اے قائد ہم آپ کے مقروض ہیں

ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا
ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے
یہ شکایت شاعر کے علاوہ بھی بہت لوگوں کو رہتی ہے۔ لیکن بھلا ہو ذوق سپاہیانہ !! ہم الزام تراشی کو بیانیہ سمجھ کر۔۔۔۔ جا رہے ہیں۔اصل میں ادھوری دانش کی ماری قوم اب خود اپنے آپ میں بادشاہ بن چکی ہے۔ہر ایک کے پاس بات کرنے اور منظر نگاری کے لیے پلیٹ فارم موجود ہے۔جس میں ایڈیٹنگ کا نہایت عمدہ آپشن بھی موجود ہے۔اسی لیے ہم وہ ہیرو چاہتے ہیں جو ہم میں سے ہو۔اسے جب چاہیں جھڑک ڈالیں۔جب جی میں آئے سر آنکھوں پہ بٹھائیں اور جب چاہیں دیگر سانحات کی طرح کنارے لگا کر اپنے جیسا نیا ہیرو لے آئیں۔غیرت ، خودداری اور عزت نفس سے لبریز ہیرو ہمیں اس لیے بھی قبول نہیں کہ کہیں وہ سچ مچ ہی آگے نہ بڑھ جائے اور محنت پسند خرد مند کی مانند ہمیں محنت و مشقت اور تحقیق کا عادی بنانے کی کوشش نہ کرے۔ گروہی بقا کا یہ تصور ہم نے جانوروں سے سیکھا ہے۔اس لیے قائداعظم کے سائے خوب پھلتے پھولتے ہیں۔ان کی تصاویر کی عظمت میں اضافہ کرنے کے لیے اپنی خاندانی تصاویر لگا کر اپنے لیے مختلف گوشے بھی مرتب کرتے ہیں۔لیکن دن مخصوص کر کے ایک عہد ساز شخصیت کے کرشماتی کردار کے معترف ہونے سے ڈرتے ہیں۔عماد بزدار نے شاید قوم کے انھی جذبات کی تسکین کے لیے اپنی کتاب کا نام " ملزم جناح حاضر ہو " رکھا۔قائداعظم کے ساتھ اظہار عقیدت کے لیے یہ حوالہ اس قدر مضبوط اور پر خلوص ہے کہ میرے پاس اپنی کوئی بات ہی نہیں۔عماد بزدار نے چار ابواب میں بے شمار موضوعات کا احاطہ کیا ہے لیکن سب سے خوب صورت حوالی قائداعظم کی شخصیت کے بارے میں مختلف لوگوں کی رائے ہے جس کے متعلق معتبرصاحب اسلوب محمداظہار الحق کی رائے ہے۔کہ " عماد نے جذبات سے بلند ہو کر ٹھوس حوالہ جات کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کو دیوار سے لگایا گیا اور اس حد تک زچ اور مجبور کیا گیا کہ پاکستان کے مطالبے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا۔قائداعظم نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے جدوجہد کی اور اس میں ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ساتھ رہنا ممکن نہیں۔عماد یہی منطقی اور زمانی ترتیب بروئے کار لایا ہے۔اس نے پاکستانی مسلمانوں کا رخ اصل قائداعظم کی طرف پھیرا ہے۔یہ ایک خالص تحقیقی کتاب ہے۔اس میں نعرے ہیں نہ جذبات۔حقائق کو مذہبی لبادہ پہنانے کی کوشش کی گئی نہ مذہب سے بزور دور دھکیلنے کی "۔ عماد نے جسونت سنگھ کی کتاب " جناح اتحاد سے تقسیم تک " سے ایک واقعہ بیان کیا ہے جو قائداعظم کی شان دار شخصیت کی تصویر دکھاتا ہے۔ جس میں 1921 میں کانگرس کا احمد آبادکے اجلاس کا ذکر ہے جس میں تمام نمائندوں کو اجتماعی طور پر کھدر پہننا تھا لیکن عظیم قائد جو تحریک آزادی کا مرکزی نشان تھے " وہ وہاں کالر، ٹائی کے ساتھ غیر ملکی کپڑوں میں ملبوس واحد ممبر تھے ،انہوں نے چرخے پر سوت کاتنا ضروری نہیں سمجھا تھا " عماد نے فریڈم ایٹ مڈ نائٹ سے بھی قائداعظم کی شخصیت سے متعلق جو اقتباسات لیے ہیں ،ان سے ایک نہایت محبوب ،خوددار اور عظیم رہنما کا تصور ابھرتا ہے جو مادی ترقی کی علامت نہیں بلکہ روحانی تشخص کا دائمی وجود ہے۔ قائداعظم سے ملاقات کے بعد جب ماؤنٹ بیٹن نے اپنی مطالعہ گاہ سے باہر قدم رکھا تو ایک گہری سانس لی اور اپنے پریس اتاشی کی طرف دیکھ کر بولے۔" باخدا ! میری ساری طاقت تو اس پتھر سے لڑنے میں لگ گئی۔" عماد نے ایسے بے شمار واقعات جمع کیے ہیں جن سے اس کا مقصود قائداعظم کی شخصیت کی حقیقی اور اصل تصویر نسل نو کے سامنے رکھنا ہے جو اوہام و اصنام کے ایسے ہجوم میں گھری ہوئی ہے جہاں مداری اور جادوگر ہیں جو خود کو بادشاہ گر سمجھتے ہیں۔ہمیں ان واقعات سے حب الوطنی کی اہمیت کا بھی احساس ہوتا ہے اور ایک زندہ قوم ہونے کی آس دم نہیں توڑتی۔عماد نے بہت خوب صورت بات کہی کہ " مورخوں کے اس تعصب کے باوجود کوئی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ان دنوں ہندوستان کے مستقبل کی کنجی نہ گاندھی کے ہاتھ میں تھی نہ کسی اور کے۔بلکہ وہ جناح کے ہاتھ میں تھی۔مشرق و مغرب کے جمع کردہ ایسے کتنے ہی نسخے ہیں جو عماد نے پیش کیے ہیں۔یہ عظیم قائد کی کرشماتی شخصیت سے محبت و عقیدت کے لیے ہدیہ ہے۔جدید دور میں وہی قوم ٹھوس بنیادوں پر زندہ رہ سکتی ہے جو اپنے رہنماؤں کی قدر کرے اور قابل فخر روایت کے ساتھ سر اٹھا کے جئے۔آخر میں جدت کی کٹی پتنگ اڑانے والوں کے لیے عماد کامنتخب کردہ پیرا گراف جو اس نے نڑاں پال سارتر کے فرانز فینن کی کتاب پر لکھے دیباچے سے لیا ہے۔ جیو عماد بزدار قوم کو تم جیسے نوجوانوں پہ فخر ہے " ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ اس سر زمین پر دو ارب لوگ بستے تھے۔آدھے ارب انسان اور ڈیڑھ ارب دیسی۔حق اول الذکر کے پاس تھا اور فریضہ دوسروں کے پاس۔ان دونوں کے درمیان چھوٹے موٹے بادشاہ، جاگیردار اور سرمایہ دار تھے۔ سر سے پاؤں تک مصنوعی اور بناوٹی جن کا کام دلالی تھا۔نو آبادیوں میں تو حقیقت ننگی تھی مگر "مادروطن" کے فرزند اسے ملبوس دیکھنا پسند کرتے تھے۔دیسی باشندوں کو ان سے محبت کرنا پڑتی تھی۔کچھ اس طرح جیسے ماں سے کی جاتی ہے۔یورپی دانشوروں نے دیسی دانشوروں کا ایک خاص طبقہ ڈھالنے کا تہیہ کر لیا۔ انہوں نے ہونہار نوجوانوں کا انتخاب کیا۔انہیں مغربی تہذیب کے اصولوں سے داغا، اسی طرح جیسے گرم لوہے سے داغتے ہیں۔انکے منہ میں بلند آہنگ فقرے ٹھونسے۔ 

ای پیپر دی نیشن