قائد اعظم بے مثال شخص عظیم رہنما 

بانی ٔپاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی شخصیت بے مثال شخصیت تھی۔ اُن جیسی عظیم شخصیتوں کا سراغ تاریخ میں کم کم ہی ملتا ہے۔ وہ ایک عظیم قائد ‘ عظیم ماہر ‘ عظیم سیاستدان ‘ ممتاز قانون دان ‘ بے مثال رہنما فقید المثال دانشور تھے۔ وہ لوگوں کے دلوں پر راج کرتے تھے۔ وہ لوگوں کے ذہنوں میں بستے تھے ۔ انہوں نے اپنی طلسماتی شخصیت کے سحر سے ایک منتشر قوم کو اکٹھا کیا۔ ایک پرچم تلے جمع کیا‘ متحد کیا۔ ایک ایسی بکھری ہوئی قوم کوجو مدتوں سے ا پنا الگ تشخص کھو چکی تھی یکجا کرنا آسان کام نہ تھا مگر انوں نے یہ بھی کر دکھایا۔ مسلمانانِ برصغیر نے اُنکی آواز پر لبیک کہا اور غلامی کی زنجیریں توڑنے کیلئے اُنکی رہنمائی میں چلنے کو آمادہ ہو گئے‘مستعد ہو گئے۔ والہانہ اُنکی طرف لپکے۔ ایک مقصد کیلئے اکٹھے ہو گئے۔ 
قائد اعظم نے مایوس قوم کو ایسی قیادت مہیا کی جو ولولہ انگیز تھی ‘ پُرجوش تھی ‘ مخلص تھی ‘ جس کی کرشمہ سازیوں نے سب کو مسحور کر کے رکھ دیا۔ قائد اعظم دیانت و امانت کا پیکر تھے۔ راست باز تھے ‘ راست گو تھے۔ خوش لباس تھے ‘ خوش اطوار تھے ‘ پاکباز تھے ‘ ڈرتے نہیں تھے سوائے اللہ کے‘ دبتے نہیں تھے سوائے حق کے‘ حق بات پر ڈٹ جانیوالے ‘ اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے والے پکے‘ سچے سیاست دان تھے۔ انہوں نے سیاست کو وقار عطا کیا ‘ اعتبار عطا کیا‘ جو کہا وہ کیا ‘ جو نہ کیا اُس کا ذکر بھی نہ کیا۔ وہ کامیاب و کامران تھے۔ قانون کی اعلیٰ تعلیم ملک سے باہر حاصل کی۔ آزادانہ ماحول میں رہے مگر دامن پر کوئی چھینٹ نہ پڑنے دی۔ کردار پر کوئی حرف نہ آنے دیا‘ گفتار سے کسی کو گھائل نہ کیا۔ نرم دمِ گفتگو‘ گرم دمِ جستجو رہے…!اُنکی نرم خوئی میں سختی تھی ‘ اصولوں کی ‘ سچائی کی‘ عزم کی‘ عمل کی ‘ وہ جانتے تھے کہ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی 
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے 
قائد اعظم ایک ایسے عظیم قائد تھے جو کسی کے آگے جھکنا نہیں جانتے تھے ‘ وہ سامراج اور رام راج سے بیک وقت ٹکرائے۔ انہوں نے انگریزوں کی صدیوں کی غلامی سے نجات دلانے کی ٹھانی اور ہندوئوں کی بالادستی کے پھندے کو بھی تار تار کیا ‘ وہ دو قومی نظریے کے علمبردار بن کر اُبھرے‘ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو عظمتِ رفتہ یاد دلائی ‘ انکے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ دیا…! وہ مخلص ‘ انتھک کام کرنیوالے تھے ‘ بہ ظاہر فولادی مگر درد مند دل رکھنے والے ‘ قول کے سچے ‘ بات کے پکے‘ اصولوں کے پابند…اُن کا دل برصغیر کے نو کروڑ مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ پوری ملت مسلمہ بھی اُن کی ہر بات کو ‘ ہر اشارے کو‘ ہر حکم کو تسلیم کرتی اور بلاچون و چرا عمل کرتی تھی۔ اُن کا ماٹو کام‘ کام اور کام تھا۔ قائد اعظم نہایت کفایت شعار تھے ‘ ایک ایک پائی کا حساب رکھتے ‘ قوم کا پیسہ انپی ذات پر خرچ کرنے کا تصور بھی نہ کرتے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب 1900ء میں وہ عارضی طور پر پریذیڈنسی مجسٹریٹ بمبئی مقرر ہوئے تو اُس مختصر سی مدتِ ملازمت میں بھی اپنے دائمی نقوش ثبت کر دیتے۔ انہوں نے جلد ہی اس منصب سے استعفیٰ دے کر سبکدوشی اختیار کر لی کیونکہ کامرانی و کامیابی کی دیوی ان کے قدم چوم رہی تھی۔ انکی وکالت کی پریکٹس کی جلد دھوم مچ گئی۔ انہوں نے ہزاروں‘ لاکھوں کمائے وہ حصولِ رزق حلال کیلئے عملی نمونہ تھے۔ 
قائد اعظم نے ایک نئی اسلامی مملکت کو دنیا کے نقشے پر اُبھار کر ایسا کارنامہ انجام دیا‘ جسے بعض عاقبت اندیش مجذوب کی بڑ سمجھتے تھے۔ دیوانے کاخواب قرار دیتے تھے مگر جب اس خواب کو ’’پاکستان‘‘ کی صورت میں عملی تعبیر ملی تو ایک دنیا اُن کی دانشمندی کی معترف ہو گئی۔ بڑے بڑے دانشوروں دانشمندوں اور سیاستدانوں نے اُنکی اہلیت‘ صلاحیت اور قابلیت کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ قائد اعظم قیامِ پاکستان کے بعد‘ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے تو انہوں نے بطور ٹوکن محض ایک روپیہ ماہانہ تنخواہ لینا قبول کی۔ انہوں نے جتنی جائیداد چھوڑی وہ اپنی ذاتی کمائی سے چھوڑی۔ وہ انتہائی بلند مرتبت وکیل ہونے کے باوجود جو فیس طے کرتے اُسی پر اکتفا کرتے۔ عام وکیلوں والے حربے استعمال نہ کرتے۔ مزید کے خواہاں نہ ہوتے بلکہ مقررہ حاصل کردہ فیس میں سے بھی رقم واپس کر دیتے۔ 
قائد اعظم نے اپنے حق کی کمائی سے اسلامیہ کالج پشاور لاہور اور کراچی کے بہت سے تعلیمی اداروں کے لیے جی کھول کر عطیہ دیا۔ و ہ مسلمانوں کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کو وقت کی اہم ضرورت خیال کرتے تھے۔ افسوس! انہیں موت نے مہلت نہ دی ورنہ ’’پاکستان‘‘ کا نقشہ ہی اور ہوتا۔ پاکستان کا وجود ایک ناتواں مگر آہنی جسم اور اعلیٰ دل و دماغ کی کارکردگی کا زندہ جاوید کرشمہ ہے۔ ایک ایسا معجزہ ہے جسے چشم عالم نے حیران ہو کر دیکھا۔ پاکستان کے قیام کو ان کا سہانا سپنا‘ مجذوب کی بڑ‘ دیوانے کا خواب قرار دینے والے کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ’’پاکستان‘‘ قائم و دائم ہے اور ان شاء اللہ تا ابد پائندہ و تابندہ رہے گا۔
تیرے خیال سے ہے دل شادماں ہمارا 
تازہ ہے جاں ہماری دل ہے جواں ہمارا
تیری ہی ہمتوں سے آزاد ہم ہوئے ہیں 
خوشیاں ملی ہیں ہم کو دل شاد ہم ہوئے ہیں 
تجھ سے ہی لہلہایا یہ گلستاں ہمارا 
ہم سو رہے تھے تُو نے آ کر ہمیں جگایا 
پھرتے تھے ہم بھٹکتے ‘ رستہ ہمیں بتایا 
تُو رہنما ہمارا‘ تُو پاسباں ہمارا 
تیرے ہی حوصلے سے طاقت ملی ہے ہم کو 
تیری ہی آبرو سے عزت ملی ہے ہم کو 
چمکا ہے تیرے دم سے قومی نشاں ہمارا 
اس دیس میں رہے گا چرچا مدام تیرا 
جس شخص کو بھی دیکھا ‘ لیتا ہے نام تیرا 
دل تیری یاد سے ہے اب تک جواں ہمارا 
ہم جو قدم اٹھائیں ‘ آتی ہے یاد تیری 
ہم جس طرف بھی جائیں ‘ آتی ہے یاد تیری 
تجھ سے رواں دواں ہے یہ کارواں ہمارا 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...