جی آر اعوان
’’میں سمجھتا ہوں، زمینداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کر دوں ، اس طبقے کی خوشحالی کی قیمت عوام نے ادا کی ہے۔ اس کا سہرا جس نظام کے سر ہے، وہ انتہائی ظالمانہ ہے اور شرانگیز ہے، اور اس نے اپنے پروردہ عناصر کو اس حد تک خودغرض بنا دیا ہے کہ انہیں دلیل سے قائل نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی مقصد براری کے لیے عوام کا استحصال کرنے کی خوئے بَداِن کے خون میں رچ گئی ہے۔ وہ اسلامی احکام کو بھول چکے ہیں۔ حرص و ہوس نے سرمایہ داروں کو اتنا اندھا کر دیا ہے۔ وہ ذاتی منفعت کی خاطر دشمن کاآلۂ کار بھی بن جاتے ہیں۔ یہ سچ ہے ، آج ہم اقتدار کی گدی پر متمکن نہیں۔ آپ شہر سے باہر کسی جانب چلے جائیے، میں نے دیہات میں جا کر خود دیکھا ہے ، ہمارے عوام میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جنہیں دن میں ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ کیا آپ اسے تہذیب اور ترقی کہیں گے؟ کیا یہی حصول پاکستان کا مقصد ہے؟ کیا آپ نے سوچا کہ کروڑوں لوگوں کا استحصال کیا گیا ہے اور اب ان کے لئے دن میں ایک وقت کا کھانا حاصل کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اگر سرمایہ دار اور زمین دار عقل مند ہیں تو نئے حالات کے مطابق خود کو ڈھالیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر خدا اُن پر رحم کرے ہم اُن کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔‘‘
آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی میںمنعقدہ 24 اپریل 1943ء کے اجلاس میںبانی ٔ پاکستان کی تقریر سے اقتباس
9 اپریل 1946ء کو اینگلو عربک کالج دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک کنونشن ہوا۔ جس میںمسلم لیگ کے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان نے شرکت کی۔ وزیر اعظم بنگال حسین شہید سہروردی نے اپنی تقریر میں قائد اعظم سے کہا، ’’جناب قائد! میری آپ سے گزارش ہے ، آپ ہمارا امتحان لیں۔ ہم مسلمانان بنگال پاکستان کے حصول کے لیے آپ کے حکم پر ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ اس اجلاس میں قائد اعظم نے ارکان اسمبلی سے حلف لیا۔ جس کا آغاز قرآنِ پاک کی اس آیت مبارکہ سے تھا۔ جس کا ترجمہ یہ ہے۔ ’’کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانی ، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔‘‘ ہر رکن اسمبلی اور وہاں پر موجود ہر مسلمان نے اس عہد نامے میں قائد اعظم کو یقین دلایا ‘‘ حصول پاکستان کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ جو بھی تحریک لا ئے گی اور جو ہدایات واحکامات دے گی ، بلا پس و پیش ان کی تعمیل ہو گی۔جلسے کااختتام قرآن مجید کی اس قرآنی دعا کے ساتھ ہوا، جس کا ترجمہ یہ ہے ’’اے پروردگار ہمیں صبر و استقامت عطا فرما، ہمیں ثابت قدم رکھ اور قوم کفار پر ہمیں فتح و نصرت عطافرما،آمین۔‘‘اس حلف نامے پرقائد اعظم اور لیاقت علی خان نے دستخط کئے ، بعض ارکان نے اپنے خون سے دستخط کیے۔
1946ء کی ہی بات ہے۔ قائد اعظم نے یونیورسٹی گرائونڈ میں ہونے والے ایک جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:وہ ہم نے کوشش کی اور پاکستان بغیر کسی خونی جنگ کے قلم کے زور سے حاصل کیا، جس کی قوت تلوار سے کم نہیں۔
