محمد علی جناحؒ اور مریم جناح

1892ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح حصولِ تعلیم کے لیے یورپ روانہ ہوئے اس وقت ان کی شادی کو ابھی کچھ عرصہ ہی ہوا تھا۔ انگلستان میں ان کے قیام کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ان کی اہلیہ ایمی بائی کا انتقال ہو گیا۔ پھر وقت گزرتا گیا حتیٰ کہ ان کی اہلیہ کے انتقال کو پچیس برس بیت گئے۔ ایک طویل عرصہ وہ تنہا رہے۔ وہ ایک مجرد کی سی زندگی گزار رہے تھے۔ تاریخی اہمیت کے حامل ایسے بہت سے افراد کے متعلق کئی کہانیاں بن جاتی ہیں۔ مگر محمد علی جناح کے بارے میں کچھ ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔ وہ نہایت پاکیزہ انسان تھے۔ زندگی کے دوسرے معاملات میں کامیابیاں سمیٹے سمیٹتے کبھی ان کو دوسری شادی کا خیال بھی نہ آیا تھا اور آتا بھی کیسے کیونکہ انگلستان سے تعلیم حاصل کر کے جب وہ واپس آئے تو تلاش معاش اور والد صاحب کے کاروبار سے پریشان حال اور آشفقہ روزگار خاندان کی دستگیری میں مصروف ہو گئے۔ یہ ایسا زمانہ تھاکہ ’’یاراں فراموش کردند عشق‘‘ والا معاملہ تھا۔ پھر جیسے جیسے مالی حالات سُدھرتے گئے ملکی سیاست میں ان کا شغف بڑھتا گیا۔ ایسے میں شادی خانہ آبادی والا معاملہ حل ہوتا دکھائی نہ دیتا تھا اور نہ ہی قائداعظم اس کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ مگر محبت کے معاملات بھی عجیب ہوتے ہیں یہ کبھی بھی کسی کی زندگی میں بتا کر نہیں آتی بلکہ خاموشی سے اپنا خوبصورت سنہری جال بُنتی رہتی ہے۔ کچھ یونہی محمد علی جناح اور رتی جناح کے درمیان بھی ہواتھا۔ دُنیا کی تاریخ میں محبت کے بارے بہت کچھ لکھا جا چا ہے۔ یہ کبھی نہ ختم ہونے والا موضوع ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والی محبت بھری داستانوں میں ایک ہمارے قائداعظم محمد علی جناح اور رتی جناح کی داستانِ محبت بھی ہے۔ جب قائد کی ان سے شادی ہوئی اس وقت وہ اٹھارہ برس کی تھیں اور قائد بیالیس سال کے تھے۔ شادی سے پہلے انہوں نے اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا۔ ان کا اسلامی نام مریم رکھا گیا۔ شادی کے وقت قائد نے مریم جناح کو ایک لاکھ پچیس ہزار بطور تحفہ دئیے اورایک انگوٹھی جو انہوں نے اپنی بیگم کو دی وہ راجہ صاحب محمود آباد کا تحفہ تھا۔
سٹینلے والبرٹ کے الفاظ میں وہ حیران کردینے والے میاں بیوی تھے۔ مریم جناح بہت خوش لباس تھیں، ان کے لمبے بال ہمیشہ تازہ پھولوں سے سجے رہتے، قائد بھی اپنی نوکیلی مونچھوں اورروشن آنکھوں کے ساتھ ایک برطانوی لارڈ کی طرح لباس پہنے اپنی دُلہن کا نہایت مناسب جوڑ تھے۔ 1918ء کے موسمِ بہار میں وہ اتنے ہی خوش تھے جتنا کہ وہ حقیقت میں تھے۔ یہ ایک خوبصورت ابتدا تھی۔ قائد کو اپنی اہلیہ سے بے حد محبت تھی مگر وہ بڑی ٹھہرائو والی طبیعت کے مالک تھے، انکا اظہارمحبت کااپنا ایک الگ انداز تھا۔ بیگم صاحبہ بہت کم عمر تھیں وہ زندگی کے ہر لمحہ میں ان کی موجودگی کی خواہش مند تھی۔ دوسری طرف دُنیا کا نقشہ ہی بدلنے جا رہاتھا۔ ہمارے پیارے پاکستان کے قیام کی تیاریوں کا دور بھی شروع ہونے جا رہا تھا۔ وقت اور حالات تیزیسے بدل رہے تھے۔ قائداعظم کی شادی کے شروع میں تو اُن کی وکالت کی مصروفیات ہی بیگم صاحبہ کو ملول رکھتی تھیں، مگر جیسے جیسے قائد اعظم کی سیاسی سرگرمیاں عروج پہ آتی گئیں وہ دن رات مصروف رہنے لگے۔
انکی شبانہ روز محنت اور ان کوششوں کا ثمر ہی 1947ء کو قیامِ پاکستان کی صورت میں نظر آیا مگر اس ساری بھاگ دوڑ میں وہ اپنی بیگم اور بچی کو ان کا من چاہا وقت نہیں دے پاتے تھے یہ صدمہ ایک محبت بھرے دل کے لیے بہت ہوتا ہے۔ وہ بیمار رہنے لگیں اور دھیرے دھیرے موت کی آغوش میں جانے لگیں۔ بانو قدسیہ صاحبہ محبت کے فلسفہ بارے فرماتی ہیں۔
’’محبت پانے والا کبھی اس بات پہ مطمئن نہیں ہوتا کہ اسے ایک دن کے لیے مکمل محبت مل گئی ، محبت تو ہر دن کے ساتھ اعادہ چاہتی ہے۔ جس روز محبت کا آفتاب طلوع نہ ہو رات رہتی ہے‘‘
یوں مریم جناح کی زندگی رات ہوتی گئی اور قیام پاکستان کے لیے دنیا نے اُفق پہ سپیدی پھیلتی چلی گئی۔ عظمت و بلندی کا تاج یوں ہی نہیں کسی کے سر پہ سج جاتا۔ پروردگار اپنے بلندے کو جتنا بلند مرتبہ عطا کرتا ہے اتنی عظیم قربانی بھی وہ اپنے محبوب بندوں سے لے لیتا ہے۔
ہمارے پیارے قائد کی ہمارے لیے یہ بھی ایک عظیم قربانی ہے۔ انہوں نے محبت پر فرض کو فوقیت دی اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں بے حد بیمار بھی ہو گئے۔ دشمن کی عیاریوں کو دیکھتے ہوئے، انہوں نے اپنی بیماری کو بھی چھپائے رکھا، اپنا علاج بھی اس طرح نہ کروایا جیسا کہ ہونا چاہئے تھا۔ ہمارے پیارے قائد اعظمؒ کی ہمارے ساتھ محبت بے لوث تھی۔ اسی لیے انہوں نے اپنی ذاتی زندگی حتیٰ کہ اپنی صحت معاملے کو بھی پسِ پشت ڈال دیا۔ 25 دسمبر صرف قائد اعظمؒ کی پیدائش کا دن ہی نہیں ہے بلکہ یہ دن ہے ایک عظیم انسان کی یاد میں اس کی دی ہوئی قربانیوں کو یاد رکھتے ہوئے عہد کیا جائے کہ کوئی کام ایسا نہیں کرنا کہ جس کی وجہ سے ہمارے قائد کی روح کو تکلیف ہو۔ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ یہ سوچ لے تو وہ دن دور نہیں کہ ہم بھی بحیثیت قوم اپنا ایک مقام بنا پائیں۔ ضرورت صرف اک عہد کرنے کی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...