اصل عید تو یہی ہے عید میلاد النبیؐ۔ سارے عالم اسلام میں شاید صرف پاکستان میں عید میلاد النبیؐ بڑے جوش و خروش اور ذوق و شوق سے مناتے ہیں۔ جشن اور سرگرمیاں اسی لئے تو میں پاکستان کو خطہ عشق محمدؐ کہتا ہوں۔ عشق رسولؐ تو اصل ایمان ہے۔ عشق رسولؐ کی روایت پاکستان میں نظر آتی ہے۔ اس خطے میں خطہ عشق محمدؐ میں جو نعت رسولؐ لکھی گئی۔ وہ کہیں نہیں لکھی گئی۔ جو والہانہ پن اور درود و سلام کی کیفیتیں یہاں بکھرتی نکھرتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ کہیں نہیں ہیں۔
ہمارے زمانے کا شرف ہے کہ اسے بہت بڑے شاعر افسانہ نگار اپنے عہد کے ادبی نمائندے احمد ندیم قاسمی نے عہد حفیظ تائب کہا۔ جبکہ ہم یہ بھی کہتے تھے کہ ہم عہد ندیم میں زندہ ہیں۔ ہمارے کہنے اور ندیم صاحب کے کہنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مجدد نعت حفیظ تائب نے عشق رسولؐ کی آنچ اپنے شعروں کی آنکھوں میں رکھ دی۔ وہ غزل بھی بہت اچھی کہتے تھے مگر جب نعت لکھی تو پھر اس کے علاوہ کچھ بھی نہ لکھا۔ انہوں نے اپنی تخلیقی قوتوں کو عشق رسولؐ کی امانت سمجھا۔ میرا اعزاز ہے کہ میں نے کئی مشاعرے حفیظ تائب کے ساتھ پڑھے۔ ہر محفل نعت حفیظ تائب کی موجودگی میں ایک شاندار آسودگی سے سج جاتی تھی۔
آج عید میلاد النبیؐ کے موقع پر مجھے ان کی یاد آ رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ محبوب حقیقی رسول کریمؐ کی تعریف میں حفیظ تائب کی شاعری ایک ایسا اظہار ہے جس کا متبادل کم کم ہے۔
عید میلاد النبیؐ کے لئے بے شمار محفلیں ملک بھر میں ہوتی ہیں۔ لاہور میں خاص طور پر یہ منظر نامہ بہت نکھرتا ہے۔ دلی دروازے سے جلوس نکلتا ہے۔ یہ دن پاکستان کے عاشقان رسولؐ کے لئے بہت اہم ہے۔ اس کیلئے منتظمین میں ریاض مصطفی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یوم ولادت مصطفیؐ اس کے بعد اہم دن یوم شہادت حسینؓ ہے۔ 12 ربیع الاول اور دس محرم مسلمانوں کیلئے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ امام حسینؓ کی شہادت کی خبر بھی آپؐ نے دی تھی۔ امام نے اپنے نانا اور اپنے پیارے رسولؐ کے عشق میں ایسی قربانی دی کہ جس کی مثال پوری تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔
حفیظ تائب کے محبوب نعت خواں اور نعت گو شاعر سرور نقشبندی کے ایم فل کے مقابلے ’’نعتیہ ادب میں حفیظ تائب کی علمی، ادبی اور تحقیقی خدمات کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ کیلئے حفیظ تائب فائونڈیشن کے زیر اہتمام مجید منہاس نے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا۔ اس کی صدارت کا اعزاز مجھے ملا اور میری خوبی صرف یہ ہے کہ میں حفیظ تائب سے محبت کرتا تھا اور ان کی محبت مجھے حاصل تھی۔ ان کے عظیم بھائی مجید منہاس بھی اس محبت کے سفر میں میرے ہمسفر ہیں۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے حفیظ تائب کی یاد میں تڑپتے ہوئے دلوں کو آباد رکھا ہوا ہے۔
