اقربا پروری کے ناسور کا خاتمہ … قائداعظم کی راہ عمل اپنائیں

وطن پاک ایک طویل عرصہ سے بے شمار سیاسی، آئینی معاشرتی اور معاشی مسائل سے دو چار ہے اور مسائل کے حل کیلئے کبھی بھی سنجیدگی اختیار نہیں کی گئی۔ جس کیوجہ سے دن بدن ملک میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ان جملہ مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ سیاسی وحکومتی امور میں اقربا پروری ہے۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اب تو ‘‘سیاست‘‘ شاید صنعتی و تجارتی سیاستدان کی بدولت باقاعدہ ایک ’’صنعت‘‘ کا روپ دھار چکی ہے۔ مختلف صنعتی و تجارتی خاندان اس ریلے سیاسی ریس میں کچھ اس انداز سے درآئے ہیں کہ مردوں کے علاوہ خواتین بھی اس ریس میں شریک ہیں۔ اس حقیقت سے کون شنا سا نہیں کہ سیاست نے جب سے کاروبار کا لبادہ اوڑھا ہے تب سے سیاسی امور میں ذاتی و خاندانی و صنعتی منفعت کا عمل دخل بڑھ گیا ہے۔ کسی بھی حکومت نے اس بڑھتی ہوئی وبا کا تدارک نہیں کیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ بانی پاکستان قائداعظمؒ نے چالیس سالہ جہد مسلسل سے بتدریج مختلف ارتقائی منازل اور بے شمار مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی معجزاتی و کرشماتی شخصیت کی بدولت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی، ایک اسوقت اقرباء پروری موجود تھی! اتنی نہیں جتنی آج ہے۔ آئے ہم چند حقائق کا جائزہ لیں جن سے یہ امر واضح ہوجائے گا کہ قائداعظم نے اس وائرس کا بروقت تدارک کیا جس کے خاطر خواہ نتائج مرتب ہوئے۔
قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کے بھانجے اکبر پیر بھائی بیرسٹر تھے اور بمبئی میں وکالت کرتے تھے، کراچی آئے، آپ سے ملے اور دوران گفتگو آپ نے پوچھا کہ کب تک یہاں ٹھہر نے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں کراچی مستقل رہ کر قانونی و عدالتی پریکٹس کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے اپنے بھانجے پیر بھائی سے فرمایا۔میری قرابت داری کیوجہ سے تمہاری اہلیت اور ہماری ضرورت کے باوجود، یہاں تمہیں کوئی عہدہ نہیں دیا جاسکتا۔ پیر بھائی نے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں ملازمت کا خواہشمند نہیں ہوں، میں آپ سے الگ تھلگ رہ کر وکالت کروں گا۔
قائداعظم نے فرمایا ’’ مجھے معلوم ہے کہ تم اچھے وکیل ہو۔ لیکن میرے احترام کیوجہ سے اہل مقدمہ اور عدالتوں کا تمہارے حق میں رجوع خارج از مکان نہیں۔ لہٰذا میں تمہیں یہاں وکالت کا مشورہ نہیں دے سکتا‘‘ جس پر پیر بھائی واپس بمبئی چلے گئے اور وہیں وکالت میں بڑا نام کمایا۔
تقسیم ہند کے بعد پنڈت جوہرلال نہرو وزیراعظم کی بہن وجے لکشمی پنڈت کو سوویت یونین میں پہلا بھارتی سفیر بنایا گیا۔ جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے تحریک قیام پاکستان میں تن من دھن سے اپنے عظیم بھائی کے شانہ بشانہ شب و روز کام کیا۔ کسی کے پوچھنے پر کہ آپ نے قیام پاکستان کے بعد کوئی عہدہ و غیرہ نہیں سنبھالا، تو مادرملت کا تاریخ ساز بیان ’’تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم ہر جگہ مجھے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ انہوں نے مجھے سیاسی یا حکومتی عہدہ اسلئے نہیں دیا تھا کہ انہوں نے اپنے لئے یا اپنی بہن کے لئے پاکستان نہیں بنایا تھا بلکہ پوری قوم کے لئے بنایا تھا۔ اگر میں اقتدار کی بھوکی ہوتی تو لاکھوں کروڑوں لوگ ہمارا ساتھ کیوں دیتے‘‘
قائداعظم اقربا پروری کے بیحد مخالف تھے۔ آپ کی بہن محترمہ شیریں بائی کے مطابق ’’جب مرحوم چند ریگر نے قائداعظم کے بیرسٹر بھانجے اکبر پیر بھائی کو مقامی مسلم لیگ کی کسی ذیلی کمیٹی کی چیئرمین بنانے کی تجویز آپ کو دی تو انہوں نے یہ کہہ کر تجویز مسترد کردی،’’اکبر کی سب سے بڑی نااہلیت یہ ہے کہ وہ میرا رشتہ دار ہے‘‘
قیام پاکستان کے چند ماہ بعد پہلے وزیر صنعت و تجارت آئی آئی چندریگر کے بیٹے نے امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس شروع کیا۔ قائداعظم کو پتہ چلا تو آپ نے چند ریگر کو طلب کیا، فرمایا، ’’مسٹر چندریگر! یا آپ اپنی وزارت رکھیں، یا اپنے بیٹے کا کاروبار، تمہاری چوائس ہے۔ انہوں نے قائد محترم کی رفاقت رکھی لیکن اپنے بیٹے کا کاروبار ختم کردیا۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ وطن عزیز کے اوائل کے دور میں قائداعظم اور ان کے رفقاء نے حکومتی عہدوں کے دوران کوئی منافع بخش کاروبار نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان 1953ء تک مقروض نہ تھا۔ آج وطن عزیز کی معیشت جس زبوں حالی کا شکار ہے۔ اسمیں سب سے بڑی وجہ معاشی بدعنوانی، ملکی وقومی اداروں میں کرپشن، صنعتی سیاست، حکمرانوں سے لیکر تمام با اختیار طبقات ملکی دولت نہ صرف خود لوٹ رہے ہیں بلکہ ان کے عزیز و اقارب بھی برابر کے شریک ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ملک کے اہم ادارے جن میں پاکستان سٹیل ملز، پی آئی اے، واپڈا، او جی ڈی سی، وغیرہ کی نجکاری کے نام پر لوٹ سیل کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ چاہئے تو یہ کہ جن کرپٹ حکمرانوں اور افسر شاہی نے ان اداروں کو برباد کیا ہے انہیں معاشی دہشت گردی قرار دے کر لوٹا ہوا ملکی خزانہ برآمد کیا جائے اور ان پر غداری کے مقدمات چلائے جائیں تاکہ آئندہ عبرت کا نشان بن جائیں۔ اور وطن پاک کو غیر ملکی قرضوں سے نجات دلا کر عوام کو خوشحال کیا جاسکے۔

ای پیپر دی نیشن