2020 انسانی تاریخ کے سیاہ سالوں میں سے ایک رہا ہے۔ دنیا انتشار کا شکار ہونے کے باوجودپر امید ہے۔ اس سال قائدڈے ایک بار پھر ہماری توجہ اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کی طرف راغب کراتا ہے۔ کتابی باتیں جو معنی کھو چکی ہیں ،سے ہٹ کر اس دن ہمیں قائد نے جو رہنما اصول دیے ان کو پھر سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ہے۔ نظم و ضبط کے اصول پر سختی سے کاربند قومیں وبائی امراض کے باوجود آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہ محنتی اور متحد اقوام اب بھی ترقی کر رہی ہیں۔ ان اصول و ضوابط کی پیروی کر کے چین، جرمنی اورنیوزی لینڈ جیسے ممالک میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوںکو کووڈ 19 کے چیلنج سے بہترین حکمتِ عملی اور نظم و ضبط کی بدولت بچا لیاگیا ۔ پاکستان نے ضروری اقدامات اور احتیاطی تدابیر اختیار کیں لیکن سب بے سود رہیںکیوں کہ اس دسمبر میں وباء پوری قوت کے ساتھ پھر لوٹ آئی ہے۔ قائد ڈے ہمیں ان چیلنجوں کی یاد دلاتا ہے جن کا سامناقائدِ اعظم نے 1947 میں ملک کو آزاد کرانے کے لیے کیا تھا ، ہمیں اس عزم کی جانب دوبارہ متوجہ ہونے اور حالات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ملک ابھی تک سخت مشکلات کی زد میں ہے لیکن یہ اس کے قیام کے وقت درپیش مشکلات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔''فیصلہ لینے سے پہلے سو بار سوچو، لیکن فیصلہ کرنے کے بعد اس پر ڈٹ جائو''، یہ اُس عظیم انسان کے الفاظ تھے جنہوں نے دنیا کے نقشے پر پاکستان کو جگہ دلوائی ۔ ان کا عزم، خلوص اور نظم و ضبط اب بھی ہماری قوم کی بنیادیں مضبوط کرسکتا اور اس کی عظمت کی ضمانت ہوسکتا ہے ۔ ہمارے چیلنجز دن بدن بڑھتے جارہے ہیں، اس ملک کے عوام کو محض اپنے مسیحا کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی منزل مقصود کو حاصل کرنے کے لئے متحرک ہو سکیں۔ آئیے قائد کی سالگرہ پر ہم نہ صرف ان کی سالگرہ منائیں بلکہ اس ملک کے لوگوں کو دنیا کی ایک غیر معمولی قوم بنانے کے ان کے وژن پر عمل کا آغاز بھی کریں۔
محمد علی جناح کی کہانی 1876 میں کراچی سے شروع ہوتی ہے۔ سونے کا چمچ رکھنے کے باوجود وہ قائدانہ روش اور محنت کے عادی رہے۔ اس نوجوان دلکش لڑکے کا نام ابتدا میں محمد علی جناح بھائی رکھا گیا تھا، لیکن 1894 میںانگلینڈ میں حصولِ تعلیم کے لیے جا کر، انہوں نے اپنی دستاویزات سے ''بھائی'' کا لفظ نکال دیا۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ انگلینڈ میں،محترم جناح نے دراصل اداکاری اور تھیٹر میں کیریئر بنانے کی کوشش کی۔ بعد میں انہیں احساس ہواکہ یہ اس فیلڈ کے لئے موزوںنہیں ہیں۔ اس وقت سے،قائد نے اپنی زندگی قانون اور انصاف کے لئے وقف کردی۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح انگلینڈ سے قانون کی ڈگری مکمل کرنے والے اب تک کے سب سے کم عمر ہندوستانی تھے۔ زندگی کے بارے میں جستجو ،عزم اور اپنے نقطہ نظر کے حوالے سے، وہ ہمیشہ بلند ترین خیالات کے حامل رہے۔مسٹرجناح میں وکیل اور بطور سیاسی رہنما ایک واضح اور لطیف فرق دیکھا جا سکتا ہے۔ قانون اور انصاف کے اصولوں پر سختی سے عمل در آمد جناح کی قیادت اور سیاسی وژن سے عیاں ہوتا ہے۔ سیاست اجتماعی کارروائی کاایک طریقہ ہے اور یہ کارروائی صرف قوانین اور ضوابط کے طے شدہ اتفاق رائے کے اصولوں کے ذریعے ہی کی جاسکتی ہے۔ انگریز خود کو ہندوستانیوں سے تعلیم اور دانش میںبالا تر سمجھتے تھے۔ لنکن اِن سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد، محترم جناح برطانوی قانون اور فقہی اصولوں کے ماہر ترین وکیل کے طور پر سامنے آئے۔ محترم جناح نے ہندوستان میں بھی اپنی یہی منفرد اور الگ پہچان قائم رکھی ۔آج، جیسے جیسے ذرائع مواصلات اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا سمٹ رہی ہے، مختلف رنگ، طبقے اور مسلک کے لوگوں میں تفریق بڑھتی جارہی ہے۔ قائداعظم کے کردار پر تنقید کرنیوالے انہیں ہندوستان کے اتحاد کو تقسیم کرنے کاباعث قرار دیتے ہیں۔ تقسیم کے حوالے سے جناح کے متعلق جھوٹے فلسفے گھڑے گئے۔اسکے برعکس، جناح کو کافی دیر میں یہ انتہائی تکلیف دہ احساس ہوا کہ ہندو اور مسلمان حکمرانی کی مشترکہ شرائط پر اتفاق نہیں کرسکتے۔ مغلوں کی پچھلی مسلم حکومت کے بعد، انگریز وں کا اکثریتی ہندوئوں اور ان کے رہنماؤں کی طرف جھکائو ہو گیا، جس سے مسلمانوں کودانستہ پسماندہ رکھا گیا۔ 1937 میں کانگریس کے ہاتھوں ہونیوالے المناک واقعات کے بعد قائد نے ہندو مسلم اتحاد کے نعرے سے دستبردار ہوتے ہوئے علیحدگی پسند کی حیثیت سے پاکستان کے قیام کا مطالبہ کردیا۔پاکستان کے قیام میں قائد کے کردار اور کاوشوں کو سراہنے والے بھی اس حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ یہ ان کی پہلی ترجیح نہیں تھی۔ اتحاد ِہندوستان کے ذریعے بھی ریاستی معاملات چلائے جا سکتے تھے جو مذہبی اور ثقافتی تضادات کے باعث ممکن نہ ہوا۔ کشمیریوں پر مظالم، اسلامو فوبیا اور ہندوستان بھر کے مسلمانوں کی معمولی نمائندگی جناح کی سچی اور دور رس نظر کی پیش بینی تھی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو ان کے مناسب حقوق نہیں دیئے جارہے تھے ، مذہبی مقامات محفوظ نہیں تھے اور ہندو انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی، پاکستان کا قیام برصغیر میں مذہبی و ثقافتی اختلافات کاواضح ثبوت تھا ۔
قائداعظم کے سیاسی فلسفے کی بنیاد ''دو قومی نظریہ'' تھا، ہاف بیکڈ لبرل نظریات رکھنے والے بہت سے دانشوروں نے قیام پاکستان پر سوال اٹھائے۔ یہاں تک کہ بعض نے بنگلہ دیش کی تخلیق کو دو قومی نظریے کے خلاف استدلال کے طور پر بھی استعمال کیا ، ایک طرح سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر مسلمان الگ قوم ہیں، تو برصغیر میں تین الگ الگ مسلم قومیںیعنی پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کیوں قائم ہیں۔ جو لوگ اس کی نشاندہی کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جغرافیائی حدود کسی قوم کی حیثیت سے انکار نہیں کرتیں۔ برصغیر کے مسلمان، یہاں تک کہ اگر تین الگ الگ سرحدوں میں عقائد، روایات اور اقدار کی ایک حیثیت کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہیں جو اپنی روز مرہ کی سرگرمیوں میں جکڑے ہوئے ہیںتو یہ ان کے ایک قوم ہونے کی دلیل ہے۔ قائداعظم نے نہ صرف ایک علیحدہ قوم کے طور پر مسلمانوں کے نظریے کا دفاع کیا بلکہ اس نظریہ کو ایک سیاسی حقیقت میں تبدیل کردیا جو دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔
محمد علی جناح ہندوستان کے عظیم قانون دانوں میں سے ایک تھے ، جوہندو مسلم اتحاد کے سفیر، ایک عظیم آئین ساز، ممتاز پارلیمنٹیرین، ایک اعلیٰ درجے کے سیاستدان آزادی کے مجاہد، متحرک مسلم لیڈر، ایک سیاسی دانا اور جدید دور کے سب سے بڑے قوم سازوں میں سے ایک تھے۔