عمر ابھی کچی تھی‘ لیکن ہم نے سوچا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مختلف تہذیبوں‘ مختلف نسلوں‘ مختلف بولیوں اور مختلف اداؤں کا باپ کہلانے والا ہو اور اس میں شگفتگی اور نغمگی کی کمی ہو؟باپ منوانا تو اپنے گھر میں آسان کام نہیں اور وہ پوری قوم کا باپ کہلایا۔ خیر وہ کچی عمر میں بھی یہ سب سوچتا رہا کہ حاسد بھی تعریف کرے‘ مخالف بھی قابل ستائش گردانے‘ دشمن بھی مثالیں دے‘ شخصیت میں رعب کے ساتھ ساتھ دلکشی بھی ہو لیکن اس عزم کے ہیرو میں شگفتگی کے رنگ پھیکے ہوں‘ یہ ممکن ہی نہیں۔ قائد کا حسن نظر‘ حسن ظن اور حسن نظریہ دیکھ کر متعصب مغربی کتب میں انہیں حس مزاح سے عاری شخصیت ہی قرار نہیں دیا گیا بلکہ جذبات سے خالی اور سرد مہر بھی قرار دیا گیا۔ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ سردمہری‘ جذبات کا عدم اور حس مزاح کی کمی تو قیادت کے فقدان کی علامتیں ہیں۔
میں ناسمجھ ان دنوں سیاست‘ عورت‘ یونیورسٹی دور‘ بائیولوجیکل سائنسز‘ آمریت اور قیادت کو سامنے رکھ کر طنز و مزاح کی ناکام کوشش کر رہا تھا مگر کوشش تو ’’کوشش‘‘ ہوتی ہے۔ سوئی اس پر اٹک گئی کہ بھلے ہی یہ ’’طنزیالوجی‘‘ ہے لیکن قائد کی بات نہ ہو اور کتاب چھپ جائے ایسے بھی حالات نہیں۔ سوچتا رہا‘ سمجھتا رہا‘ ڈھونڈتا رہا کہ ایک چھوٹی سی تحریر کو کیسے پرو دوں کہ وہ تسبیح کا دیدہ زیب دانہ اور دانا لگے۔ گاہے بگاہے سوچ شگفتگی سے پھسل کر سنجیدگی کی ڈگر پر چڑھ جاتی اور سوچنے بیٹھ جاتا کہ:
راج کوٹ کے پونجا جناح کو کہاں معلوم تھا کہ اس کا محمد علی (25 دسمبر 1876ء تا 11 ستمبر 1948ئ) برصغیر پاک و ہند کے دلوں پر راج کرے گا‘ اور وہ موہن داس کرم چند گاندھی (1869 تا 1948)‘ سری لنکن ڈی ایس سینائیکے (1883 تا 1952)‘ شمالی کورین کم II سنگ‘ ملائشین ٹنکو عبدالرحمن (1903 تا 1990)‘ ترکش مصطفی کمال اتاترک (1881 تا 1938)‘ جرمن کونرڈ ایڈنیور (1876 تا 1967) اور رشین یلسن (1936 تا 2007) کی طرح اقوام کا باپ کہلائے گا۔ ہوسکتا ہے امریکیوں نے جارج واشنگٹن اور فرانس والوں نے نپولین کے اسباق کو فراموش کردیا ہو یا چین اور جاپان اپنے اپنے مائو اور جنموٹینو کی شاہراہ پر نہ بھی چلیں لیکن ان قائدین کا سکہ چلتا رہے گا اور مجسمے تاریخ کی داستان بنے رہیں گے۔ بلاشبہ جن کے ہاں تحریک کی نبض چلتی رہی ہو وہ جہان فانی سے کوچ کرکے بھی تاریخ کی دھڑکن بنے رہتے ہیں۔
قائداعظم کی تحریک‘ تاریخ اور تعریف بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے جیسے ٹرمپ اس نعرے پر آئے کہ میں واشنگٹن کا امریکہ واپس لائوں گا۔ ٹھیک اسی طرح پاکستان میں بھی محمد خان جونیجو‘ ظفراللہ جمالی‘ چودھری شجاعت حسین اور میاں نوازشریف جیسے لیڈران جو مسلم لیگ کا ٹیگ رکھتے ہیں وہ عرصہ دراز سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ قائداعظم کا پاکستان بناکر دم لیں گے۔ کیئوں کے دم نکل گئے اور کئی چراغ سحر ہوئے مگر … آمروں اور ’’غیر مسلم لیگی‘‘ بھٹوئوں‘ نصراللہ خان جیسے نوابزادوں اور عمران خانوں کا بھی نعرہ مستانہ ہے کہ قائداعظم کا پاکستان دیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ لیڈر تو وہ مہان ہوا کہ جس کے نام کے سیاسی چراغ اور اس نام سے اموشنل بلیک میل کرنا سیاست کا صداقت عامہ ٹھہرا لیکن یہ سارے شرکائ‘ یہ سبھی خان‘ وہ سبھی خانقاہوں والے اور یہ مسٹر و ملا قائداعظم سی وقت کی پابندی کہ لوگ آمد دیکھ کر گھڑیاں درست کریں اور وہ تاریخی قول و فعل کی مطابقت بھی لائیں۔
