کسی قوم کی خوش قسمتی ہوتی ہے کہ اسے محب وطن ‘محب قوم‘ جہاندیدہ ‘ اندازِ جہاں بانی سے واقف اور خدمتِ خلق جیسی خوبیوں کے مالک قابل اور فطین رہنما قائد اعظم محمد علی جناح کی صورت میں مل جائے تو یقینا وہ قوم کامیابی سے ہمکنار ہو کر مملکتِ خداداد ’’پاکستان‘‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ قائداعظم خودی کا رازداں اخوت کا بیاں‘ صاحب افکار جاوداں اور زمانے کے سمندر سے نکلا ہوا گوہر نایاب ہے جو وقت سے آگے مستقبل کا سوچنے والا تنظیم‘ اتحاد اور یقیں محکم کا پیکر ہے۔
؎ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی
قائد اعظم محمد علی جناح کئی خوبیوں کے مالک تھے وہ ریاست کی بھلائی کے لئے اپنی فہم و فراست سے کام لیتے اور ہمیشہ صائب رائے دیتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد -27 نومبر 1947ء کو پاکستان کی پہلی تعلیمی کانفرنس وزیر تعلیم فضل الرحمن کی زیر صدارت کراچی میںہوئی۔ گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے پیغام میں فرمایا۔ ’’اس صورت کا حل ہمیں صدقِ دل سے تلاش کرنا چاہئے اور اپنی تعلیمی حکمت عملی اور نظامِ کار کو ان اصولوں پر ڈھالنا چاہئے جو ہمارے قومی مزاج کے مطابق اور ہماری تاریخ اور تہذیب سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ دورِ جدید کے حالات اور ان عظیم تغیرات کالحاظ رکھتے ہوں جو تمام روئے زمین پر ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس امر کی فوری اور شدید ضرورت ہے کہ ہماری قوم کو سائنسی اور تیکنیکی تعلیم دی جائے تاکہ ہماری آئندہ معاشی زندگی کی تعبیر ہو سکے اور یہ اہتمام ہو کہ ہماری قوم سائنس‘ تجارت ‘ کاروبار اور بالخصوص صحیح طور پر منظم صنعتوں کی طرف مائل ہو اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنی آئندہ نسل کی سیرت کی تعمیر و استحکام کا سامان کرنا ہے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ صحیح قسم کی تعلیم کے ذریعے سے اپنی آئندہ نسل میں اعلیٰ درجے کی شرافت‘ دیانت ‘ ذمہ داری اور قوم کی بے لوث خدمت کا جذبہ پیدا کریں۔‘‘تحریک پاکستان کے لئے خلوصِ دل سے رہنمائی فرمائی کہ لوگ اس مقناطیسی شخصیت کی جانب کھنچے چلے آتے تھے اگر وہ انگریزی میں تقریر کرتے تو سمجھ نہ آنے کے باوجود لوگ ہمہ تن گوش ہوتے اور کہتے کہ وہ ہمارے مسائل حل کرنے کے بارے میں فرما رہے ہیں۔ان کی رہنمائی میں کئی رہنما ساتھ چلتے گئے اور کاروانِ فکر و دانش آگے بڑھتا گیا۔ رفتہ رفتہ لوگ ساتھ شامل ہوتے گئے اور دو قومی نظریہ کی حقیقت کو عملی شکل ملنے لگی۔ہندوستان میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کا قیام 1906 ء میں ہوا اور محمد علی جناح 1913ء میں اس میں شامل ہوئے۔ شبانہ روزبے حد محنت اور سیاسی تدبر کی وجہ سے 36 سال بعد -14 اگست 1947ء کو عظیم وطن پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔
؎ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
-10 اگست 1947ء کو صبح دس بجے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی جسے گورنر جنرل نے بنایا تھا کا پہلا اجلاس سندھ اسمبلی کی عمارت میں پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل کی صدارت میں ہوا 72 میں سے 52 ارکان نے شرکت کی اور قائد اعظم نے رجسٹر پر سب سے پہلے دستخط کئے۔ انہوں نے اس موقع پر فرمایا۔ ’’اگر ہم مملکتِ پاکستان کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس مملکت کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ایک جگہ جمع ہو جانا چاہئے۔‘‘اس اجلاس میں پاکستان کے پرچم کا ڈیزائن بھی منظور کیا۔ لیاقت علی خاں نے فرمایا! ’’جھنڈا کسی ایک سیاسی جماعت یافرقے کا نہیں یہ پاکستان کا قومی پرچم ہے ۔ پہلی دستور سازاسمبلی کا قیام پاکستان کے بعد پہلا باضابطہ اجلاس -23 فروری 1948ء کو کراچی میں منعقد ہوا جس میں مولوی تمیزالدین نے قرارداد پیش کی کہ ضابطہ کار کے قواعد کامسودہ منظور کر لیا جائے۔اس روز بیگم شائستہ سہروردی اکرام اللہ نے پہلی مرتبہ تقریر کی۔ پروفیسر چکرورتی نے کہا کہ اسمبلی کا اجلاس آئندہ سال ڈھاکہ میں بھی ہونا چاہئے۔ اسی روز پاکستان فیڈرل کورٹ کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا۔