دسمبر پاکستان اور مسلم لیگ کیلئے بہت ہی خاص اہمیت کا مہینہ ہے بانی پاکستان جناب قائداعظم محمد علی جناح 25 دسمبر کو پیدا ہوئے اور مسلم لیگ کی بنیاد 30 دسمبر کو رکھی گئی۔ یہ دو واقعات دسمبر میں ہمیں پوری تاریخ کے حوالہ سے بہت ہی موزوں اور مسیحائی کی طرح ہمیشہ یاد رہیں گے جبکہ 16 دسمبر کا دن ہماری تاریخ کا سیاہ دن بن چکا ہے۔ 16 دسمبر سقوط ڈھاکہ جہاں 30 دسمبر 1906ء کو مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی اور پھر آرمی پبلک سکول کا واقعہ ہر سال آنسو رلانے کیلئے کافی ہے۔ آج 25 دسمبر کو بابائے قوم کی پیدائش کا دن ملک بھر میں منایا جارہا ہے تو دوسری طرف مسیحی برادری پوری دنیا میں کرسمس کی تقریبات میں مصروف ہے۔ ہمارے ہاں درجنوں مسلم لیگ قائداعظم کے فرموادات‘ تعلیمات اور ارشادات کا دم بھرتی ہیں مگر ابھی تک کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ مسلم لیگ بھی یوم تاسیس 30 دسمبر کو منانے کا اعلان کرتی۔قائداعظم کے بارے کہا جاتا ہے کہ ’’چند ہی لوگ معنی خیز طور پر تاریخ کا رخ پلٹتے ہیں۔ ان سے کہیں کم دنیا کا نقشہ تبدیل کرتے ہیں اور یہ تو شاید ہی کسی نے کیا ہو کہ ایک قومی ریاست تشکیل دی ہو۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کام کئے ہیں۔ پاکستان کے عظیم ترین مدبر‘ سیاستدان اور رہنماء قائداعظم اور اس کے پہلے گورنر جنرل نے حقیقتاً ایک سحر پھونکا اور اپنے ناقابل تسخیر عزم کی طاقت سے ملک کو ایسی ریاست کی شکل دی جو بعد میں پوری مسلم دنیا کی واحد نیو کلیئر پاور بھی بن گئی۔ قائداعظم اپنے ہم عصر سیاستدانوں میں اپنے کارناموں‘ کردار اور پرعزم شخصیت کے حوالہ سے نہایت ہی بلند اور اونچے مینار کا درجہ اختیار کرچکے ہیں۔ برصغیر میں گاندھی‘ جواہر لعل نہرو اور پٹیل جیسی شخصیات قائداعظم سے کم تر اور چھوٹی نظر آتی ہیں۔برصغیر کے تمام سیاستدان مل کر بھی قائداعظم کی طرح کا لائحہ عمل تیار نہ کرسکے اور مذاکرات کی میز پر اپنی دوراندیشی‘ فہم و فراست‘ معاملہ فہمی‘ سحر انگیز اور غیرمتزلزل ارادہ رکھنے والے شخصیت کا مقابلہ نہ کرسکے۔
30 دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں ایک خواب اس طرح ٹوٹا کہ جیسے جمود ٹوٹ گیا ہو اور ڈھاکہ جس کو 1971ء میں بھارت نے قتل عام‘ سازش‘ فوج کشی اور طائف الملوک پیدا کرکے پاکستان سے الگ کیا۔ اس نے ایسی انگڑائی لی تھی کہ وہ جنوبی ایشیا کی سیاست کا مرکز بن گیا۔ نواب سلیم اللہ نے کہا کہ ہم مسلمان آبادی کے لحاظ سے اس ملک کا پانچواں حصہ ہیں اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر کبھی برطانوی حکومت ہندوستان سے ختم ہوگئی تو ہندوستان کی باگ ڈور اس فرقہ کے اتھ چلی جائے گی جو ہمارے مقابلہ میں چار گنا زیادہ ہے اس لئے آپ حضرات کو سوچنا ہوگا کہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوگئی تو آپ کا اور ہمارا کیا حال ہوگا تب ہماری زندگی‘ مال و دولت‘ ہمارا وقار اور ہمارا ایمان بہت بڑے خطرے میں ہوگا اب بھی جبکہ ایک طاقتور برطانوی انتظامیہ اپنی رعایا کی حفاظت کررہی ہے ہم مسلمان اپنے ہمسایوں کے ہاتھوں اپنے مفادات کے تحفظ میں شدید مشکلات برداشت کررہے ہیں اس وقت ایک آفت نازل ہوگئی جب ہم اپنے ہمسایوں کی پریشان حاصل رعایا بن جائیں گے لہٰذا روری ہے کہ ہم ایک جھنڈے تلے یکجا ہوجائیں۔ یہ مسلم لیگ کے قیام کا وقت تھا اور مقصد تھا کہ جان و مال‘ عزت و آبرو سمیت مذہب پر قائم رہ سکیں تاکہ فلاح و بہبود کا راستہ بھی نکل آئے۔قائداعظم اس بات کے قائل تھے کہ اگر طاقت ضرورت کے مطابق نہیں تو پہلے طاقت پیدا کریں چونکہ طاقت ہی مسائل کو حل کروا سکتی ہے اور طاقت کیلئے نہ صرف یکجہتی ضروری ہے بلکہ اعتماد اور راہ عمل کا بھی تعین کرلینا چاہئے پاکستان کے قیام کی کہانی سے تو ہم سب اچھی طرح واقف ہیں یہ بھی درست ہے کہ ہم اپنے وطن کا وہ حق ادا نہیں کرسکے جو ہم پر فرض تھا‘ مرد آہن ایک طرف انگریز دوسری طرف ہندو تیسری طرف سازشوں اور چوتھی طرف اپنی جان لیوا بیماری سے بھی لڑ رہا تھا‘ فکر تھی تو مہاجرین کی۔ کشمیر میں بھارت کی دراندازی پر ذرا غور فرمائیں دستور ساز اسمبلی میں کیا ارشاد فرمایا ’’مجھے امید واثق ہے کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ہم اس مجلس (دستور ساز اسمبلی) کو دنیا کیلئے ایک مثال بنا دیں گے۔ مجلس دستور ساز کے دو بڑے فرائض ہیں پہلا تو بہت ہی کٹھن اور ذمہ داری کا ہے یعنی پاکستان کیلئے دستور مرتب کرنا اور دوسرا کامل خودمختار پاکستان کے وفاقی قانون ساز ادارے کا کردار ادا کرنا۔ ہمیں اپنی بہترین مساعی اس امر کیلئے صرف کرنی ہے کہ وفاقی مجلس قانون ساز پاکستان کیلئے ایک عبوری آئین تیار کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ جس بے مثل طوفانی انقلاب کے ذریعہ اس برصغیر میں آزاد اور خودمختار مملکتیں معرض وجود میں آئی ہیں اس پر نہ صرف ہم حیرت زدہ ہیں بلکہ ساری دنیا بھی حیران ہے۔ فی الواقع یہ صرف حال بے مثال ہے اور تاریخ عالم میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ عظیم برصغیر کہ جس میں ہر قسم کے لوگ آباد ہیں اور ایک ایسے منصوبہ کے تحت لایا گیا ہے جو انتہائی نایاب و بے مثل اور اس ضمن میں یہ بات سب سے اہم ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ پرامن طریقے اور عظیم تر تدریجی ارتقاء سے حاصل کیا ہے۔ قائداعظم نے فرمایا میں چاہوں گا اور بلاشبہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و سکون برقرار رکھے تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری بات جو اس وقت میرے ذہن میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے اور ہماری حالت بھی اس حوالہ سے خراب ہے وہ ہے رشوت ستانی اور بدعنوانی دراصل یہ ایک زہر ہے ہمیں نہایت سختی کے ساتھ اس کا قلع قمع کرنا چاہئے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اسمبلی اس بارے میں جلد از جلد مناسب اقدامات کرے گی۔ قائد کا ارشاد تھا کہ چوربازاری دوسری لعنت ہے اب آپ کو اس لعنت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ چور بازاری معاشرہ کیخلاف ایک بڑا جرم ہے۔ چور بازاری کرنے والے لوگ باخبر‘ ذہین اور عام طور پر ذمہ دار لوگ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقربا پروری اور احباب نوازی یہ بھی ہمیں ورثے میں ملی ہیں۔ بہت سی اچھی بری چیزوں کے ساتھ یہ بھی ہمارے حصہ میں آئی ہے۔ اس برائی کو سختی سے کچل دینا ہوگا۔ یہ واضح کردوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقربا پروری کو برداشت کروں گا نہ ہی کسی اثرورسوخ کو جو مجھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی قبول کروں گا۔ قائد نے اور بہت کچھ کہا وہاں یہ بھی کہا کہ متحدہ ہند کا تخیل قابل عمل نہ تھا اور میری رائے میں یہ ہمیں خوفناک تباہی کی طرف لے جاتا۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کا وجود ناگزیر ہے اس سے مفر نہیں کیا جاسکتا اس کا بھی کوئی اور حل نہ تھا اب ہمیں پاکستان کو خوش و خرم اور خوشحال رکھنا ہے اگر ہم اپنا رویہ تبدیل کریں گے تو مل جل کر ہر شخص پہلا شہری بن سکتا ہے سب کے حقوق و فرائض برابر ہیں‘ رنگ نسل عقیدہ کو پس پشت ڈال دیں ہمیں جذبہ کے ساتھ کام کرنا ہے۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ اگر ہم جذبہ کے ساتھ کام کریں گے تو اکثریت اور اقلیت کے معاملات معدوم ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب آپ آزاد ہیں اس مملکت پاکستان میں آزاد ہیں اپنے مندروں میں جائیں‘ اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں آپ کا کسی مذہب‘ ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو‘ کاروبار مملکت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ دو فرقوں کے مابین کوئی تفریق یا امتیاز نہ ہوگا۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتدا کر رہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور یکساں شہری ہیں۔
قائداعظم تو وقت گزرنے کے ساتھ تفریق کا خاتمہ دیکھنا چاہتے تھے۔ ایماندار‘ بااصول باکردار مساوات پر مبنی معاشرہ قائم کرنا انہوں نے طے کررکھا تھا۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ اس قدر راسخ العقیدہ‘ بااصول رہنماء گزشتہ صدی میں اور کوئی نہ بن سکا تھا۔ اپنی جان کی پرواہ نہ کرکے مسلمانوں کو باعزث زندگی گزارنے کے لئے وطن تو قائداعظم نے بنا دیا مگر ہم ایک مدت تک دستور بھی نہ بنا سکے۔ جن سے الگ ہوئے تھے انہی کے ساتھ دوستی کے رشتے بڑھانے کیلئے تڑپتے رہے۔ وطن کے خیر خواہ بن کر ایسی تنقید کرتے رہے کہ دشمن نے اس سے فائدہ اٹھایا اور ابھی بھی اس کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ تفرقہ ڈالنے کیلئے نئی تنظیمیں قائم کیں‘ فرقہ وارانہ فسادات سے گریز نہ کیا۔ دوسروں کی لڑائی لڑ کر اپنی بقا کو خطرہ میں ڈالا۔ احباب پرستی اقتدار کے ایوانوں سے لے کر نیچے تک اپنی انتہا کو پہنچا دی۔ رشوت ستانی زندگی کا لازمی حصہ بنا کر رکھ دیا۔ کرپشن‘ بددیانتی‘ فرائض سے غفلت کی مثالیں ہر روز اخبارات اور عدالتوں میں نظر آرہی ہیں۔ ریاست کے اصولوں کو روند کر رکھ دیا‘ اقرباء پروری‘ اختیارات کا ناجائز استعمال بند نہ کیا گیا تو نفرت کے نئے بیج بو دیئے جائیں گے۔ اب بھی ہمارے پاس کچھ وقت باقی ہے کہ صف بندی کرلیں‘ اپنے مقاصد کو واضح کریں اور 1906ء میں ڈھاکہ میں جن مقاصد کیلئے اکٹھے ہوئے تھے ان پر غور کریں تاکہ ہم آزاد شہری بن کر ہی آزادی کی نعمتوں سے مالا مال رہیں۔ ہمیں فخر کرنا چاہئے کہ ہم قائداعظم محمد علی جناحؒ کی بنائی ہوئی ریاست کے ذمہ دار اور آزاد شہری ہیں جہاں سب کا جان و مال‘ عزت و آبرو اور دین و مذہب باعزت اور قابل احترام ہے ثابت کرنا ہوگا کہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے بھی برابر کے آزاد شہری ہیں۔