قائداعظم نے جب لندن سے وطن واپس جانے کا پروگرام بنایا تو لندن کے بہت سے وکیلوں کی نظر ان کے خوبصورت آفس فرنیچر پر تھی اور وہ اسے خریدنا چاہتے تھے۔
فرنیچر میں میہوگنی کی چند بڑی خوبصورت چیزیں تھیں ایک وکیل نے ان سے کہا کہ وہ انہیں خریدنا چاہتا ہے۔ جناح نے جواب دیا۔ ’’مجھے ان لکڑی کے ٹکڑوں سے کوئی دلچسپی نہیں، تم یہ سب لے لو۔ میں ایک بہت بڑے مقصد کیلئے ہندوستان واپس جا رہا ہوں‘‘۔ واپس آتے ہی محمد علی جناح نے ہندوستان کی سیاست میں نئی روح پھونک دی۔ مسلم لیگ کے جھنڈے تلے مسلمانوں کو متحد کیا اور دو دھاری تلوار بن کر ہندو قیادت اور فرنگیوں کے عزائم کا مقابلہ کیا۔ انکے تحت الشعور میں یہ فکر تھی کہ ہندو، مسلم اب ایک مملکت میں باہم متحد نہیں رہ سکتے اس لیے مسلمانوں کیلئے الگ ریاست ضروری ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی اسلام سے محبت، اس بیان سے صاف ظاہر ہے جو انہوں نے مسلم لیگ کراچی کے 1943ء کے اجلاس میں دیا:۔
’’وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر انکی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے؟ جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ چٹان، لنگر، خدا کی کتاب قرآن کریم ہے، مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائینگے ہم میں زیادہ اتحاد ہو گا، ایک خدا۔ ایک رسولﷺ، ایک کتاب، ایک امت‘‘۔
12 اکتوبر 1945ء کو مسئلہ فلسطین کے حوالے سے انہوں نے جو تاریخی کلمات کہے وہ ان کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ:
“Every man and woman of the Muslim world will die before Jewry seizes Jerusalem. I hope the Jews will not succeed in their nefarious designs and I wish Britain and America should keep their hand off and then I will see how the Jews conquer Jerusalem. The Jews, over half a million, have already been accommodated in Jerusalem against the wishes of the people. May I know which other country has accommodated them? If domination and exploitation are carried now, there will be no peace and end of wars”.
پاکستان کے قیام سے نہ صرف دنیاکے نقشے پر اسلام کے نام پربننے والی پہلی مملکت وجود میں آئی بلکہ تقسیم ہند نے پوری دنیا اوربالخصوص جنوبی ایشیامیں نئی حقیقتوں کو بھی جنم دیا۔ مخالفین کی طرف سے نئے ملک کیخلاف منظم پراپیگنڈے کا آغاز ہوا۔کہاجانے لگا کہ نئی مملکت چند سال بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ قیام پاکستان سے نہ صرف جنوبی ایشیاکی جغرافیائی حدود کا ازسرنو تعین ہوا بلکہ سال ہاسال سے قائم مضبوط برطانوی نوآبادیاتی نظام پر بھی کاری ضرب لگی۔
تقسیم ہندکے نتیجے میں قائم ہونیوالی دونوں ریاستوں بھارت اورپاکستان میں خطے کی سیاست کی نئی راہیں متعین ہوئیں اگر چہ یہ تقسیم دو قومی نظریئے کی بنیاد پر ہوئی مگر اس سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا نیا توازن سامنے آیا۔ آج کا ایٹمی پاکستان دنیاکے نقشے پر مضبوط، سیاسی، دفاعی اور ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کی پہچان رکھتا ہے۔ معاشی میدان کے بدلتے تقاضوں میں پاکستان کی اہمیت دنیا تسلیم کر رہی ہے اور پاکستان، پاک چین اقتصادی راہداری کی شکل میں خطے کی تاریخ کی سب سے بڑی معاشی سرگرمی کا محو ربن چکا ہے۔ قائداعظم نے نظریہ پاکستان کے بارے میں کہا تھا۔ ’’یہ زندگی اور موت کا معرکہ ہے اور ہماری کوشش صرف اس لیے نہیں ہے کہ ہمیں مادی فوائد حاصل ہوں بلکہ یہ تو مسلمانوں کی بقائے روح کیلئے حیات و ممات کا مسئلہ ہے اور اسے سودے بازی سے کوئی واسطہ نہیں۔ مسلمانوں کو اس حقیقت کا پورا احساس ہو چکا ہے اگر ہم شکست کھائیں گے تو سب کچھ کھو بیٹھیں گے۔ آئیے اس ولندیزی ضرب المثل کو اپنا دستور العمل بنائیں۔ ’’جب انسان دولت کھو دے تو کچھ نہیں کھوتا، اگر حوصلہ کھو دے تو بہت کچھ کھو جاتا ہے لیکن روح مر جائے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا‘‘۔
یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جو انتقال کے 69 برس بعد بھی زندہ باد کہلاتا ہے اور کیوں نہ ہو؟
ع…خاک قبرش از من و تو زندہ تر