پاکستان کے قیام کے مقاصد بہت واضح اور روز روشن کی طرح عیاں تھے جن کی بنیاد پر تحریک پاکستان اٹھائی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ہندوستان کے مسلمان اس تحریک میں جوق درجوق شامل ہوگئے اورقیام پاکستان کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عہد اور عزم مصمم کرلیا جس کی اصل وجہ وہ نعرہ تھا جو پاکستان بنانے کا اصل محرک تھا کہ’پاکستان کا مطلب کیا۔لا الہ الا اللہ ‘‘یہی وہ نعرہ تھا جو تحریک پاکستان کے وقت پورے ہندوستان میں گونجتا رہا اور جس نے ہر کلمہ گو کو اس تحریک کی کامیابی کیلئے اپنا تن من دھن قربان کرنے پر آمادہ اور تیار کردیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 5 ستمبر 1938کو ہندوستان ٹائمزکی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہاتھا کہ ’’پاکستان کوئی نئی چیز نہیں یہ تو صدیوں سے موجود ہے، ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے جہاں آج بھی 70فیصد سے زائد آبادی مسلمانوںکی ہے، یہی مسلمانوں کا ملک ہے۔ ان علاقوں میں ایک ایسی آزاد اور خود مختار اسلامی حکومت ہو ،جس میں مسلمان اپنے مذہب، اپنے تہذیب و تمدن اور قرآن و سنت کے قوانین کے مطابق زندگی گزار سکیں‘‘۔قیام پاکستان تک قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلام کی عظمت اور قرآن کی حقانیت کی بات کی، حضرت محمدؐ جو نظام لیکر آئے تھے اس کو اپنا آئیڈیل قرار دیااور ماڈل اسلامی وفلاحی ریاست بنانے کے عزم بالجزم کا اظہار کیا۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ایک بار نہیں درجنوں بار فرمایا تھا کہ ’’ہمیں کسی نئے دستور کی کیا ضرورت ہے ،ہمارا دستور تو 14سوسال قبل بن چکا ہے ،ہمارا دستور وہی ہے جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے قرآن و سنت کی صورت میں ہمیں عطا کیا ہے‘‘۔ ہم دنیا کیلئے پاکستان کو ایک مینارہ نور ،ماڈل فلاحی ریاست اور اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے۔ قائد اعظم ناصرف اسلامی نظریہ حیات پر مکمل یقین رکھتے تھے بلکہ پاکستان کو ایک ماڈل اسلامی ریاست بنا کر دنیا کو اسلامی نظام زندگی سے روشناس کروانے کا عظیم مقصد بھی ان کے پیش نظر تھا۔پاکستانی تاریخ کے معروف ماہر ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنی تحریروں میں ثابت کیا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم نے ایک سو ایک بار اور قیام پاکستان کے بعد کم از کم 14بار بڑے واضح اور غیر مبہم انداز میں فرمایا تھا کہ ’’پاکستان کے آئین ،نظام حکومت ،قانون اور انتظامی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی‘‘قائد اعظم جس اسلام کو بار بار ضابطہ حیات اور نظام زندگی قراردیتے رہے وہ اس کے خلاف کیسے جاسکتے تھے ؟
جون 1945میں فرینڈ مسلم اسٹوڈنٹس کے نام اپنے پیغام میں قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا’’ہم نے اس قابل بننا ہے کہ اپنی آزادی کی حفاظت کرسکیں اور اسلامی تصورات اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں‘‘ پاکستان کے قیام کے بعد1948میں قائد اعظم نے پاکستان کو دنیا کی ایک عظیم اسلامی مملکت بنانے کا دوٹوک اور واضح اعلان کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’اگر خدا نے مجھے توفیق بخشی تو میں دنیا کو دکھادوں گا کہ اسلامی اصولوں پر عمل پیراہو کرپاکستان پوری دنیا کے لئے مشعل راہ بنے گا،ہم تحریک پاکستان کے جذبے کو ماند نہیں پڑنے دیں گے، پاکستان کو اسلامی نظریہ حیات کے فروغ و اشاعت کا مرکز بنائیں گے‘‘۔‘’ مغربی معاشی نظریے اور عمل کو اپنانا خوش کن تو ہوسکتا ہے مگریہ ہمارے ہاںمتنازع ہے ،لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں یہ ہماری مدد نہیں کرے گا۔ ہمیں اپنی تقدیر کو اپنے طور پرسنوانا ہے۔ انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے حقیقی اسلامی تصور پر مبنی ایک معاشی نظام دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ اس طرح ہم بحیثیت مسلمان اپنے مشن کو پورا کریں گے اور انسانیت کو امن کا پیغام دیں گے جو اکیلا ہی اسے بچا سکتا ہے اور انسانیت کی فلاح و بہبود ، خوشحالی اورمعاشی ترقی کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ "(کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر تقریر ، 1 جولائی 1948)"واقعی اس سے زیادہ اور کیاکامیابی و کامرانی ہوسکتی ہے کہ اب پاکستان ایک طاقتور سرزمین ،ایک خود مختار آزاد اسلامی ریاست کے طور پر اورمسلم حکمرانی کے ساتھ با قاعدہ معرض وجود میں آگیا ہے۔" (18 اپریل 1948 ، ایڈورڈز کالج ، پشاور کے پرنسپل ، عملہ اور طلبائ کے استقبالیہ کے موقع پرخطاب)
17اپریل1948کو گورنمنٹ ہائوس پشاورمیں قبائلی جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا کہ’’ مجھے خوشی ہے کہ آپ کے اندر مکمل احساس پایا جاتا ہے کہ اب ہماری حیثیت بالکل مختلف ہے۔پہلے مسلمان ایک رعایا تھی اور اب آپ حکمران ہیں۔ اب یہ کوئی خارجی حکومت نہیں ہے جیسا کہ پہلے تھا ، اب یہ ایک مسلم حکومت اور اسلام کی حکمرانی والی ریاست پاکستان ہے۔ جس نے اپنی عظمت ،خودمختاری اور باوقار اقتدار کے ساتھ قائم و دائم رہناہے۔ اب یہ ہر مسلمان کا ، آپ کا اور میرا ، اور ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ ہم نے جو ریاست قائم کی ہے کیا وہ ایک مضبوط و مستحکم ریاست ہے‘‘۔
فروری1948میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے عوام کے لئے ریڈیو براڈکاسٹ میں فرمایا کہ "پاکستان ایک اسلامی ریاست ،عالم اسلام کا پہلا اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ پاکستان کے آئین کی تشکیل دستور ساز اسمبلی نے ابھی کرنا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس آئین کی حتمی شکل کیا بننے والی ہے ، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کاآئین ہوگا ، اسلام کے بنیادی اصولوں کو مجسم شکل میں ترتیب دیا جائے گا۔یہ اصول آج بھی حقیقی زندگی میں اتنے ہی قابل اطلاق ہیں جتنے وہ1300 سال پہلے تھے۔اسلامی آئیڈیالوجی نے ہمیں جمہوریت کی تعلیم دی ہے۔ اس نے مردوں کی مساوات ، انصاف کی تعلیم دی ہے اور ہر ایک کے ساتھ فیئرپلے کی ہدایت فرمائی ہے۔ ''
مارچ 1948 میں چٹاگانگ میں عوامی استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’جب آپ کہتے ہیں کہ پاکستان معاشرتی انصاف اوراسلامی سوشلزم کی یقینی بنیادوں پر مبنی ہونا چاہئے جو انسان کی مساوات اور بھائی چارے پر زور دیتا ہے توآپ میرے اور لاکھوں مسلمانوں کے جذبات کی آواز اٹھا رہے ہیں‘‘
مختلف تقاریر اوراسی طرح کے بے شمار بیانات بھی موجود ہیںجو اس بات کی دلیل ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو اسلامی صولوں پر چلنے والی اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