اجلاس کی صدارت قائدِ اعظم نے کی۔بھارت کے رہنما مسٹر گاندھی کی وفات پر بھی رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ اس پہلے اجلاس میں سب سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے بعد پنتالیس ارکان نے حلف اٹھایا جن میں آٹھ ارکان ہندو تھے۔ دستور ساز اسمبلی کے پہلے صدر قائد اعظم -11 ستمبر 1948ء تک اس عہدے پر فائزرہے۔قیامِ پاکستان کے بعد سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری کا تھا۔ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے انتظامیہ نے اپنی بساط کے مطابق دن رات محنت کی۔مہاجرین کی کثیر تعداد میں آمد کاسلسلہ جاری تھا ان کی بحالی کے لئے مرکزی حکومت کو -27 اگست 1947ء کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہنگامی حالات کا نفاذ کرنا پڑا اس سلسلہ میںقائد اعظم نے ایک آرڈیننس بھی جاری کیا۔ -14 اگست 1948ء کو پاکستان کی آزادی کی سالگرہ منائی گئی۔اس موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم کے نام پہ پیغام نشر کیا۔ ’’بھائیو آج ہم اپنی آزادی کی پہلی سالگرہ منا رہے ہیں ایک سال قبل آج ہی کے روز تمام اختیارات پاکستانی باشندوں کو منتقل کر دئیے گئے تھے اور موجودہ آئین کی روسے حکومتِ پاکستان نے اس ملک کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے لیاتھا۔اس ایک سال میں ہم نے بڑے حوصلے ‘ عزم اور سوجھ بوجھ سے حالات کا مقابلہ کیا ہماری کامیابیاں واقعی تعجب خیز ہیں۔ ہم نے دشمن کے تمام حملوں کو جن میں مسلمانوں کے قتلِ عام کی سوچی سمجھی سکیم بھی شامل تھی ناکام بنا دیا ہے اور اندرونی طور پر صحیح تعمیری کام کو کامیابی سے جاری رکھا ہے۔ ہمارے تعمیری کارناموں کے نتائج ہمارے بہترین دوستوں کی توقعات سے بڑھ کر نکلے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستانی وزرا اور وزیر اعظم کو آئین ساز اسمبلی اور دوسری قانون ساز اسمبلیوں کے ممبروں کو مختلف سرکاری محکموں میں کام کرنے والے سرکاری افسروں کو اور دفاعی فوج کو ان قابلِ قدر کارناموں پر مبارک دیتا ہوں جو آپ نے مختصر سے عرصے میںکئے ہیں اس کے ساتھ ہی پاکستان کے عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمارے پہلے سال کے پروگرام میں صدقِِ دل کے ساتھ ہماری امداد کی اور بڑے صبر و تحمل سے کام لیا۔‘‘
؎یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہرِ یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمتِ مردانہ
امیری میں ‘ فقیری میں ‘ شاہی میں‘ غلامی میں
کچھ کام نہیں بنتا بے جرأتِ رندانہ
تحریک پاکستان اور تاریخ پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کا نام سنہری حروف سے مسلمانوںکے دلوں پر لکھا ہوا ہے۔ قرارداد پاکستان جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی میں اہم یحثیت رکھتی ہے۔ یہ قرارداد پاکستان مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس منعقدہ لاہو رمیں پیش کی گئی جس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح نے فرمائی۔ 22 سے 24 مارچ1940 کو منٹو پارک لاہور موجودہ اقبال پارک میں مسلم لیگ کا عظیم الشان اجلاس ہوا جس میں پہلی بار آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پہلی بار واضح الفاظ میں ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ 23 مارچ کو قرارداد پاکستان … مولوی فضل حق نے پیش کی۔ جس کی تائید چودھری خلیق الزمان نے کی جبکہ بیگم محمد علی جوہر نے اسے پہلی مرتبہ قرارداد پاکستان کہا۔ 24 مارچ 1940ء کو قراردادمنظور ہوئی اور پھر شب و روز آزادی کیلئے تگ و دو جاری رہی۔ قائداعظم محمد علی جناح کی سرپرستی میں متعدد رہنمائوں اور لاکھوں مسلمانوں نے جدوجہد کی۔ تو سات سال بعد 14 اگست 1947ء کو عظیم ریاست پاکستان معرف وجودمیں آئی۔ قرارداد پاکستان کو قرارداد لاہور بھی کہا جاتا ہے کیونکہ لاہور میں منعقدہ اجلاس میں منظور کی گئی تھی۔30 دسمبر 1930ء کو الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسہ کی صدارت علامہ محمد اقبال نے کی۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطبہ میں فرمایا ’’میری خواہش ہے کہ پنجاب‘ صوبہ سرحد‘ سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست بنا دیا جائے۔