قائد پر سیکولرزم کی تہمت

Dec 25, 2016

ڈاکٹر منور صابر

آج ہم بانی¿ پاکستان حضرتقائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش منارہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اپنے قائد کی وزیراعظم نواز شریف کی سالگرہ کا کیک کاٹے گی۔ آج کا دن مسیحی برادری کے لئے تو سب سے پرشکوہ اور جوش و خروش سے منایا جانے والا دن ہے۔ مسیحی برادری پوری دنیا میں آج بڑی بڑی تقریبات منعقد کررہی ہے۔ پاکستان میں بھی مسیحی برادری یہ دن ہرسال پوری آزادی اور جوش ولولے سے مناتی ہے،اس کی تقریبات میں حکومتی زعما اور عام پاکستانی بھی شریک ہوتے ہیں۔پاکستان میں دوسری اقلیتوں کوبھی اپنے ایام اپنے عقیدے کے مطابق منانے کی مکمل آزادی ہے۔ اقلیتوں کو ایسی آزادی قائد اعظم کے پاکستان کا ثمر ہے۔قائد اعظم پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے سب سے بڑے حامی تھے،اسلام میں اقلیتوں کو جو حقوق دیئے گئے ہیں وہ پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل ہیں۔قائد اعظم کے اقلیتوں کے بارے میں احساس کو کچھ لوگوں سیکولرزم کا نام دیدیا۔بھارت سے محبت‘ اسکے ساتھ تجارت‘ تعلقات کے فروغ اور تقسیم کی لکیر مٹانے کے لئے بے تاب بزعم خویش دانشور قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو نظریہ پاکستان کیخلاف اپنے اندر کے جذبات کو پردہ اخفا میں رکھنے کے بھی قائل نہیں۔ آزادی اظہار کے نام پر اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ یہ نئی نسل کے سامنے قائد محترم کی زندگی کا ایک ہی پہلو رکھتے ہیں۔قائداعظم سیکولر تھے نہ دین سے معمولی دلچسپی رکھنے والے مسلمان وہ تو پکے اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے تاہم افسوسناک امر ہے کہ آپ کی شخصیت کو اس مومنانہ صفات‘ مذہبی جذبات‘ دینی تاثرات اور اسلامی رجحانات کے آئینہ میں پیش نہیں کیا گیا جس طرح پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ آپ کا ہر ارشاد‘ ہر بیان‘ ہر تقریر اسلام کے رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اٹھتے بیٹھے اسلام ہی کو اپنے مخصوص رنگ اور عصری تقاضوں کے مطابق پیش کرتے تھے۔ اگر آپ کی ہر تقریر‘ ارشاد اور عمل کا دیانت دارانہ جائزہ لیا جائے تو وہ اسلام کی کسوٹی پر پورا اتریگا۔ایسا لیڈر کیسے سیکولر ہوسکتا ہے جس کی رہنمائی ہادی¿ اعظم نے کی ہو۔ مولف عبدالمجید ایڈووکیٹ کی کتاب ”زیارت نبوی بحالتِ بیداری“ میں ایک واقعہ درج ہے‘ بقول راوی قائداعظم کے ساتھی ملاقات کیلئے حاضر ہوئے تو قائداعظم گہری سوچ میں غرق تھے‘ مجھے دیکھ کر فرمایا: ”کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مجھے اقبال نے لندن سے واپس بلایا‘ جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ لیاقت علی خان لے کر آئے‘ بے شک ان دونوں حضرات کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے لیکن اصل بات جو مجھے یہاں لائی‘ کچھ اور ہے۔ ایک رات میں لندن میں سو رہا تھا کہ جھٹکے سے آنکھ کھل گئی لیکن میں پھر سو گیا۔ دوسرا جھٹکا ذرا تیز تھا۔ میں نے دروازہ کھول کر باہر کا جائزہ لیا اور اطمینان کرکے دوبارہ سو گیا۔ تیسرے جھٹکے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں اٹھ بیٹھا۔ میرا کمرہ خوشبو سے مہک رہا تھا اور میں کسی کی موجودگی محسوس کر رہا تھا۔ آپ کون ہیں؟ میں تمہارا پیغمبر ہوں‘ ہندوستان جاﺅ اور مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کی رہنمائی کرو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تم کامیاب رہو گے‘ انشاءاللہ۔ اس کے بعد میں جتنی جلد ہو سکتا تھا‘ ممبئی آگیا۔
