قائد اعظم کی قابلیت ،ذہانت،محنت،ایمانداری ، دور اندیشی اوراصول پسندی کے صرف مسلمان ہی قائل نہیں تھے بلکہ ہندو اورانگریز بھی ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کے معترف تھے یہی وجہ ہے کہ انگریز اب تک اس بات کا رونا روتے ہیں کہ اگر انھیں قائد اعظم محمد علی جناح کی بیماری کا علم پہلے ہوجاتا تو وہ کبھی بھی پاکستان بننے نہ دیتے۔ قائد اعظم اپنی بیماری سے متعلق بہت پہلے سے آگاہ تھے اور یہ ان کی دور اندیشی تھی کہ انھوں نے کبھی اپنی بیماری کو ہندووں اورانگریزوں پر ظاہر ہونے نہیں دیاتھاکیونکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ اگر ہندووں اور انگریزوں کو ان کی بیماری کاعلم ہوگیا تو پھرانگریز ہندوستان کی تقسیم کو موخر کردیں گے۔آپ کی مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کے قیام کے لئے جدوجہداور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت کا اندازہ ان تاریخی جملوں سے لگایا جاسکتاہے جب وفات سے قبل قائد نے اپنے ڈاکٹر سے کہا کہ ’’پاکستان ہرگز وجود میں نہ آتا اگر اس میں فیضان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل نہ ہوتا۔‘‘ آپ سولہ سال کی عمر میںوکالت کی تعلیم کے حصول کیلئے جب لندن گئے تو وہاں تعلیمی درسگاہ ’’لنکنز اِن‘‘ میں داخلہ کو اس لئے ترجیح دی کہ اسکے صدر دروازے کے اوپر دنیا کے عظیم ترین رہنماوں کے نام درج تھے جنھوں نے دنیا کو قوانین سے متاثر کیاان میں سرفہرست حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک لکھا تھا۔آج اسی تاریخی درسگاہ لنکنز اِن کی لائبریری میں قائد اعظم کا مجسمہ نصب ہے جسے برطانوی مجسمہ ساز فلپ جیکسن نے تیار کیا تھا۔قائد کا مجسمہ دنیا بھر سے وکالت کی تعلیم کے لئے وہاںآنے والے طلباء کو یہ پیغام دیتا ہے کہ کس طرح قائد اعظم نے دنیا کو اپنے کامیاب اور مضبوط دلائل سے قائل کرکے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن پاکستان کی بنیاد رکھی۔
حضرت پیر سید جماعت علی شاہ اس دورکے ولی کامل تھے، انھوں نے ایک مرتبہ فرمایا کہ ’’محمد علی جناح اللہ کا ولی ہے۔‘‘اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ اس شخص کو اللہ کا ولی کہہ رہے ہیںجو دیکھنے میںانگریز لگتا ہے اوراس کی داڑھی بھی نہیں ہے۔ اس پر حضرت جماعت علی شاہؒ نے فرمایا کہ ’’تم اس کو نہیں جانتے وہ ہمارا کام کررہا ہے۔‘‘ آپ نے قائد اعظم کو قرآن پاک،جائے نماز اور تسبیح کا تحفہ بھی دیا تھا۔ جس طرح آج کے دور میں اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کو لڑانے کیلئے شیعہ،سنی کے نام پر فساد پیدا کرنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اسی طرح قائد اعظم کے دور میں بھی مسلمانوںکے درمیان پھوٹ ڈلوانے کے لئے ایسی گھٹیا حرکتیں کی جاتی تھیںچنانچہ ایک کانفرنس میں کسی صحافی نے جب قائد اعظم سے سوال پوچھا کہ ’’ آپ شیعہ ہیں یا سنی؟‘‘یہ سوال ایسا تھا جس کے جواب میں شیعہ،سنی کے درمیان فساد برپا ہونے اور مسلمانوں کے آپس میںتقسیم ہو جانے کا خطرہ تھا۔قائد نے اپنی ذہانت سے برجستہ صحافی سے سوال پوچھا’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیا تھے؟اگر وہ شیعہ تھے تو میں شیعہ ہوں،اگر وہ سنی تھے تو میں سنی ہوںاور اگر وہ صرف مسلمان تھے تو میں بھی صرف مسلمان ہوں۔‘‘ایک مرتبہ سن1941 ء میں قائد اعظم مدراس میں مسلم لیگ کا جلسہ کرکے واپس جارہے تھے کہ راستے میں ایک قصبہ سے گذر ہوا جہاں مسلمانوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا،سب پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگارہے تھے اسی ہجوم میں پھٹی پرانی نیکر پہنے ایک آٹھ سال کا بچہ بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگارہا تھا،اسے دیکھ کر قائد نے اپنی گاڑی روکنے کو کہا اور لڑکے کو پاس بلا کرپوچھا’’تم پاکستان کا مطلب سمجھتے ہو؟‘‘لڑکا گھبراگیا۔قائد نے اس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پیار سے پھروہی سوال پوچھا۔لڑکا بولا ’’پاکستان کا بہتر مطلب آپ جانتے ہیں،ہم تو بس اتنا جانتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومت وہ پاکستان اور جہاں ہندووں کی حکومت وہ ہندوستان۔‘‘قائد اعظم نے اپنے ساتھ آئے صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’’مدراس کا چھوٹا سا لڑکا پاکستان کا مطلب سمجھتا ہے لیکن گاندھی جی نہیں سمجھ سکتے۔‘‘یہ بات صحافی نے نوٹ کرلی اور اگلے روزتمام اخبارات میںیہ خبر شائع ہوگئی۔
مسلمانوںکے لئے الگ وطن کے قیام کی ضرورت اور اہمیت آج دنیا کو اچھی طرح معلوم ہوچکی ہے خصوصاانڈیا میں رہنے والے مسلمان جو ماضی میں ہندوستان کی تقسیم سے نالاں نظر آتے تھے آج قائد اعظم محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ کو درست تسلیم کرتے ہوئے اس بات پر پچھتاتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد نے انڈیا میں رہنا قبول کیوں کیا۔علامہ اقبال بھی قائد اعظم کی قابلیت اور دیانت کومانتے تھے۔ سن1936ء کے آخری دنوں میں ایک روزجب قائد اعظم کی امانت ، دیانت اور قابلیت کا ذکر ہو رہا تھا اس پر علامہ اقبال نے کہا’’مسٹر جناح (اس وقت تک ان کے لیے قائد اعظم کا لقب رائج نہیں ہوا تھا)کواللہ تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جو آج تک ہندوستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آئی ۔‘‘ حاضرین میں سے کسی نے پو چھا کہ وہ خوبی کیا ہے؟ تو علامہ اقبال ؒ نے انگریزی میں کہا
He is incorruptible and unpurchaseable.
قائد اعظم کی زندگی کاکوئی بھی واقعہ پڑھ لیں ہر ایک میں محنت، دیانت، سچائی، ایمانداری، ذہانت،اصول،دین اسلام اور نبی کریم ؐسے محبت کا درس ملے گا ۔ہمیں آزادی کی قدر کرتے ہوئے ملک میں ترقی،خوشحالی،امن اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہوگا۔