ڈاکٹر طاہر رضا بخاری اس محفل کیلئے مہمان خصوصی تھے۔ وہ بہت خوبصورت مقرر ہیں انہوں نے حفیظ تائب سرور نقشبندی اور نعت رسولؐ کے حوالے سے بہت اچھی گفتگو کی۔ اس کیلئے یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور (یو ایم ٹی) بھی مبارکباد کی مستحق ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد سالک کی نگرانی میں یہ ایک بہترین مقالہ ہے۔ مجید منہاس نے اس محفل کا اہتمام کیا اور انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اس مقالے کو کتابی شکل میں شائع کریں گے۔
ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے محکمہ اوقاف کی طرف سے سیرت النبیؐ کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں کیلئے ایک بہترین نمائش کا اہتمام کیا۔ میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ اسلامیات کا مضمون پڑھایا جائے اس کے ساتھ سیرت النبیؐ کے مطالعے کے ذوق کو عام کیا جائے۔ دنیا والوں کو پتہ چلے کہ وہ ہستی کیا تھی جس نے 23 برس کے عرصے میں زندگی کو ایک اور زندگی بنا دیا۔ ایک ایسا انقلاب جو صرف کتاب و خواب کی دنیا میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ آخرت میں جنت کا وعدہ لے کے آئے تھے اور اس دوزخ بنتی ہوئی دنیا کو جنت بنانے آئے تھے اور یہ جنت انہوں نے بنا کے دکھا دی۔ اب بھی یہ جنت بنائی جا سکتی ہے کہ ہم ان کی سیرت کے مطابق زندگی کی صورت بنا لیں۔
سیرت النبیؐ کی کتابوں کی نمائش ایک عشق رسولؐ کے فروغ کیلئے ایک شاندار اقدام ہے۔ اس کیلئے ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کو عارف سیالوی کی معاونت حاصل تھی۔ دوسرے دن جشن میلاد النبیؐ کیلئے ایک بڑے اجتماع کا اہتمام ہوا۔ صدارت کیلئے بیماری کے باوجود وزیر اوقاف عطا محمد مانیکا تشریف لائے وہ میرے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور میں تھے۔ ان کی شخصیت کے سوز و گداز کیلئے میں ذاتی طور پر واقف ہوں۔ اس کے علاوہ دو صوبائی وزیر بھی موجود تھے۔ رانا مشہود اور بلال یسین، قاری صداقت علی نے تلاوت قرآن پاک کی اور سماں باندھ دیا۔ سید افضل حیدر جسٹس خلیل الرحمن، حافظ فضل الرحیم، حافظ محمد اکبر اور مفتی رمضان سیالوی نے خطاب کیا۔ محمد طاہر عزیز نے بہت جذبے سے خوبصورت کمپیرئنگ کی۔ اس یادگار تقریب کیلئے ڈائریکٹر جنرل اوقاف ڈاکٹر طاہر رضا بخاری اور سیکرٹری صاحب نیر اقبال بھرپور مبارکباد کے مستحق ہیں۔
محکمہ اوقاف کی طرف سے ہر سال سیرت اور نعت کے حوالے سے بہترین کتابوں پر ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ معروف شاعرہ شاہدہ دلاور شاہ کو ان کے خوبصورت پنجابی نعتیہ مجموعہ ’’وسیلہ‘‘ اور معروف شاعر ریاض ندیم نیازی کو اردو نعتیہ مجموعہ ’’جو آقا کا نقش قدم دیکھتے ہیں‘‘ کیلئے پہلا ایوارڈ دیا گیا۔ ریاض ندیم نیازی کو اسی کتاب کیلئے قومی سیرت ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ شاہدہ دلاور شاہ کے ’’نعتیہ‘‘ شعر…؎
بہہ کے میں روضے دی جالی دے ہیٹھاں
جو امت تے بیتی اوہ ساری سناواں
اساں تاں ہاں بیمار، بیمار سارے
تساں توں شفاواں شفاواں شفاواں
ریاض ندیم نیازی کے بھی دو شعر حاضر خدمت ہیں…؎
میں ذکر نبیؐ کی بہاروں میں گم ہوں
کرم ہی کرم کے نظاروں میں گم ہوں
نہ پہنچیں گے مجھ تک زمانے کے خطرے
کہ میں رحمتوں کے سہاروں میں گم ہوں