14 اگست 1947ء کو کراچی میں آزادی کی ایک تقریب میں جب غیر ملکی اخبار نویسوں نے بابائے قوم سے پوچھا ’’آپ نے ایک معجزہ کر دکھایا۔ آپ نے ایک مملکت قائم کر دی۔اس عظیم کارنامے پرآپ کے احساسات کیا ہیں؟‘‘ اس پر بانی ٔپاکستان نے فرمایا ، ’’میرے جذبات یہ ہیں ، ’’میںخدائے بزرگ و برتر کے حضور عجز و انکسار سے شکر بجا لاتا ہوں۔ اُس نے مجھے یہ عظیم دن دیکھنے کے لئے زندہ رکھا۔ لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ پاکستان میں نے بنایا تو آپ میری خدمات کے بارے میں مبالغے سے کام لیتے ہیں۔‘‘ اس پر ایک صحافی نے سوال کیا ، ’’مسٹر جناح! پھر پاکستان کس نے بنایا۔‘‘ اس پر قائد اعظم نے فرمایا، ’’ہر مسلمان نے ‘‘اوراس پاکستان کو منصہ شہود پر لانے کیلئے مسلمانوں کابکھراہواغول ایک قوم کی شکل اختیار کر گیا ۔جب یہ بکھراہوا غول قوم کے روپ میںسامنے آیا تو پاکستان وجود میں آ گیا۔‘‘
سٹینلے و الپرٹ کے بقول ’’چند افراد ہی تاریخ کا دھارا نمایاں طور پر تبدیل کرتے ہیں۔اس سے بھی کم ابھی تک دنیا کے نقشے میں ترمیم کر سکے ہیں۔ شاذو نادر ہی کسی کو قومی مملکت کی تشکیل کا اعزاز دیا جا سکتا ہے۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کا م کر ڈالے۔‘‘
8 نومبر 1845ء کو قیصر باغ بمبئی میں فلسطین میں اسرائیل کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے قائد اعظم نے امریکی اور برطانوی حکومت کو اس کا مجرم ٹھہراتے ہوئے فرمایا ’’امریکی اور برطانوی حکومتیں کان کھول کر سن لیں ، پاکستان کا بچہ بچہ اور تمام اسلامی دنیا اپنی جانیں دے کر ان سے ٹکرا جائیں گے اور فرعونی دماغوں کو پاش پاش کر دیں گے۔
لکھنئو میں اکتوبر 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا 25 واں اجلاس ہوا۔ پندرہ ، سولہ ، سترہ اور اٹھارہ اکتوبر کو ہونے والے اس اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے برطانوی پیل کمشن رپورٹ کی سخت مذمت کی جس کے خلاف مسلم لیگ نے قرارداد بھی منظور کی۔ اس کے بعد بابائے قوم مسلم لیگ کے ہر اجلاس میںتقسیم فلسطین کی مذمت اور اسرائیل کے قیام کی مخالفت میں خبردار رہنے کی ہدایت فرماتے رہے۔ قائد اعظم نے فلسطین کے مفتی اعظم سید امین الحسینی سے رابطہ قائم کیا جس پر 12 اکتوبر 1945ء کو انہیں ایک مکتوب میں مفتی اعظم نے قائد اعظم کی اسلامی خدمات کااعتراف کیا اور اظہار تشکر کرتے ہوئے لکھا ’’آپ احکام خدا وندی کے مطابق اخوت اسلامی اور مسلمانوں کے درمیان ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ سارے عرب ممالک میںاسلام اور مسلمانوں کے لئے مسلسل خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جس پر میں آپ کا شکر گزار ہوں۔‘‘ اکنامک پلاننگ کمیٹی کے5نومبر1944ء کو دہلی میں ہونیوالے اجلاس سے اپنے خطاب میں قائد اعظم نے فرمایا ، ’’ہمارا مقصد امیر کو امیر تر بنانا نہیں دولت کے ڈھیر چند افراد کے ہاتھوں میں مرتکز کرنا نہیں۔ (یہ واقعات واقتباسات معروف صحافی منیراحمد منیرکی کتاب 25ہفتے دنیا میںسے لئے گئے ہیں)
بابائے قوم کے خطابات سے اقتباسات
Dec 25, 2020