جب ہم نے کچی عمر کی تحریر اور طنزیالوجی کو تذکرہ قائد کے بغیر نامکمل سمجھا تو بے شک متعصب مغربی کتابوں کو غلط پایا اور ننھے سے چیلنج کو بروئے کار لاتے ہوئے دائیں بائیں ہاتھ مارا تو بہت کچھ ہاتھ لگا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سمیع اللہ قریشی اپنی ایک کتاب ’’قائداعظم کی شگفتہ مزاجی‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’طنز و ظرافت اور خوش طبعی‘ ذہین انسانوں کے رویوں کا‘‘ گویا اظہار ہے۔ گالی گلوچ اس کے برعکس مذاق سلیم کے حریف ہیں۔ آخر ہم نے بھی اس طرح کے مختلف پھول اور خوشبوئیں چنیں۔ پھر ’’طنزیالوجی‘‘ کا ذکر قائداعظم سے مکمل کیا اور کچھ رنگ بھرے۔ قائد کی معطر کر دینے والی شوخی اور سنجیدگی سے۔ ایک واقعہ کچھ یوں ہے کہ لیڈی اور لارڈ مائونٹ بیٹن کی قائداعظم کے ساتھ وائسرائے ہائوس میں ایک تصویر بن رہی تھی۔ اس خیال سے کہ لیڈی موصوفہ درمیان میں ہوں گی۔ قائداعظم نے ازراہ مزاح خاتون محترم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا… ’’آپ تو دو کانٹوں کے درمیان پھول ہونگی‘‘
ایک دفعہ بحث طول پکڑ گئی تو انگریز مجسٹریٹ تھک کر بولا ’’مسٹر جناح! میں تو آپ کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتا ہوں‘‘۔ قائد کی بزلہ سنجی یوں متحرک ہوئی کہ ’’جناب والا! آپ کے دونوں کانوں کے درمیان کی جگہ غالباً خالی ہے شاید اس لئے!‘‘
ایسے ہی ایک جج کو تند و تیز جملے اور نشتر زنی کی عادت تھی۔ حسب عادت اس نے قائد سے بھی زور آزمائی کی۔ جب پنگا مہنگا پڑنے لگا تو سفید بالوں کی پناہ پر اتر آیا۔ کہنے لگا مسٹر جناح آپ کو میرے سفید بالوں کا احترام کرنا چاہئے۔ قائداعظم بے ساختہ بولے اور کہا ’’مائی لارڈ! مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ میں اس وقت تک سفید بالوں کی عزت نہیں کرتا جب تک ان کے پیچھے دانشمندی پوشیدہ نہ ہو‘‘۔ قائد حلقہ یاراں میں ایک واقعہ سنا کر اسے یوں کشت زعفران بناتے ہیں کہ ایک دفعہ میں دیکھ رہا تھا کہ سٹیشن پر ایک ہندوستانی جج گاڑی سے اترا۔ ایک انگریز اس کی طرف بڑھا اور پلیٹ فارم پر ٹہلتے ہوئے جج سے پوچھا گاڑی کب جائے گی۔ جج بولا مجھے کیا معلوم؟ اس پر انگریز نے کہا تمہیں معلوم ہونا چاہئے تم سٹیشن ماسٹر نہیں ہو؟ جج جھنجھلا کر بولا میں سٹیشن ماسٹر نہیں ہوں۔ پھر انگریز بولا اگر نہیں ہو تو تم ویسے لگ کیوں رہے ہو؟
بات ہے امرتسر پنجاب کی۔ وہاں سے ڈاکٹر عالم کانگرس کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے مگر بعد میں یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے۔ ایک دفعہ ڈاکٹر عالم تقریر کر رہے تھے کہ اسمبلی میں سے آواز آئی… ’’لوٹا ہے لوٹا‘‘۔ ڈاکٹر عالم نے احتجاج کرتے ہوئے سپیکر کو کہا کہ اسے غیرپارلیمانی الفاظ قرار دیں مگر وہاں راجہ غضنفر علی نے مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’جناب لوٹا وہ اصطلاح جو اس شخص کے خلاف استعمال ہوتی ہے جس کا کوئی اصول نہ ہو اور بار بار وفاداریاں تبدیل کرے‘‘۔ سپیکر نے بات تسلیم کر لی اور اس لفظ کو پارلیمانی قرار دے دیا۔ اگلے دن روزنامہ زمیندار میں اس خبر کے ساتھ ایک قطعہ بھی شائع ہوا جس کے آخری دو مصرعے تھے کہ؎
کوئی بنا مفتی اعظم کوئی بنا قائداعظم
اور ہم تو لوٹائے اعظم بن گئے
ڈنر پر جب یہ بات جناح کو سنائی گئی تو ہنستے ہوئے بولے ’’اب تو رولنگ آ گئی اسے استعمال کیا جا سکتا ہے!‘‘