ایک خواب عالم دین مولانا حسین احمد مدنی کا بھی ملاحظہ فرمایئے جوان کی اپنی کتاب میں درج ہے۔ 1946ءجنرل الیکشن کی ہنگامہ خیزیوں کا زمانہ تھا۔ حضرت مدنی مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے امیدواروں کو کامیاب بنانے کیلئے پورے ہندوستان کا طوفانی دورہ کر رہے تھے۔ صوبہ بنگال میں تمام صوبوں کے بعد الیکشن ہوا تھا اس لئے حضرت اواخر فروری میں نواکھالی تشریف لے گئے۔ قافلہ میں مولانا عبدالحلیم صدیقی‘ مولانا نافع گل اور دیگر چار پشاوری طالب علم تھے۔ 3 مارچ کو گوپال پور تھانہ بیگم گنج پہنچے‘ چودھری رازق الحیدر کے دولت کدے پر قیام ہوا۔ دوسرے دن ایک عظیم الشان انتخابی جلسہ میں تقریر کا پروگرام تھا۔ رات میں گیارہ بجے کھانا تناول فرما کر 12 بجے کے قریب آرام فرمانے کےلئے لیٹ گئے۔ میں پاﺅں دباتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد نیند آگئی۔ ہم لوگ دوسرے کمرے میں جا کر کچھ ضروری کام کرنے لگے۔ تقریباً دو بجے رات میں مجھ کو اور چودھری محمد مصطفی کو طلب فرمایا۔ ہم دونوں حاضر ہوئے تو ارشاد فرمایا کہ لو بھئی! اصحاب باطن نے ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ کردیا۔ میں نے عرض کیا کہ اب ہم لوگ جو تقسیم کے مخالف ہیں کیا کرینگے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہم لوگ ظاہر کے پابند ہیں جس بات کو حق سمجھتے ہیں‘ اس کیلئے پوری قوت کےساتھ جدوجہد جاری رکھیں گے۔ دوسرے دن گوپال پور کے عظیم الشان جلسہ میں تقسیم کی مضرتوں پر معرکة الآراءتقریر فرمائی۔ بالآخر 3 جون 1947ءلارڈ ماﺅنٹ بیٹن گورنر جنرل ہند کے غیرمتوقع اعلان سے اس واقعہ کی حرف بحرف تصدیق ہو گئی۔
(از مولانا رشید احمد صدیقی کلکتہ)
(حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی‘ واقعات و کرامات از حضرت مولانا سید رشید الدین حمیدی‘ مکتبہ ندائے شاہی جامع قاسمیہ مراد آباد انڈیا۔)
قائداعظم کے معالج ٹی بی سپیشلسٹ ڈاکٹر ریاض علی شاہ لکھتے ہیں کہ ”ایک بار دوا کے اثرات دیکھنے کیلئے ہم انکے پاس بیٹھے تھے‘ میں نے دیکھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں‘ لیکن ہم نے ان کو بات چیت سے منع کر رکھا تھا۔ اس لئے الفاظ لبوں پر آکر رک جاتے تھے۔ اسی ذہنی کشمکش سے نجات دلانے کیلئے ہم نے خود انہیں بولنے کی دعوت دی تو وہ بولے۔ ”تم جانتے ہو جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے‘ یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کر سکتا تھا‘ میرا ایمان ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے۔ پاکستان میں سب کچھ ہے‘ اسکی پہاڑیوں‘ ریگستانوں اور میدانوں میں نباتات بھی ہیں اور معدنیات بھی۔ انہیں تسخیر کرنا پاکستانی قوم کا فرض ہے‘ قومیں نیک نیتی‘ دیانت داری‘ اچھے اعمال اور نظم و ضبط سے بنتی ہیں اور اخلاقی برائیوں‘ منافقت‘ زرپرستی اور خودپسندی سے تباہ ہو جاتی ہیں۔“
قائداعظم جیسے راسخ العقیدہ مسلمان نے مملکت خداداد کیا دہریت کے فروغ کیلئے حاصل کی تھی؟ قائد کو سیکولر قرار دینا ان پر ایک تہمت ہے۔

مزیدخبریں