پیر، 25 دسمبر1876 کو اہل کراچی لاپروائی، محکومی، محرومی کی رنگدار چادر اوڑھے گہری نیند سو رہے تھے۔ چاند اپنی دلکش،حسین چاندنی سے پھولوں میں مٹھاس بھر رہا تھا۔ایک حلیم طبیعت ماں جی جن کی زبان چشمہِ شیریں،لمحہ بہ لمحہ شفقت بکھیر رہی تھی ، انکی گود کو قدرت نے بیٹے کے خزانے سے بھر دیا ۔ ماں جی کے بدن کے زرے زرے سے مسرت پھوٹنے لگی۔اب!صبر وشکر ادا کرتے ہوئے دماغ کی تہہ کو الٹ پلٹ کر بیٹے کا نام تلاش کرنے لگی۔ غور و فکر کے تسلط میں بولی!بیٹے کا نام اور زندگی بھر بیٹے کا کام ایسا ہو کہ آنے والے ہر نیا دن آج جیسی خوشی ،مسرت ،چین ،فخرنصیب ہو۔ماں جی رکی اور پھیلتی بکھیرتی ہوئی بے چینی کو سمیٹے ہوئے بولی۔ صبح شام درودِ وسلام پیش کرنے کیلے بیٹے کا نام محمد رکھوں گی۔نبی آخرالزمان ؐکی تعلیمات پر سچے پکے دلِ سے عمل کرنے کی تعلیم و تربیت دوں گی۔جب میرا بیٹا سچا ئی اور صراطِ مستقیم پر چلے گا تو دماغ کو چین ،دل کو تسلی اور بدن کو راحت نصیب ہو گی۔شفیق ماں کا پورا بدن مسرت کی وادی میں چلا گیا۔کچھ دیر رکی اور دھیمے لہجے میں پھر بولی،اس نام میں علی کا اضافہ بھی کروں گی۔میرا بیٹا ،میرا لاڈلا،میرا شہزادہ،میری جان محمد علی کچھ دیر بار بار پکارتی رہی۔ یکدم دماغ کے صحن میں جناح کا لفظ گرا ۔جناح کے معنی پرندے کے پر ہیں۔پرندے کے پر کبھی میلے نہیں ہوتے مگر بلندیوں پر لے جاتے ہوئے فطرت کے قریب لے جاتے ہیں۔پروں والے پرندے کھلے سمندر ،بلند پہاڑوں،وسیع صحراوں اور پھیلے ہوئے جنگلوں کو تحقیق و تخلیق کیلے عبور کرتے ہیں۔پرندوں نے ہمیشہ میٹھے لذیز پھلوں کے بیج کو اٹھا یااور ویران بنجر زمین میں گرا کر زمین کے سپرد کر تے ہوئے ویران بنجر زمین کو سر سبز شاداب بنایا،خوراک کو لذیز اور آسان بنایا۔پرندے اڑتے ہوئے بدن کو سورج کی تپش کے حوالے کرتے ہوئے بدن کو بیماریوں سے بچا تے۔حلیم شفیق ماں جب اولاد کو سنوار اور سلجھا رہی ہوتی ہے، تو اولاد پورے معاشرے ،پھر پورے ملک کو سنوارتے ہیں۔پرنور پیشانی والی ماں نے ٹھنڈی سانس لی اور بولی!بیٹے کا نام محمد علی جناح ہو گا تو دائمی مسرت والی حسین وادی میں چلی جاوں گی۔چین ،راحت کی ہوائیں بدن سے ٹکراتی رہیں۔دن گزرتے گے۔جوں جوں بیٹا بڑا صحت مند ہوتا گیا،محنت لگن تربیت سے نکھرتا گیا، پیاری ماں جی کی صحت پہلے سے بہتر ہوتی گی۔اب بیٹے محمد علی جناح کو سنوارنے ،عقل و شعور سے نوازنے کیلے دن رات ،صبح شام،محنت لگن خلوص،پیار سے کوشیش جدوجہد ہونے لگی۔عقلی قوتوں کو بڑھانے کیلے مقدس کتابوں کے الفاظ کا شربت پلایا جانے لگا۔ دھیان دینے والی ماں اپنی اولاد کواچھی تعلیم و تربیت کرنے کی وجہ سے چھپی مصیبتوں، برائیوں سے بہت دور لے جاتی ہیں،جہاں ترقی خوشحالی ہوا کرتی ہے۔ماں جی نے اپنے پیارے لاڈلے بیٹے کو قریب ترین بلا کر گود میں لیتے ہوئے فرمایا،بیٹا جی غور و فکر کرو،ہمیشہ یاد رکھنا ،زندگی بھر ہر لمحہ علم کے حصول پر دھیان دیے کرامتاز پانا ،پھر سچے پکے طریقے سے علم ہی کے مطابق عمل کرنا کیونکہ،علم بغیر عمل بے کا ر ہے۔