جی این بھٹ
وہ کہتے ہیں ناں۔ بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں قدرت نے انہیں بات کرنے کا سلیقہ بخشا ہوتا ہے۔ وہ چند لفظوں میں بازی پلٹ دیتے ہیں۔ بڑی سے بڑی بات خندہ پیشانی سے برداشت کر کے ا س کا جواب اتنے دلنشیں انداز میں دیتے ہیں کہ فریق مخالف لاجواب ہو کر رہ جاتا ہے یہی دلنشین انداز قائداعظم محمد علی جناح کو بھی قدرت نے عطا کیا تھا اور وہ چند لفظوں میں دل موہ لیتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی تقریب میں ہندو طالبعلموں کے ایک گروپ نے قائداعظم کو روک لیا اور ان سے سوال جواب کرنے لگے۔ قائداعظم روایتی خندہ روئی کے ساتھ ان نوجوانوں کے تیزوتند سوالات کا بھی مسکرا کر جواب دیتے رہے۔ اسی دوران ایک ہندو لڑکے نے سوال پوچھا کہ ”آپ مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں۔ آخر ہم صدیوں سے اکٹھے رہ رہے ہیں۔“ اس پر قائداعظم چند لمحے کیلئے خاموش ہوگئے تو لڑکوں نے سمجھا کہ قائداعظم لاجواب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے تالیاں بجا کر مسرت کا اظہار کرنا شروع کیا۔ چند لمحوں بعد قائداعظم نے پانی کا گلاس طلب کیا جو ایک مسلمان لڑنے نے لاکر دیا تو قائداعظم نے دو گھونٹ نہایت آرام سے پانی پی کر وہ گلاس ہندو لڑکوں کی طرف بڑھایا کہ وہ یہ پانی پی لیں تو سب لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود سانپ سونگھ گیا اور انہوں نے انکار میں سر ہلایا اس پر قائداعظم نے وہی گلاس اس مسلمان لڑکے کی طرف بڑھایا تو اس نے ایک ہی سانس میں غٹاغٹ وہ پانی پی لیا ۔ اس پر قائداعظم نے مسکراتے ہوئے ان شریر لڑکوں سے کہاکہ یہی وجہ ہے کہ میں مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کر رہا ہوں کیونکہ ہم میں اور آپ میں یہی وہ بنیادی فرق ہے جو آج آپ نے دیکھا۔ یہ سن کر وہ ہندو طالبعلم نہایت شرمندہ ہو گئے اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