اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے طاقت کے استعمال کے سوا اب کوئی راستہ نہیں ٗ دہشتگردی کے خلاف سیاسی قیادت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ٗ انسداد دہشتگردی کیلئے جو اقدامات اٹھائے گئے ہم ساتھ ہیں ٗ سزائے موت دیتے وقت کوئی امتیاز نہ برتا جائے ٗ آئینی و قانونی ماہرین کی مشاورت سے بننے والی فوجی عدالتوں کی حمایت کریں گے ٗ الطاف حسین نے لال مسجد پر ضرورت سے زیادہ ردعمل دیا ٗ یہ وقت نیا محاذ کھولنے کا نہیں ہے۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فضل الرحمن نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہم سب کی اولین ترجیح ہے۔ دینی مدارس پاکستان کا بہت بڑا تعلیمی نیٹ ورک ہے اور 90 فیصد سے زائد مدارس کا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں اس لئے قومی ایکشن پلان کمیٹی کے اجلاس میں دی گئی سفارشات میں مدارس کو نشانہ بنانے پر ہم نے تحفظات کا اظہار کیا جبکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی متحدہ مجلس علما کا ہدف ہے اور علما نے فرقہ وارانہ رجحانات ختم کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں مجلس علمائے اسلام پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بھرپور تعاون کا اعلان کرتے ہوئے مدارس کو نشانہ بنانے کے کسی بھی منصوبہ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والی کتابوں پر صرف پابندی کافی نہیں بلکہ ناشر اور مصنف کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے جبکہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وزیرداخلہ کی طرف سے 10فیصد مدار س کے خلاف بیان ایف آئی آر ہے، وہ ثبوت پیش کریں، مجلس علماء نے فرقہ وارانہ رجحانات ختم کرنے کا عزم کر رکھا ہے، وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل قاری حنیف جالندھری نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں قائم مدارس میں کوئی انتہا پسندی یا عسکریت پسندی کی تعلیم نہیں دی جاتی، مجلس علمائے اسلام کا ہنگامی اجلاس مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ اجلاس میں ملک کی مجموعی امن وامان کی صورتحال ‘ سیاسی صورتحال اور سانحہ پشاور کے بعد ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ فضل الرحمن نے مزیدکہا کہ مجلس علمائے اسلام سانحہ پشاور کی نہ صرف شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے بلکہ اسے ایک سفاکانہ جرم قرار دیتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ مجرموں کو دردناک سزا دی جائے۔ انہوں نے کہاکہ مجلس علماء نے فرقہ وارانہ رجحانات ختم کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