کیا ہم پاکستان کو قائد کی خواہشات کیمطابق ڈھال سکے ؟

25 دسمبر 1876ءکو کراچی میں جو آنے والے وقت میں ایک بڑی بندرگاہ بننے والی تھی اور آجکل ایک کروڑ سے زیادہ آبادی والا شہر ہے میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام محمد علی رکھا گیا بعدازاں ان کا خاندانی نام جناح بھی انکے نام کا حصہ بن گیا۔ 

یہ لڑکا ایک خوبرو نوجوان اور اسکے بعد ایک کامیاب بیرسٹر بنا جو اپنے کام میں مہارت رکھتا تھا۔ انہوں نے جب سیاست میں قدم رکھا تو اسے بھی عبادت کا درجہ دیا۔ جوانی میں ہی انہیں برطانوی حکومت کی طرف سے برصغیر میں سرکاری آئینی امور کیلئے قائم کی جانیوالی اہم کمیٹیوں میں منتخب کیا گیا اور قیام پاکستان کے بعد بننے والی پہلی قانون ساز اسمبلی کے سربراہ بھی وہ بنے۔ وہ جب بھی اسمبلی میں اور سرکاری کمیٹیوں میں خطاب کرتے تو حاضرین پوری توجہ سے انکی تقریر سُنتے تھے کیونکہ وہ ایک بہترین مقرر بھی تھے اور اپنے موضوع پر جو کہتے اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ انکے دلائل نہایت لاجواب ہوتے۔ اس بات کا اعتراف انکے مخالفین بھی کرتے ہیں کہ انکی تقریر دل اور دماغ میں گھر کر جاتی تھی۔ وہ ہمیشہ سچ بوتے اور سچائی پر یقین رکھتے تھے۔ انکے مخالف بھی انکی ایمانداری کے قائل تھے۔ مسٹر گاندھی کے بقول ”جناح ٹوٹ سکتا ہے جھک نہیں سکتا“
محمد علی جناح نے اپنی سیاست کا آغاز دادا بھائی نورو جی کے گروپ میں شامل ہو کر کیا۔ بعد ازاں وہ انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہو گئے اور یہاں پر وہ ایک محب وطن اور تحریک آزادی کے نمایاں رہنما بن کر سامنے آئے۔ وہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر برطانوی ہند کی آزادی چاہتے تھے، یہاں گوپال کرشنا گھوکھلے انکے آئیڈیل تھے اور جناح خود بھی چاہتے تھے کہ وہ بھی مسلم گھوکھلہ بن کر دکھائیں۔ گوپال کرشنا گھوکھلے اچانک جوانی میں ہی انتقال کر گئے جس کی وجہ سے کانگرس کی قیادت مسلمانوں کے حوالے سے پالیسی بہتر بنانے میں کمزور پڑ گئی اور اس کیلئے بھارتی مسلمانوں کو سنبھالنا مشکل ہو گیا جو بھارت میں سب سے بڑی اقلیت تھی۔ اس موقع پر محمد علی جناح نے اپنا کردار ادا کیا۔ انہوں نے کانگرس کو اپنی پالیسی کی طرف راغب کیا کہ جنگ عظیم کے دور میں برطانوی راج اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ انڈیا کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دے۔ اس ضمن میں انہوں نے لارڈ آئرن اور برطانوی وزیراعظم میکڈونلڈ سے بھی بات چیت کی اور کہا کہ ”برطانیہ کو چاہئے کہ وہ ہند کی آزادی کیلئے ایک واضح پالیسی جاری کرے۔“ یہ انکی بھرپور کوشش تھی کہ کسی طرح وہ برصغیر کو برطانیہ سے آزادی دلا سکیں۔برطانوی وزیراعظم نے اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں بھی پیش کیا۔ اس موقع پر جناح نے پیشن گوئی کی تھی ”اگر تم میری رائے کو غور سے دیکھو گے تو تم بھی اسکے قائل ہو جا¶ گے کیونکہ یہ انڈیا کے سنہری مستقبل کی راہ کھول دے گا۔ برطانیہ کبھی بھی انڈیا کو ایک قوم کے طور پر متحد نہیں رکھ سکتا اور اسے بالآخر انڈیا کو آزادی دینا ہو گی جہاں دو قومیں آباد ہیں اور وہ متحد نہیں رہ سکتیں۔“
بالآخر وہی ہوا جو جناح نے کہا تھا۔
لارڈ ما¶نٹ بیٹن آخری برطانوی وائسرائے بن کر آئے تو اسکی نہرو سے بہت دوستی تھی اور نہرو کے لیڈی ما¶نٹ بیٹن سے بھی اچھے تعلقات تھے کیونکہ نہرو بھی ایک بہترین انگریزی کے مقرر اور مغربی ماحول کے دلداہ تھے جبکہ مہاتما گاندھی ایک لاجواب کرنے والے سیاستدان بھی انکے ساتھ تھے جو متحدہ ہندوستان کے حامی اور برطانیہ سے آزادی چاہتے تھے۔
لیکن قرارداد لاہور کے بعد قائداعظم کیلئے ایک طویل جدوجہد کی راہ کھل گئی جو مسلم وطن کے قیام کا خواب تھی جو علامہ اقبال نے دیکھا، اب انکی جنگ انگریز حکمرانوں، شاطر ہندو کانگرسی لیڈروں کے ساتھ تھی جو مسلمانوں کے ایک علیحدہ وطن کے تصور سے بھی خائف اور ناراض تھے۔ بالآخر قائداعظم کی سیاسی بصیرت اور انتھک جدوجہد نے صرف سات سال کے قلیل عرصہ میں برصغیر کو 1947ءمیں برطانوی راج سے دو علیحدہ خود مختار ریاستوں کی شکل میں آزادی دلا دی‘ یوں برصغیر جسے پہلے تو مغل بادشاہوں نے بعدازاں برطانوی راج نے سیاسی طور پر متحد رکھا صدیوں بعد دو علیحدہ ریاستوں میں تقسیم ہو گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح جو قیام پاکستان کے اصل خالق تھے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ قیام پاکستان کیلئے آپکی خدمات اور کوششیں ناقابل فراموش تھیں انکی صحت اس طویل جدوجہد میں جواب دے گئی مگر آپکی ہمت جوان رہی۔ برطانوی وائسرائے لارڈ ما¶نٹ بیٹن کے الفاظ تھے”اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جناح صرف ایک سال بعد انتقال کر جائیںگے تو میں برصغیر کی آزادی کو کچھ عرصہ کیلئے التوا میں ڈال دیتا۔“
یہ قائداعظم کی عظیم شخصیت ہی تھی کہ بالآخر برطانوی حکومت اور کانگرس کو بھی انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تقسیم ہند کا فارمولہ تسلیم کرنا پڑا۔ بابائے قوم نے آئین ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”میں نے آپ لوگوں کے تعاون سے پاکستان حاصل کیا ہے اب اسے ہم سب نے مل کر مضبوط ملک بنانا ہے۔“
آج بابائے قوم ہمارے درمیان نہیں مگر انکا بنایا ہوا پاکستان جو ہمارے سپرد کیا گیا ہم اسے بھی انکی خواہشات کے مطابق ڈھال نہیں سکے۔ ہم اس بارے میں بابائے قوم کو کیا جواب دیں گے۔ کیا دفاتر میں انکی تصاویر لگانے، نوٹ اور سکوں پر انکی تصاویر چھاپنے سے ہم یہ جان لیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے یا پھر ہمیں انکی تعلیم‘ اتحاد‘ یقین اور تنظیم پر عمل کرکے اس ملک کو عظیم بنانا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن