ان ممالک کے حکمران عناصر بھی شامل تھے انہوں نے یہ گمراہ کن تاثر پھیلانے کی کوشش کی کہ لاہور ریزولوشن برطانوی حکومت کی سازش اور سوچ کی پیداوار تھا جس کا مقصد ہندوستان کے اندر کاغذ کی جدوجہد  آزادی کو اندر سے کھوکھلا اور کمزور کرنا تھا اسی مقصد کے لئے آل انڈیا کانگرس اور آل انڈیا مسلم لیگ  کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا تھا چنانچہ  1940ء    کے اوائل میں آل انڈیا کانگرس کی طرف سے ہندوستان کے طوق غلامی کو اتار پھینک کر آزادی کی قرارداد ہے۔ عوامی توجہ ہٹانے کے لئے مسلمانوں کو لاہور ریزولوشن کی طرف مائل کیا گیا اس وقت کے بعض  مسلم لیگ مخالف  حلقوں نے وائسرائے ہند اور وائسرائے  کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن سر ظفر اللہ خان کا بھی قائداعظم محمد علی جناحؒ پر اثر انداز  ہونے کی کئی کاوشوں کا ذکر کیا  جن میں لاہور ریزولوشن کے ذریعے  مسلمانوں  کے لئے کئی مراعات اور سرکاری عہدوں میں پہلے سے زیادہ  حصہ مانگنے کی سودا بازی اور اس سے بڑھ کر ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے برصغیر میں ایک سے زیادہ کئی آزاد مملکتوں کا مطالبہ کا مشورہ بھی دیا گیا تاکہ ہندو کانگرس کی تیزی سے پھیلتی ہوئی آزادی کی مہم کے آگے آل انڈیا مسلم لیک کو بند باندھنے کے لئے استعمال کیا جائے۔ 
ایسا پروپیگنڈہ کرنے والے اپنے مدمقابل قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فولادی ارادے اور اپنے طے شدہ آہنی حصول مقصد کے لئے اٹل ارادہ کی خصوصیت سے نابلد اور بے خبر تھے  کہ ہندو کانگرس کا ایک ایسے فرزند اسلام سے ٹاکرا ہے جس کے بارے میں اقبالؒ نے کہا تھا…؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا 
مسلمانان ہندوستان کا اپنے لئے ایک آزاد مملکت کا مطالبہ 1939ء  کی دوسری جنگ عظیم کے بعد کانگرس کے برطانوی راج سے آزادی کی قراردادوں کو کمزور کرنے اور آل انڈیا مسلم لیگ کو اس  غرض کے لئے وائسرائے  ہند یا برطانیہ کے دیگر وفادار مسلمان لیڈروں یا شخصیات جن میں اس وقت کے سرآغا خان حیدر آباد کے نظام دکن پنجاب کے وزیراعظم جناب سکندر حیات برطانوی وزیراعظم کی خواہش پر سب کے سب مل کر ایڑی چوٹی کا زور بھی لگا لیتے تو محمد علی جناحؒ جیسے بطل جلیل کو اپنے قیام پاکستان کے ارادے سے سرمو ہٹا نہیں سکتے تھے یہ ایک حقیقت ہے کہ قائداعظمؒ کی ولولہ خیز اور 20ویں صدی کی بے مثال  سیاسی بصیرت کے  باعث ہندوستان میں 1937ء  کے انتخابات کے بعد 1939ء کی جنگ عظیم کے آغاز پر صوبائی سطح پر ہندو کانگرس  کی 27 ماہ کی حکومت کے دوران کانگرس حکومت کی ہندوانہ  برہمن ذہنیت  اور مسلم کش  کردار ننگا ہو گیا تھا ہر صوبائی حکومت مسلمانوں کے خلاف ہاتھ میں چھری اور منہ میں رام رام کہتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہ کرتی تھی جس کے نتیجے میں قائداعظم محمد علی جناحؒ  کے پورے ہندوستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے دورے مسلمانوں کی بیداری کے لئے ایک فکری انقلاب  کا باعث بنے جس کے نتیجے میں ان تمام صوبوں کے مسلم لیگ کے نمائندے  ستمبر 1940ء  کے تاریخی مسلم لیگ اجلاس