سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام ایک جلیل القدر اور اول العزم پیغمبروں میں سے ہیں وہ اسی طرح سے پیغمبر اور رسول ہیں جس طرح سے ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ سچے نبی اور رسول ہیں حضرت عیسی علیہ السلام خاتم النبیاء بنی اسرائیل ہیں اور ہمارے پیارے پیغمبر ﷺ کل کائنات کے انبیاء کے خاتم الرسل و خاتم النبیین ہیں جن میں سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام بھی شامل ہیں حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت محمد مصعفی احمد مجبتی ﷺ کے درمیان میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا اس کی مدت 570 سال ہے جسے فطرۃ یعنی انقطاع وحی کا زمانہ کہا جاتا ہے آپ پر چار عظیم الشان آسمانی کتب میں سے ایک کتاب انجیل مقدس جسے بائیبل کہتے ہیں نازل ہوئی تھی چونکہ حضور اکرم ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ پر نازل ہونے والی اللہ تعالی کی سچی کتاب قرآن کریم آخری کتاب ہے اس لیے اب اس کتاب کے اندر جو قوانین شریعت خالق کائنات نے نازل فرما دیے ہیں انہی پر عمل کرنا ضروری ہے سابقہ کتب کی شریعتیں جو اپنے دور میں بالکل سچ اور حق تھیں اور ان پر عمل ہی مدار نجات سمجھا جاتا تھا اس وقت ان کی شریعتیں منسوخ ہو گئی ہیں گویا کہ قرآن کریم تمام کتب سماویہ کی ایک روح ہے مگر اتنی بات مسلمہ عقائد میں سے ہے کہ جس طرح سے مسلمان نبی مقدس خاتم الرسل حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیﷺ کو اللہ تعالی کا سچا رسول اور سچا نبی مانتے ہیں اسی طرح سے تمام سابقہ انبیاء کرام کو بھی سچا رسول اور سچا نبی ماننا ضروری ہے کسی بھی رسول یا کسی بھی نبی کی شان میں ایک ذرے کے کروڑویں حصے کے برابر بھی کوئی شخص بے ادبی کرے گا یا گستاخی کرے گا تو وہ مرتد کہلائے گا اسی طرح سے جیسے قرآن کریم کی سچائی اور حقانیت اور منجانب اللہ ہونے پر ہر مسلمان کو ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے قوانین پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے بین ہی اسی طرح پہلی تمام کتابوں کو اللہ تعالی کی سچی اور مقدس کتابیں اور منجانب اللہ نزول شدہ ماننا ضروری ہے اور ایمان قائم ہی نہیں ہو سکتا جب تک ان تمام کتابوں کو جو قرآن کریم سے پہلے نازل ہوئی ہیں سچی کتابیں منزل من اللہ نہ مانا جائے صرف فرق یہ ہے کہ وہ قوانین جو ان کتب میں اللہ تبارک و تعالی نے نازل فرمائے تھے ان قوانین کی تکمیل کر کے اور مزید خوبصورتی کے سا تھ قراٰن کریم میں بیان کر دیے اور حکم دیا کہ ایمان سب کتابوں پر لانا ہے مگر قوانین شریعت جو ہیں وہ صرف اور صرف وہ قابل عمل ہیں جو قراٰن پاک میں ہیں اور اب نجات کا دارو مدارس انہی قوانین پر عمل کرنے میں ہوگا اس کی میں عام فہم ایک مثال دیتا ہوں جیسے ملک پاکستان میں 56 کا قانون تھا جو اپنے دور میں بالکل صحیح تھا پھر 62 کا قانون آگیا پھر 73 کا آئین اسمبلی نے پاس کر دیا پھر اس میں ترامیم ہوئیں اب ملک میں وہی قانون چلے گا جو 73 ء کا مع ترامیم کے ہے اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ 56 اور62 کا قانون غلط تھا کہا یہ جائے گا کہ اپنے دور کے اندر وہ قوانین بھی بالکل درست تھے اور جو فیصلے ان قوانین کے تحت ہوئے اس دور میں وہ بھی بالکل درست تھے مگر اب آخری قانون 73ء کا ہے اب اس پر عمل ہوگا سابقہ قوانین اس کی آمد کے بعد منسوخ سمجھے جائیں گیم مگر یہ ہر گز نہیں کوئی شخص کہہ سکتا کہ وہ سابقہ قوانین غلط تھے وہ اپنے دور میں صحیح تھے اب اس دور میں 73 کا قانون لاگو ہے اور درست ہے اسی طرح سے اس مثال سے سمجھیں کہ سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا حضرت عیسی مسیح علیہ السلام تک جتنی کتب اور صحیفے نازل ہوئے وہ سب کے سب درست اور حق تھے ان کی حقانیت اور سچائی پر اب بھی اسی طرح ایمان لانا ضروری ہے جس طرح قرآن پاک پر صرف قوانین شریعت جو تبدیل ہو گئے ہیں وہ وہی قابل عمل ہوں گے اور انہی پر عمل آخرت کی نجات کا سبب ہوگا جو قرآن کریم میں موجود ہیں یا جس ہستی پر یہ قرآن پاک اترا ہے انہوں نے اپنے فرمودات عالیہ یا اپنے اعمال صالحہ کے ذریعے بتلا دیے ہیں جنہیں احادیث پاک کہتے ہیں جن کی وضاحت علماء ربانیین نے فرمائی جن کو فقہائے عظام کہتے ہیں ۔
سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر قرآن پاک کی 13 سورتوں البقرا، آل عمران ، النساء ، المائدہ ، الانعام ، التوبہ ، مریم ، المومنون، الاحزاب ، الشوری ، الزخرف ، الحدید ، الصف،میں آپ کا ذکر موجود ہے قرآن کریم کی ان سورتوں میں 84 آ یات میں آپ کا ذکر مبارک ہے قرآن کریم میں آپ کے چار اسمائے مبارکہ ہیں 1۔ عیسی جو 26 مرتبہ،مسیح 11 مرتبہ،عبداللہ 1 مرتبہ ،ابن مریم 23 مرتبہ،کل 61 دفعہ قرآن کریم میں یہ اسماء مبارکہ آ تے ہیں ۔اللہ تبارک و تعالی کے ایک جلیل القدر نبی سیدنا حضرت دائود علیہ السلام کے متعدد بیٹے تھے ان میں سے ایک بیٹا جلیل القدر نبی سیدنا حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں ان کی 16 ویں پشت میں ایک نہائیت پارسا بزرگ عمران ہیں ۔ اور حضرت دائود علیہ السلام کے دوسرے بیٹے قبیل کی نسل سے اتنے ہی واسطوں کے بعد ایک خاتون ہے جس کا نام حنہ ہے ۔ عمران اور حنہ میاں بیوی ہیں یہ بے اولاد تھے ان کو بڑھاپے میں اللہ تبارک و تعالی نے صاحب اولاد کیا اور ایک بیٹی عطاء فرمائی جس کا نام مریم صدیقہ رکھا گیا ۔ یہی وہ عظمت والی ملکہ جنت ہے جس کے بطن مبارک سے سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام جنہیں مسیح عبد اللہ اور ابن مریم کے نام سے قرآن نے پکارا ہے ۔اور سریانی زبان میں آپ کو یسوع بھی کہتے ہیں مریم صدیقہ اللہ تبارک و تعالی کی عظمت قدرت کا ایک نشان تھیں ان کے والد محترم حضرت عمران ان کی پیدائش سے پہلے فوت ہو گئے تھے ان کے سگے خالو سیدنا حضرت زکریا علیہ السلام نے ان کی پرورش فرمائی تھی ۔ جب یہ جوان ہوئیں تو اللہ تبارک و تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے معجزے کے طور پر بن خاوند کے ان کو ایک سچا اور پیارا بیٹا سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام عطاء فرمایا جنہوں نے ولادت کے چند گھنٹے بعد کلام کی اور اپنی نبی ہونے کا اعلان فرمایا اور اپنی ماں کی پاک دامنی اور سعادت مندی کا ذکر کیا۔ حضرت عیسی علیہ السلام جب جوان ہوئے تو اللہ تبارک و تعالی نے ان کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور بڑے بڑے معجزات عطاء فرمائے وہ مردوں کو زندہ کر دیتے تھے کوڑھی کو ٹھیک کردیتے تھے نابینوں کو بینا کر دیتے تھے ان کی مقبولیت چار دانگ عالم میں پھیل گئی اس پر وقت کے بادشاہ کے کان ظالم یہودیوں نے بھرے اور ان کی مقبولیت کو اس کی حکومت کے لیے خطرہ قرار دیا اس پر ظالم بادشاہ نے ان کو گرفتار کر کے شہید کرانا چا ہا تو اللہ تبارک و تعالی نے حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کو بھیج کر ان کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا اور ایک شخص جو غداری کر کے ان کے گھر داخل ہوا تھا اسے ان کی ہم شکل بنا دیا گیا اور یہیودیوں نے اس شخص کو پھانسی دید ی اور آج تک اسی غلط فہمی میں ہیں کہ ہم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو پھانسی دی جب کہ قرآن و حدیث میں دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا گیا ہے کہ آپ کو کسی نے پھانسی نہیں دی بلکہ اللہ تعالی نے زندہ اٹھا لیا ۔ جب قرب قیامت کا وقت آئے گا تو دنیا میں بہت بڑا فتنہ اٹھے گا اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو گا اور انہی دنوں میں ایک بہت بڑا فتنہ دجال برپا کرے گا جو قوم یہود سے ہوگا اللہ تبارک و تعالی اس کے خاتمے کے لیے سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام کودمشق کی جامع مسجد میں نازل فرمائیں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام مقام لد پر دجال کو قتل کر دیں گے پھر پوری دنیا میں اسلام ہی اسلام ہوگا آپ چالیس سال زندہ رہیں گے شادی کریں گے اور اولاد ہو گی اس کے بعد فوت ہو جائیں گے اور آپ کو حضور اکرم ﷺ کے روضہ اطہر کے اندر دفن کیا جائے گا وہاں ایک قبر کی جگہ آج بھی موجود ہے ۔