سفرِ پاکستان کا آنکھوں دیکھا حال

معزز قارئین یہ حُسن اتفاق ہے کہ قیام پاکستان کے وقت میری عمر 4 سال 10 ماہ اور 6 دن تھی۔ میں بھارتی ضلع امرتسر سے اپنے بزرگوں کیساتھ ہجرت کر کے سرزمین پاکستان میں داخل ہوا تھا۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ 25 دسمبر ہو تو قائد کا تصوراتی پیکر ہمارے قائد اپنی پوری آن بان کے ساتھ ہمارے سامنے جلوہ گر ہو جاتا ہے۔ 14 اگست 1947ء برصغیر ہند کی تاریخ میں ایک انقلابی اور امتیازی تاریخ ہے، اس دن ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا وردکرنے والے مسلمان اور ’’رام رام‘‘ کرنے والے ہندو دو قومی نظریہ کی بنا پر دو علیحدہ ریاستوں میں بٹ گئے۔ گائے کی پوجا کرنے والے اور اس کا پیشاب پینے والے ہندوئوں کو ہندوستان اور گائے کا دودھ پینے والے اور اسکا گوشت کھانے والے مسلمانوں کو پاکستان مل گیا۔ یہ بابرکت تقسیم ماہ رمضان کے مقدس مہینے کی 27 تاریخ کی مبارک شب کو قائد اعظمؒ کی قیادت میں عمل میں آئی۔ یہ تقسیم ایک معرکۂ عظیم سے کم نہ تھی کیونکہ اس کو روکنے کیلئے عیار انگریزوں اور مکار ہندوئوں نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ اس دورِ ابتلا میں بے بس اور کمزور مسلم قوم کی قیادت کا انتخاب فرزانۂِ روزگار حکیم الامت شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے کیا۔ اُنکی نظر میں یہ انتہائی مشکل فریضہ محمد علی جناحؒ ہی سرانجام دے سکتے تھے اور کسی کے بس کی یہ بات نہ تھی۔ جناحؒ صاحب اس وقت سات سمندر پار لندن میں رہائش پذیرتھے اور ایک خوشحال اور پُرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ علامہ صاحب نے کئی خطوط جناحؒ صاحب کو لکھے کہ آپ ہندوستان آ کر مسلم قوم کی حصول پاکستان کیلئے قیادت نبھالیں۔ اسی دوران نوابزادہ لیاقت علی خان اپنی بیگم رعنا لیاقت کے ساتھ لندن میں ہی ہنی مون منانے گئے تو جناحؒ صاحب سے ذاتی درخواست کی کہ آپ ہندوستان آ کر مسلم لیگ کی قیادت سنبھالیں۔ ایک رات خواب میں جناحؒ صاحب کو زیارتِ رسول اکرمؐ کا شرف حاصل ہوا۔ آپؐ نے حکم دیا ’’محمد علی ہندوستان جائو اور حصول پاکستان کیلئے ڈٹ جائو۔‘‘ ان مبارک حالات میں جناح ؒ صاحب کو اپنی سعادت مندی اور فتح کا یقین ہو گیا۔ چنانچہ جناحؒ صاحب فوراً ہندوستان پہنچے اور اپنا مشن سنبھال لیا۔ جناحؒ صاحب ایک تاریخ ساز، نڈر، راست گفتار (زندگی بھر جھوٹ نہیں بولا) صاحب کردار ، با اصول، خوددار، خوش لباس متاثر کن شخصیت کے مالک تھے۔ بہت کم بولتے۔جو بولتے تو اس پر عمل کر کے دکھاتے۔ گویا INERE LOUDER THAN HIS INORDS ۔ اس پیکر اخلاص کو جس نے سُنا اور دیکھا آپکا ہو کر رہ گیا۔ تحریک پاکستان میں حصول پاکستان کیلئے اس مردِ مجاہد نے بیمثال قربانیاںدیں۔ اپنی لندن کی خوشحال زندگی کو ختم کیا۔ حسین و جمل باوفا بیوی مریم جناح (رتی بائی) اور اکلوتی بیٹی عزیزاز جان‘‘ ’’دینا‘‘ کی محبتوں کو قوم کی خاطر آزادی کی قربان گاہ پر قربان کیا۔ دن رات انتھک محنت کی۔اس زمانے میں T.B کے لاعلاج مرض کیساتھ مسلسل 10 سال تک آزادی کی جنگ لڑتے رہے اور سوائے اپنی بہن (فاطمہ) اور ذاتی معالج کے اور کسی کو اپنے مہلک مرض کا علم تک نہ ہونے دیا۔ تن تنہا، دن رات، عیار ہندو، مکار انگریزی اور غداران قوم سے مقابلہ کرتے ہوئے بالآخر بفضل خدا عزو جل 14 اگست 1947ء کوریاست مدینہ کے بعد اسلامی دنیا کی دوسری بڑی اسلامی ریاست ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ قائم کر کے اقوام عالم کو انگشت بدندان کر دیا۔ محسن قوم نے اپنی قوم کو آزاد وطن پاکستان سے سرفرازکیا تو قوم نے جناحؒ صاحب کو ’’قائد اعظمؒ‘‘ کے روپ میں دکھائی دینے لگے۔قیام پاکستان سے صرف تین دن قبل 11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ملک پاکستان کی اصل صورت کو ان دلیرانہ الفاظ میں واضح کر دیا‘‘ اب آپ آزاد ہیں اپنی مساجد میں جانے کیلئے، آپ اپنے مندروں میں جائیں یا کسی دوسری عبادت گاہ میں جائیں۔ ہم سب ایک ریاست کے برابر کے شہری ہیں۔ہمیں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔‘‘ قائد اعظمؒ پکے اور سچے مسلمان تھے۔ عاشق رسول ؐ تھے۔ عامل قرآن تھے۔ وہ پاکستان کو ہر حالت میں ایک فلاحی اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے تھے۔

ای پیپر دی نیشن