بیٹا جی علم پر عمل بغیر خلوص بے فائدہ ہوتا ہے۔علم پر عمل کرنا اورعمل میں خلوص بھرنے سے مرد قلندر بنتے ہیں۔آپ نے ہمیشہ صبر و تحمل سے چلنا ہے۔اصول پرستی دیانتداری سے رہنا ہے۔یاد رکھنا!انصاف سے بے خوفی کاتاج بن مانگے ملتا ہے۔بے لوث وعدہ ایفائی سے خوداری ،استقامت کو تقویت ملتی ہے۔ حسن تدبر اور اعلیٰ کردار میں اضافہ ہوتا ہے۔پیاری ماں کی شفقت و پیار و خلوص کی آمیزش سے بیٹے کے دماغ میں بصیرت کی تہہ جمتی رہی اور صلاحیتوں کی کونپلیں پھوٹتی رہی۔چھ سال کی عمر میں مدرسے میں داخل کرایا گیا۔ہر روز کا کام ، ہر روز مکمل کرتے،ماں جی وقت نکال کر بیٹے کو سبق یاد کراتی اور مدرسے کا کام انتہائی خوبصورتی سے مکمل کرواتی ۔بیٹے محمد علی جناح کے والد ماہر استاد تھے۔فالتو وقت میں کاروبار کرتے اورمیں مزید بہتری کیلے روپیہ روپیہ جمع کرتے رہے۔جب محمد علی جناح نے چھ جماعتیں پاس کرلیں تو انگلستان میں اعلیٰ تعلیم کیلئے جانے کا پروگرام بنایا۔گھر میں محمد علی جناح کے انگلستا ن جانے کی تیاریاںشروع ہوئی ادھر والدہ ماجدہ کو پریشانی فکر نے گھیر لیا۔جنوری 1893 کو اعلیٰ تعلیم کیلے انگلستان روانہ ہو گئے۔وہاں پہنچ کر حالات کا غور و فکر اور سوچ بچا ر سے جائزہ لیا اور وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کیلے داخلہ لینے کی اجازت گھر سے طلب کی۔اجازت ملنے پر داخلے کا امتحان دیا اور پاس کیا۔ 5 جولائی1893کو داخلہ مل گیا۔تعلیم جاری رہی۔1896 کے وسط میں آپ لندن سے گھر واپس آئے۔امر بائی کا انتقال ہو چکا تھا 1906 میں محمد علی جناح نے سیاسی زندگی کا آغاز فرمایا۔تو زمین کی بدحالی سے زیادہ مسلمانوں کی بدحالی،کمزوری ،جہالت،محکومی کو دیکھ کر سخت بے چین پریشان ہوتے۔رسولِ کریم ؐکی تعلیمات کا گہرا اثر ہونے سے محمد علی جناح کیلے ہر مسلمان اپنا حقیقی بھائی جیسا تھا۔ مسلمان بھائیوں سے فرماتے مسلمان جب تک پیارے نبی ؐ کے اصولوں پر چلتے رہے۔کامیابی اور خوشحالی سے زندگی بسر کر تے رہے۔جب احکاماتِ رسول ؐ پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو ناکامی،محرومی،محکومی کے کالے اندھیروں میں آپس میں ٹکریں مارتے۔جب بھی مسلمانوں کو اپنے عزائم اور مقاصد میں ناکامی ہوتی ہے۔تومسلمانوں ہی کی دغابازی ہوتی ہے۔اسلامی تعلیمات کی درخشندہ روایات اس امر میں شاہد ہے کہ کوئی قوم جمہوریت میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔جنابِ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا،خیالی دنیا سے نکل آئیں اپنے دماغ ایسے پروگراموں کیلے وقف کر دیں،جن سے زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارے بھائیوں کی حالت بہتر ہو سکے۔صرف اسی صورت میں ہم مضبوط اور طاقتور ہو سکیں گے کیونکہ ہر بڑے آدمی کو بنانے کیلے بڑے خلوص، انتہائی محنت اور آگے بڑھنے کی جستجو ہوتی ہے۔
قائدؒ کا فرمان اور پاکستان
Dec 25, 2018