قحط بنگال بہت بڑا انسانی المیہ تھا۔ اس پر ساحر لدھیانوی بھی لکھے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کی نظم سے چند دردناک شعر:
پچاس لاکھ فسردہ گلے سڑے ڈھانچے
نظام زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
خاموش ہونٹوں سے دم توڑتی نگاہوں سے
بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
زمیں کی قوت تخلیق کے خداوندو
مِلوں کے منتظمو سلطنت کے فرزندو
قحط بنگال میں لاکھوں افراد بھوک سے تنگ آکر گلی کوچوں میں جانوروں کی طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہے تھے۔ اس قحط سالی کی وجہ بنگال میں فضل الحق اور شیاما پرشاد کی وزارتیں تھیں۔ ان کی غلط پالیسیوں اور سیاسی چالبازیوں نے بنگال کو قحط زدہ کر دیا تھا۔ ڈاکٹر امرتاسین نے تاریخ عالم سے یہ بات ثابت کی ہے کہ جمہوریت اگر فعال ہو تو پھر قحط نہیں ہو سکتا۔ جب حالات قابو سے باہر ہو گئے تو قحط زدہ بنگال مسلم لیگ کے سپرد کر دیا گیا۔ 1943ء میں خواجہ ناظم الدین کی سربراہی میں بنگال میں مسلم لیگی حکومت ایک جانب اس آفت کا مقابلہ کر رہی تھی تو دوسری جانب کانگریسی پریس میں ہندو سامراج اس انسانی المیہ کو سیاسی مسئلہ بنا کر الجھا رہا تھا۔ بنگالیوں کی خوراک چاول ہے اور چاول ناپید ہو چکے تھے۔ اصفہانی کمپنی چاولوں کا کاروبارکرتی تھی۔ اصفہانی خاندان مسلم لیگ سے تعلق رکھتا تھا۔ اسی لئے انہیں اس قحط سالی کا موجب قرار دیا جا رہا تھا حالانکہ اصفہانیوں نے قرب و جوار کے کونے کونے سے اجناس جمع کر کے بنگال میں پہنچانی شروع کر دی تھیں۔ اصفہانی خاندان کی ہمدردیاں تحریک پاکستان کے ساتھ تھیں۔ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ مسلم لیگ کے ہراول دستے سے تعلق رکھتے تھے بلکہ یہ بنگال میں مسلم لیگ کے بہت بڑے ستون بھی تھے۔ حسن اصفہانی نے اپنی کتاب ’’قائد اعظم میری نظر میں‘‘ لکھا ہے: ’حضرت قائداعظم نے انہیں فرمایا: حزب مخالف نے مخالفانہ پروپیگنڈہ کیلئے تمہارے خاندان کو اس لئے منتخب کیا ہے تاکہ تم نوجوانوں کو خوفزدہ کر کے ہراساں و پریشان کر دے۔ اس طرح تمہیں مسلم لیگ کا ساتھ چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ہندوئوں کا خیال ہے کہ تم لوگ مسلم لیگ کا ایک مضبوط حصہ ہو اور تمہارا روپیہ ہی بنگال میں مسلم لیگ کو مضبوط کر رہا ہے۔ وہ بیوقوف ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بنگال کے مسلمان اب بیدار ہو چکے ہیںاور یہ سارے اب مسلم لیگ کی پشت پر ہیں۔ انہیں جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہو جائیگا۔ حضرت قائداعظم اصفہانی خاندان کی مسلم لیگ کیلئے خدمات سے خوب آگاہ تھے۔ مسلم لیگ اور اصفہانی خاندان نے اس نازک دور میں بنگال کی بے لوث، انتھک خدمت انجام دی۔ اجناس کے ڈھیر لگائے، فنڈ جمع کئے، کیمپ کھولے، علاج معالجے کا بندوبست کیا۔ مسلم لیگ کی نیک نیتی اور اصفہانی خاندان کی سچائی اور خلوص تھا جس کا اعتراف اس کمیشن کو بھی کرنا پڑا جو قحط بنگال کے اسباب ڈھونڈنے کیلئے انگریز گورنمنٹ نے قائم کیا تھا۔ اس کمیشن کے سربراہ سر آرچیالڈ رونلڈ تھے۔ یہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے فنانس ممبر تھے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ قحط کے زمانے میں اگر بنگال میں اصفہانی کمپنی کی تنظیم سرگرم عمل نہ ہوتی تو تیس چالیس لاکھ اموات یقینی تھیں۔ کمیشن نے قحط بنگال کے سلسلہ میں مسلم لیگ اور اصفہانی کمپنی کو بر ی الذمہ قرار دیا تھا۔ اس موقعہ پر حسن اصفہانی، حضرت قائداعظم کو متواتر تمام حالات اور اپنی سرگرمیوں سے باخبر رکھتے رہے۔ انہوں نے 10ستمبر1943ء کو حضرت قائداعظم کے نام ایک خط میں لکھا: ’شیاما پرشاد مکرجی کی قیادت میں حزب مخالف کی طرف سے ہم پر برابر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے۔ وہ اصفہانی کے پاک صاف نام کو مٹی میں ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حسن اصفہانی نے باخبر کیا کہ مجھے بنگال میں بہت برے دن آگے آنے والے نظر آرہے ہیں۔ انہیں اس صوبہ کی کوئی بھی حکومت نہیں روک سکتی۔ ہم بھی نہیں روک سکتے۔ اس کا صرف یہ حل ہے کہ مرکزی حکومت جن صوبوں میں حالات بہتر ہیں اور وہاں غلہ وافر ہے، وہاں سے بنگال مسلسل بڑی مقدار میں غلہ کی ترسیل کا بندوبست کرے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ پنجاب کے پاس فالتو غلہ موجود ہے لیکن وہاں کی گورنمنٹ بجائے اس کے وہ ہماری مدد کرے، وہ بنگال کی کمزوریاں اور نقائص بیان کرنے میں مصروف ہے۔ حسن اصفہانی نے اگلے روز 11 ستمبر 1943ء کو حضرت قائداعظم کو پھر خط لکھا۔ انہوں نے اس خط میں بصد مسرت بتایا کہ آٹھ روز کے اندر اندر ہمارے چھتیس خیراتی باورچی خانے بنگال کے طول و عرض میں کھل جائیں گے۔ انہوں نے مختلف مقامات سے پہنچنے والی امداد کا بھی تفصیل سے ذکر کیا۔ انہوں نے اپنا تیسرا خط حضرت قائداعظم کے نام 18اکتوبر کو لکھا۔ اس خط میں انہوں نے ایک کارٹون کا اخباری تراشہ بھی بھجوایا۔ اس کارٹون سے ظاہر ہوتا تھا کہ بنگالی سیاست اور سیاستدان کتنے گندے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے نواب اسماعیل اور لیاقت علی خاں کے ان دنوں بنگال کے دورے کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے نہایت خوشی سے حضرت قائداعظم کو یہ اطلاع بھی دی کہ ہمارے مرکزوں سے روزانہ تقریباً اڑتیس ہزار آدمیوں کو کھانا دیا جائیگا۔ 23 اکتوبر 1943ء کو حضرت قائداعظم نے حسن اصفہانی کے 18اکتوبر کے لکھے خط کا جواب دیا ہے۔ پہلے دو خطوط کے جوابات کہیں سے میسر نہیں۔ حضرت قائداعظم نے اپنے اس خط میں شاہ ابن سعود کی طرف سے دس ہزار روپیہ بطور عطیہ بھجوائے جانے کی اطلاع بھی دی ہے۔ 29 اکتوبر1943ء کو حسن اصفہانی پھر جناب قائداعظم کو خط لکھتے ہیں۔ اس خط میں حسن اصفہانی نے ہندوئوں کے مکر و فریب اور چالبازیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ ہندو 80 برس گزر جانے کے باوجود بھی اسی مسلم دشمن ذہنیت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ یہ تمام خطوط ڈاکٹر سید معراج نیر نے’’مکاتیب قائداعظم‘‘ کے نام سے ایک کتاب میں شائع کر کے محفوظ کر دیئے ہیں۔ یہ اصفہانی خاندان کے لئے تمغہ عزت و فضیلت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 5نومبر1943ء کو حضرت قائداعظم نے مائونٹ پلیز نٹ روٹ مالابار ہل سے خط لکھا۔ یہ خط ’مائی ڈیئر حسن‘ کے القاب سے شروع ہوتا ہے ۔ آگے عبارت یوں ہے: ’میں آپکو یقین دلاتا ہوں کہ مسلم لیگ کے ارباب حل و عقد ان لوگوں کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑیں گے جو ہمارے وفا پرست دوست ہیں لیکن اس موقعہ پر بقول آپ کے ناپاک چالبازیوں اور ان غلط الزامات کو جو لگائے جا رہے ہیں، رد کرنے کی غرض سے اقدامات کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے۔ آپ کا بہت مخلص ’ایم اے جناح‘۔ !