ہم قائد اعظم کے مجرم ہیں

جو قومیں اپنے محسنوں کو فراموش کر دیں وہ حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہیں۔ ہم قائد اعظم کو ان کا حق ادا نہیں کر سکے۔ دنیا کی تمام بڑی قومیں اپنے قائد ین کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے احترام کرتی ہیں۔ انکے دل اپنے قائدین کے اقوام کیساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہ اپنے اپنے قائد کو بطور نمونہ پیش کرتی ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہم اپنے عظیم قائد کو دنیا میں روشناس کروانے میں بُری طرح ناکام ہیں۔ تمام بڑے ممالک کے رسائل و جرائد میں انکے قائدین کے کارناموں پر سیر حاصل مضامین شائع ہوتے ہیں لیکن ہمارے رسائل و اخبارات ان کی پیدائش یا وفات پر ہی انکے بارے میں کچھ تحریر کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ ہم قائد اعظم سے صرف اس حد تک محبت کرتے ہیں کہ انکی تصویر کرنسی نوٹ پر چھپی ہوئی ہے۔ہندو ذہنیت نے ہمیشہ کینہ پروری کا مظاہرہ کیا ہے۔ گاندھی فلم بنا کر انھوں نے گاندھی کو نمایاں اور قائد اعظم کے مرتبے کو گھٹانے کی کوشش کی ہے حالانکہ اس وقت کے وائسرائے اور دنیا کے حکمرانوں نے قائد اعظم کی فراست و ذہانت کا بھرپور اعتراف کیا تھا۔ وہ گاندھی کے مقابلے میں قائد اعظم کو امن و سلامتی کا علمبردار قرار دیتے تھے۔ جس وقت گاندھی نے عدم تعاون کی تحریک شروع کی تو قائد اعظم نے اسے تخریب کاری قرار دیکر مثبت راہ اختیار کی۔ اس وقت کے عالمی جرائد و اخبارات نے قائد اعظم کے اقدامات کو تحسین کی نظر سے دیکھا۔ دنیا کے بڑے بڑے سیاست دان اس بات پر متفق تھے کہ اگر کسی سیاست دان کو پرکھنا یا جانچنا ہو تو قائد اعظم کو بطور کسوٹی تصور کیا جائے۔اگر میدان سیاست میں قائد اعظم کا موازنہ دنیا کے تمام سیاست دانوں سے کیا جائے تو قائد اعظم بے داغ اور بااصول انسان دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے وقت کو بدلا‘ وقت کیساتھ نہیں چلے اور نہ ہی اپنے اصولوں پر سودا بازی کی۔‘ انھوں نے غلامی کی زنجیریں کاٹیں‘ غلامی کا طوق گلے میں نہیں ڈالا۔ انھوں نے کانٹوں پر سفر کیا لیکن زخموں کی شکایت نہیں کی۔ انھوں نے زہر کا پیالہ پی کر تریاق ڈھونڈ لیا۔ انھوں نے قافلے لٹائے اور منزل کو سینے سے لگایا۔ انھوں نے آنسو بہائے اور خوشیاں بانٹیں‘ انھوں نے اپنے خون کے دیے جلائے اور مسلمانوں کو روشنی عطا کی۔ انھوں نے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹا اور مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ وہ بیماری سے نڈھال ہو کر بستر مرگ پر لیٹ گئے۔ لیکن مسلمانوں کو پھولوں کی سیج بخش دی۔ وہ دشمنوں کے سینوں میں غروب ہوئے اور مسلمانوں کے سروں پر طلوع ہوئے۔ حالات نے انکی آواز بند کر دی لیکن وہ مسلمانوں کو بولنا سکھا گئے۔ مسلمان غلام تھے وہ انھیں آقا بنا گئے۔ قائد اعظم اپنی ذات میں ایک تحریک تھے۔ انھوں نے انگریزوں‘ سکھوں اور ہندوئوں کی مشترکہ قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انگریزوں کو اپنی طاقت‘ اقتدار اور ہندوئوں کے تعاون پر بھروسہ تھا لیکن قائد اعظم کو خدا کی ذات اور مسلمانوں کے اتحاد پر یقین تھا۔ چند سنہری اصولوں پر گامزن ہو کر اس نے ایک منتشر قوم کو ایک پلیٹ فارم عطا کیا۔ ہم قائد اعظم کی بڑی بڑی باتوں کا بڑی تفصیل کے ساتھ تذکرہ کرتے ہیں اگر ہم قائد اعظم کی چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ دیں تو ظاہر ہو گا کہ انکے چھوٹے چھوٹے اصول کتنے عظیم تھا۔ مثلاً اگر انکی کوئی تصویر کرسی پر بیٹھتے ہوئے نظر آئے تو بغور مشاہدہ کیجیے کہ انھوں نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کبھی کسی دوسری چیز کا سہارا نہیں لیا۔وہ جب بھی کسی گول میز کانفرنس یا میٹنگ میں گئے کبھی میز پر نہیں جھکے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اپنے دست و بازو پر بھروسہ کیا اور کبھی کسی دوسرے پر بھروسہ نہیں کیا۔ یہی درس انھوں نے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کو دیا کہ انھیں صرف اور صرف اپنی قوت پر بھروسہ کرنا چاہیے۔لیکن اسکے مقابلے میں ذرا آج کے سیاست دانوں کا حال ملاحظہ کر لیں کہ وہ کس حد تک اصولوں اور وقت کے پابند ہیں۔ عوام تو بعض سیاست دانوں میں تاحال فیصلہ نہیں کر پائے کہ انکی پارٹی کونسی ہے کیوں کہ آجکل کے موسمی سیاست دان پارٹی اس طرح تبدیل کرتے ہیں جس طرح پولیس افسران کے تبادلے ہوتے ہیں۔ بات چل رہی ہے کہ ہم قائد اعظم کے مجرم ہیں۔ دنیا میں بعض جگہ قائد اعظم کی شناخت بھارت ہے اور بھارت کی شناخت قائد اعظم۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں مسلمانوں کو انڈین کہا جاتا ہے۔ اسکی وجہ کیا ہے؟ اس کی تمام تر ذمہ داری ہمارے ذرائع ابلاغ اور اساتذہ کرام پر عائد ہوتی ہے۔ اگر قائد اعظم محمد علی جناح کے کارناموں اور انکی شخصیت کے بارے میں عالمی سطح کے مضامین شائع ہوتے رہیں تو آج کی دنیا قائد اعظم کی حقیقت کو سمجھ سکتی ہے۔نسل نو قائد اعظم کے بارے میں کیا جانتی ہے؟ اس کا جواب بہت مایوس کن ہے۔ نسلِ نو قائد اعظم کو کیونکر اور کیسے سمجھ سکتی ہے؟ جشن آزادی کے موقع پر’’ہے جمالو‘ بینڈ شو‘ جھنڈیوں اور تقریروں کی گہما گہمی میں ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی خدمات عالیہ کا تذکرہ اس موقع پر اشد ضروری ہے افسوس کی بات ہے کہ یہ فریضہ حکومت اور سیاستدانوں کو ادا کرنا چاہیے تھا۔ لیکن سیاستدان تو کردار کُشی کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔خودغرض عناصر کو اسلام سے نہیں اسلام آباد سے محبت ہے۔ کرسی اقتدار کے حصول کیلئے یہ لوگ اپنا سب کچھ بیچنے کو تیار ہیں۔ خدا کا دیا ان لوگوں کے پاس سب کچھ ہے بس غیرت کی کمی ہے۔ خداوند تعالیٰ سے دعا ہے کہ خدا ان لوگوں کو غیرت کی دولت سے مالا مال فرمائے۔قائد اعظم محمد علی جناح نے پشاور کے تعلیمی اداروں کیلئے اپنی جائیداد کا بڑا حصہ مختص کر دیا تھا ۔ وہ طالب علموں کو مستقبل کاامین سمجھتے تھے ۔ 16 دسمبر 2014ء برو ز پیر 10:20بجے دن آرمی پبلک سکول پشاور میں قیامت صغریٰ برپا ہوگئی ۔  150 قیمتی پھول مرجھا گئے اور200 پھول پتیوں کی صورت میں بکھر ے پڑے ہیں ۔دہشتگردوں نے قوم کے دلوں پر حملہ کر کے اپنی موت کو دعوت دی ہے ۔ آج قائد اعظم کی اس امانت پر اندرونی و بیرونی حملے جاری ہیں ۔ 16دسمبر کا واقعہ ایک اور زخم بھی ہرا کر گیا جب 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دو لخت ہوا تھا ۔ میرا دل خون کے آنسو روتا ہے جب میں اس بات پر توجہ دیتا ہوں کہ جب قائد اعظم کا وصال ہوا تو ایمبولینس دستیاب نہ ہوئی اور جب 2013ء میں میرے عظیم قائد کی یاد گار کو کوئٹہ میں آگ لگائی گئی تو وہاں فائر بریگیڈ نہ پہنچ سکا۔  سیاست کے گورکھ دھندے میں مایوس قوم پھر کسی قائداعظم کی منتظر ہے۔ اگر توجہ کی جائے تو قائداعظم کے سنہری اصول ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت ناقابل فراموش اور یکتا ہے۔ ہر پاکستانی کو چاہیے کہ وہ قائد اعظم کے اقوال پر عمل کرے اورانکی تشہیر کرے۔…؎
وقت ہی کو جو بدل دے وہ ہے انسان عظیم
وقت کے ساتھ بدلنا کوئی کردار نہیں

ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم 

ای پیپر دی نیشن