’’فیصلہ کرنے سے پہلے سوبار سوچو لیکن جب فیصلہ کر لو تو اس پر مردوں کی طرح ڈٹ جائو‘‘ یہ اُس عظیم انسان کے الفاظ ہیں جس نے پاکستان کو دنیا کے نقشے پر نمودار کیا۔ ان کا عزم ،ایمانداری اور نظم و ضبط کا دیا گیا نصب العین آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ اور ان کی عظمت کی دلیل ہے۔ جیسے ہمیں دن بدن نئے چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہے ان حالات میں ہمیں بابائے قوم کے افکار سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم انکی تعلیمات سے تحریک اور ولولہ حاصل کر سکیں۔
انگریز تعلیم و دانش میں خود کو ہندوستانیوں سے ارفع سمجھتے تھے۔ لنکن ان سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد محترم جناح برطانوی قوانین اور فقہی اصولوں سے بخوبی آشنا ہو چکے تھے۔ لیکن انہوں نے اپنی ہندوستانی شناخت اور تشخص کو برقرار رکھا۔ آج ذرائع مواصلات و ابلاغ کے ذریعے جیسے جیسے دنیا سمٹتی جا رہی ہے مختلف مذاہب ، رنگ ، طبقے اور مسالک کے لوگوں میں تفریق پھیلتی جا رہی ہے۔ قائدِ اعظم کے نقاد قائد کو ایک ایسے شخص کے روپ میں دیکھتے ہیں جنہوں نے ہندوستان کے اتحاد کوتقسیم کیا۔ تقسیم کا عمل کئی بار جھوٹ کی ملمع سازی کر کے قائد سے منسوب کیا گیا۔ لیکن حقیقت میں خود قائد کیلئے یہ احساس انتہائی تکلیف دہ تھا کہ ہندو اور مسلمان حکمرانی کی مشترکہ شرائط پر متفق نہیں ہو پائے۔ انگریزوں کی اکثریت کا جھکائو ہندوئوں کی طرف تھا جس کی وجہ سے مسلمان پسماندہ رہے۔ 1937میں کانگریس کے ہاتھوں ہونے والے المناک واقعات کے بعد ہی قائد نے ہندو مسلمان اتحاد سے علیحدگی اختیار کر کے پاکستان کا مطالبہ پیش کیا۔ قیامِ پاکستان میں قائد کے نقطہئِ نظر اور کر دار کو سراہنے والوں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ حل قائد کی پہلی ترجیح نہیں تھا۔ متحدہ ہندوستانی ریاست کے قیام میں مذہبی ،ثقافتی اور تاریخی تضادات بہت بڑی رکاوٹ تھے ۔ قائدِ اعظم کے نقطہئِ نظر کے اثرات آج بھی بھار ت میں پیش آنے والے واقعات کے نتائج میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے مظالم ، اسلامو فوبیا اور ہندوستان میں مسلمانوں کی معمولی نمائندگی جناح کی سچائی کی گواہی دیتے ہیں۔ہندوستان کے مسلمانوں کو انکے جائز حقوق تک نہیں دیے جا رہے ۔ مسلمانوں کے مذہبی مقامات تک محفوظ نہیں جبکہ ہندو انتہاء پسندی کی حوصلہ افرائی کر کے اسے فروغ دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی موجودگی برصغیر میں مذہبی اختلافات اور غیر متزلزل حالات کا نتیجہ ہے۔ قائدِ اعظم کے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کے ساتھ ہی انکی الماری کی ترتیب بھی تبدیل ہو گئی انگریزی لباس کی جگہ شیروانی اور قراقلی ٹوپی جسے عرفِ عام میں جناح کیپ بھی کہا جا تا ہے، نے لے لی۔ علامہ اقبال ؒ کے علیحدہ مسلم ریاست کے خواب نے قائد کے واضح عزم کی شکل اختیار کر لی۔ آج بھی محترم جناح کے تدبر کو عوامی دبائو کے نتیجے میں ہندوستانی سپریم کورٹ کی جانب سے بابری مسجد فیصلہ کی شکل میں جانچا جا سکتا ہے۔ قائدِ اعظم کے سیاسی فلسفے کی بنیاد ’’دو قومی نظریہ ‘‘تھا۔ بہت سے نو آموز لبرل دانشوروں نے قیامِ پاکستان کی بنیاد پر سوالیہ نشان لگائے۔ یہاں تک کہ بعض نے تو بنگلہ دیش کی تخلیق کو دو قومی نظریے کے خلاف استدلال کے طور پر بھی استعمال کیا ۔یہ بھی کہا گیا کہ اگر مسلمان ایک قوم ہیں تو برِ صغیر میں ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورت میں تین ریاستوں میں منقسم کیوں ہیں۔ جو لوگ اس امر کی نشاندہی کر تے ہیں وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ جغرافیائی سرحدوں کی تقسیم کسی ملت کی نفی نہیں کر سکتی۔ برصغیر کے مسلمان تین مختلف سرحدوں میں رہتے ہوئے بھی ایک جیسی روایات عقائد اور نظریات میں جکڑے ہوئے ہیں۔قائدِ اعظم نے نا صرف ایک علیحدہ قوم کے طور پر مسلمانوں کے تشخص کا دفاع کیا بلکہ انہوں نے ایک نظریے کو سیاسی حقیقت کا روپ دے دیا جس نے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا آبادی والا ملک عطا کیا۔ محترم محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے سفیر، عظیم آئین ساز، ممتاز پارلیمنٹیرین ، اعلیٰ درجے کے سیاست دان، ناقابلِ فراموش جنگجو، متحرک سیاسی رہنما اور جدید دور کے عظیم قوم سازوں میں سے ایک ہیں۔ جنہوں نے ایک مظلوم اقلیت کو ایک مضبوط سیاسی قوت میں تبدیل کر دیا۔ وہ مسلمانوں اور ان کی آنے والی نسلوں کے حقوق کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔ اپنے الفاظ میں انہوں نے کہا کہ ’’ہم ایک ایسی قوم ہیں جن کی اپنی ایک مخصوص ثقافت ، تہذیب ، زبان و ادب، فنِ تعمیر ، قوانین، اخلاقی ضابطے ، تاریخ اور عزائم کے ساتھ ساتھ زندگی کے بارے میں اپنا ایک مخصوص نظریہ ہے‘‘۔
اگرچہ آج ہم نئے پاکستان کو دیکھنے کے خوہشمند ہیںلیکن ہمیں مختلف چیلنجوں سے دو چار کر دیا گیا ہے۔ اندرونی اور بیرونی مشکلات سے نمٹنے کے لیے ہمیں قائد کے افکار و خیالات سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے آج 25دسمبر کو یومِ قائدِ اعظم مناتے ہوئے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہم کہا ں سے اور کن حالات میں چلے تھے اور آج قائد ہم سب سے کیا چاہتے ہیں۔