میں شرکت کے لئے مدراس، مہاراشٹر،  ناگ پور، بھوپال، لکھنئو، یو پی اور سی پی کے صوبوں سے پاکستان کے حق میں نعرہ بلند کرنے کے لئے جب لاہور پہنچ گئے تو محمد علی جناحؒ  کے بدترین دشمنوں کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ دبلا پتلا دراز قد سینہ تانے گرج دار آواز کا حامل محمد علی جناحؒ برصغیر کے 99 فیصد مسلمانوں کا UNDISPUTED واحد ایسا قائد ہے جس کی ایک انگلی  کے اشارے پر لاکھوں انسان اٹھ کھڑے ہوتے یا بیٹھ جاتے ہیں پورا مجمع  اتحاد ایمان اور تنظیم کا ایک ناقابل بیان معجزہ  کی حیثیت کا حامل ہے۔ جناحؒ،  اقبالؒ کے اس شعر کا ایک کامل تاریخ ساز کردار تھا۔  …؎ 
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے  
مجھے یکم مارچ 1940ء  کی وہ شام کبھی نہ بھولے گی جب اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی گرائونڈ میں طالب علموں کے علاوہ قائداعظمؒ نے انگریزی  زبان میں اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ میں کیا تھا۔ 
"TODAY IS THE FIRST OF MARCH. LET US MARCH ON"
میں یہ کبھی نہ بھلا سکوں گا کہ 23 مارچ 1940 کے تاریخ ساز اجلاس کو سرکاری و سیاسی سطح پر بشمول وائسرائے گورنر پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب سر سکندر حیات قائداعظمؒ پر ہر طرح کے حیلے بہانوں امن و امان کے خطرات بشمول خاکساروں کے ساتھ پولیس کا ٹکرائو قائداعظمؒ کو اپنا ارادہ اور اجلاس کا منٹو پاکستان میں ہی مقررہ تاریخ اور وقت پر اعلان پر بلاتعمل  ڈٹے رہنا ان کے فولادی عزم کی آئینہ داری کرتا ہے۔
ایسا ہی مظاہرہ قائداعظمؒ نے جو نئی دہلی ہوٹل میں ان پر قاتلانہ اقدام کا مرتکب ہوا تھا۔ قائداعظمؒ نے اکیلا ہونے کے باوجود مبینہ قاتل کو اپنے آہنی ہاتھوں کی مضبوط گرفت  میں لے کر ماتھے پر شکن  پڑے بغیر اپنے باڈی گارڈ کے حوالے کر دیا۔ قائداعظمؒ کی زندگی موجودہ  نسل کے لئے ایک روشنی کا مینار ہے لیکن ہم سب شرمندہ ہیں کہ جس عظیم قائد کی شب و روز کی کاوشوں سے ہم کو اللہ نے آزادی کی نعمتوں سے نوازا ہے ہم اتنے ناشکرے اور خودغرض بن چکے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ  پاکستان کو بانی قوم کے تصورات کے مطابق تشکیل  دینے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ یہ مملکت نا اسلامی ہے نا جمہوری قدروں کی ترجمانی  کرتی ہے اور نہ اپنے شہریوں کے ساتھ ان قدروں کی پاسداری کرتی ہے جس کا حکم ہم کو میثاق مدینہ میں ملا تھا اور جس کی نشاط ثانیہ  کے لئے قائداعظمؒ نے اس مملکت کو اسلام کی تجربہ گاہ  کے طور پر ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست دنیا کے سامنے پیش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔  وزیراعظم پاکستان  نے حال ہی میں اپنے 2025ء  ویژن  اور اگلے پانچ سالہ پلان 2013-2018ء  کی منصوبہ بندی پر وہ قائداعظمؒ کے "VISION OF PAKISTAN" کی تکمیل کے لئے کم از کم اپنے وعدہ اور عزم کا اعلان فرمائیں گے؟ تاکہ ان کا یہ اعلان قائداعظمؒ کی روح کی تسکین کا باعث ہو۔

کرنل (ر) اکرام اللہ....قندیل

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...