برصغیر پاک و ہند میں جب مسلمانوں پر دن بدن عرصہ¿ زندگی تنگ سے تنگ کیا جارہا تھا تو ایسے میں انہیں ربِّ کائنات نے ایک باوقار، ذہین، جرا¿ت و محنت اور عظمت کی مثال ہستی تحفے کے طور پر پیش کی۔ جنہوں نے آگے چل کر اسلام کے ایک سچے سپاہی کا کردار ادا کر کے کام، کام اور بس کام کا موٹو اپنا کر اپنے بھائیوں کو مشکلات سے باہر نکالنے کیلئے دن رات ایک کر دیا اور غلامی کے شکنجے میں کسی ہوئی اُمتِ محمدی کو ایمان، اتحاد اور تنظیم کا درس دے کر انہیں سنہری اصولوں پر چل کر منزل کے حصول کا تعین کیا اور پھر کارواں بنتا گیا۔ منزل نزدیک سے نزدیک تر آتی گئی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی ذہانت اور سیاسی بصیرت سے ہندوستان کی تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ آپ پر آج تک بہت لکھا گیا اور لکھا جائے گا لیکن یہاں آپ کی ذہانت کے چند واقعات درج کئے جارہے ہیں۔”ایک دفعہ ایک مشہور ہندو لیڈر آپ کے پاس آیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ گاندھی صاحب آپ سے زیادہ بڑے لیڈر ہیں۔ آخر وہ گاندھی کے حق میں بولنے لگا کہ گاندھی جی نے ہندوﺅں کی فلاح و بہبود کیلئے بہت کام کیا اور اِس سلسلے میں وہ کئی بار جیل بھی جا چکے ہیں جبکہ آپ تو ایک دفعہ بھی جیل نہیں گئے۔ قائداعظم نے جواب دیا! ”دیکھئے جیل وہی لوگ جاتے ہیں جو کوئی جرم کرتے ہیں“ جبکہ میں نے ”کوئی جرم نہیں کیا تو میں کیوں جیل جاﺅں“۔ یوں قائداعظمؒ نے انتہائی ذہانت سے جواب دیا کہ وہ لاجواب ہو گیا۔اسی طرح قائداعظم محمد علی جناح کا ایک اور واقعہ مشہور ہے جس سے آپ کی ذہانت کا پتا چلتا ہے۔ 1943ءمیں وائسرائے ہند نے قائداعظم کو مذاکرات کیلئے دعوت دی۔ اِن مذاکرات کے درمیان میں ایک موقع پر وائسرائے نے کہا! ’ ’اگر آپ یہ ضد چھوڑ دیں کہ پاکستان بننا چاہیے اور مسلمانوں کو ایک الگ قوم تسلیم کیا جائے تو میں ہندوﺅں کو قائل کر سکتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو بہت سی مراعات دیں۔ قائداعظم کی جیب میں ایک ریشمی رومال تھا جس پر ہندوستان کا نقشہ کڑھا ہوا تھا اور جس میں مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے یا صوبے سبز رنگ سے دکھائے گئے تھے۔ قائداعظم نے وہ رومال وائسرائے کو دکھایا! اُس نے رومال دیکھ کر کہا! ”یہ کشیدہ کاری کا بہت عمدہ نمونہ ہے“۔ قائداعظم نے کہا! یہ ایک بارہ سال کی لڑکی نے کاڑھا ہے جو پرانی طرز کے مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی ہے۔ اِس نے نہایت شوق سے یہ نقشہ اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بنا کر مجھے پیش کیا ہے۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں لوگوں کو سکھاتا ہوں کہ پاکستان بننا چاہیے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال اَب بچوں کی رگ رگ میں سرایت کر چکا ہے اور مجھے یقین ہے کہ پاکستان کو بننے سے کوئی نہیں روک سکتا“۔ اسی طرح قائداعظم کے سیکرٹری مطلوب حسین سید بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک لڑکے کو دیکھا جس کے سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ خون دیکھ کر رونے لگا۔ میں نے پوچھا تو کہنے لگا ”خون دیکھ کر اِسلئے رو رہا ہوں کہ یہ ضائع جا رہا ہے۔ کاش یہ پاکستان حاصل کرنے کی جدوجہد میں بہتا“۔مطلوب حسین سید کے بقول کہ جب میں نے اِس بات کا تذکرہ قائداعظمؒ سے کیا تو انہوں نے بڑے اعتماد سے جواب دیا کہ ”جب قوم کے بچوں کا یہ جوش و خروش ہے تو کوئی طاقت پاکستان کو بننے سے نہیں روک سکتی“۔جب افراد کے جوش و جذبہ کا یہ عالم ہو تو منزل کا حصول کیسے ممکن نہ ہو۔ آج الحمداللہ پاکستان ایک زندہ حقیقت ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس مملکت کے حصول کیلئے ہمارے بڑوں نے انگنت قربانیاں دیں آج ہم نے اُس کی قدر پہچاننے میں کیوں کمی کی اور اسے کیا دیا۔ محبت کا تقاضہ ہے کہ ہم نے اِس سرزمین سے جتنا لیا ہے آج اِس کی بقاءاور سلامتی اور ترقی کے لئے اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