انسانی تاریخ میں ایسی باکمال شخصیات بھی پیدا ہوتی رہیں جو زندگی بھر اشرف المخلوقات کے مقام پر کھڑی رہیں اور فرشتہ سیرت قرار پائیں۔ قائد اعظم کا شمار بھی انہی عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے۔ عطا ربانی قائد اعظم کے اے ڈی سی تھے، انہوں نے قائد اعظم کی شخصیت اور کردار کا قریب سے مشاہدہ کیا اور اپنی یادداشتوں پر مبنی قائد اعظم پر ایک کتاب لکھی جس کا نام’ سیاسی فرشتہ‘ رکھا۔ مصور پاکستان علامہ اقبال کا یہ شعر قائد اعظم پر صادق آتا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
قائداعظم نے ساری زندگی اسلام کے بنیادی سنہری اصولوں کے مطابق گزاری۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، جو وعدہ کیا اسے پورا کیا اور امانت میں کبھی خیانت نہیں کی۔ یہ اوصاف ایک مردِ مومن کے ہی ہو سکتے ہیں۔ جب لندن میں زیر تعلیم تھے تو انہوں نے یونیورسٹی کی جانب سے کرسمس کی ایک پارٹی میں شرکت کی۔ ایک انگریز خاتون نے ان سے گلے ملنے کی فرمائش کی تو قائداعظم نے کہا کہ میری اخلاقی اقدار مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتیں۔ پاکستان کا پہلا گورنر جنرل بننے کے بعد انہوں نے گورنر جنرل ہاؤس کے اخراجات کافی کم کر دیے۔ انہوں نے اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق سادگی اور کفایت شعاری کا مظاہرہ کیا۔ وہ رات کو سونے سے پہلے گورنر جنرل ہاؤس کے فالتو بلب بجھا دیتے تھے تاکہ بجلی کا بل کم آئے۔ ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور کانگریس کے لیڈروں نے قائداعظم کو پیشکش کی کہ اگر وہ پاکستان کا مطالبہ مؤخر کر دیں تو ان کو متحدہ ہندوستان کا پہلا وزیراعظم بنایا جا سکتا ہے۔ قائد اعظم نے جواب دیا کہ وہ اپنی قوم کا سودا کیسے کر سکتے ہیں! علامہ اقبال نے قائداعظم کے بارے میں مشہور جملہ کہا تھا کہ’ ان کو کوئی نہ تو خرید سکتا ہے اور نہ ہی کرپٹ کر سکتا ہے۔‘ نامور مؤرخ ایچ وی ہڈسن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’جناح کے مخالفین نے بھی کبھی ان پر کرپشن یا مفاد پرستی کا الزام نہیں لگایا۔ ان کو کوئی کسی قیمت پر نہیں خرید سکتا تھا۔‘
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے پاکستان میں سیاستدانوں کی کرپشن کی داستانیں صبح شام بیان کی جاتی ہیں، پھر بھی عوام ٹس سے مس ہونے پر تیار نہیں ہوتے اور کرپٹ سیاستدانوں کے حامی بنے رہتے ہیں۔ 1946ء کے انتخابات میں جب قائد اعظم سندھ کے دورے پر پہنچے تو وہاں کے مسلم لیگی لیڈر نے قائداعظم سے ووٹ خریدنے کے لیے پارٹی فنڈ مانگا۔ قائداعظم نے یقین محکم سے کہا کہ وہ انتخاب ہارنا منظور کر لیں گے مگر کسی کو ووٹ کے لینے کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں دیں گے۔ آج کے پاکستان میں سیاست تجارت بن چکی ہے اور انتخابات میں سرمایہ کاری ہو تی ہے مگر عوام اپنی سوچ بدلنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ قدرت اللہ شہاب اپنی معروف کتاب’شہاب نامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ متحدہ ہندوستان میں سرکاری ملازم تھے۔ ان کو ایک ایسی فائل دیکھنے کا موقع ملا جس میں مسلم لیگ کو ناکام بنانے کے لیے ایک منصوبے کی سمری شامل تھی۔ قدرت اللہ شہاب یہ فائل لے کر قائد اعظم کے پاس پہنچے۔ قائد اعظم نے سمری دیکھ کر کہا کہ آپ نے سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔ آپ کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے، آئندہ احتیاط کرنا۔ ایسی نصیحت کوئی فرشتہ سیرت سیاستدان ہی کر سکتا ہے۔ جب مادرِ ملت فاطمہ جناح نے اپنے بھائی قائد اعظم کو صحت کی خرابی کی وجہ سے اپنی سیاسی مصروفیات ترک کرنے کا مشورہ دیا تو قائد اعظم نے کہا جب میں دس کروڑ افراد کی سلامتی و بقا کی تشویش میں مبتلا ہوں اور ان کی آزادی کی جنگ کردیا ہوں تو ایک فرد کی صحت کیا حیثیت رکھتی ہے۔ قائد اعظم کے سیکرٹری کے ایچ خورشید اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک دن وہ قائداعظم اور مادرِ ملت کے ساتھ ایک جلسے سے رات کو لیٹ گھر پہنچے۔ مادرِ ملت نے قائد اعظم سے کہا کہ جلسۂ عام میں جو پارٹی فنڈ اکٹھا ہوا ہے اس کی گنتی صبح کرلیں گے۔ قائد اعظم نے دونوں کو کہا کہ وہ ابھی ساری رقم گن کر رجسٹر میں درج کریں کیونکہ یہ عوام کی امانت ہے۔ آج کل پارٹی فنڈ کے نام پر اربوں روپے لوٹے جاتے ہیں مگر عوام کرپٹ سیاستدانوں کے بارے میں اپنے رویے تبدیل کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ عطا ربانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب دیہات میں لوگ ریڈیو پر قائد اعظم کا خطاب سنتے تو پوچھتے کہ بابے نے کیا کہا ہے، پھر خود ہی کہتے، بابے نے جو کہا سچ ہی کہا ہوگا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد نوجوان نسل کو قائداعظم کی شخصیت اور کردار کے بارے میں آگاہ کرنے کی بجائے انہیں نظریاتی بحثوں میں الجھا دیا گیا تاکہ فرشتہ سیرت قائداعظم کی اخلاقی خوبیاں عوام تک نہ پہنچ سکیں۔ آج بھی اگر پاکستان کے نوجوان قائداعظم کے بے مثال اوصاف سے واقف ہو جائیں تو کبھی کرپٹ سیاستدانوں کے جھانسے اور فریب میں نہ آئیں۔ قائد اعظم نے اپنی شب و روز محنت سے جو جائیدادیں اور اثاثے بنائے ان کو پاکستان کے تعلیمی اور فلاحی اداروں کے لیے وقف کر دیا۔ گویا قائداعظم ایک ایسے فرشتہ سیرت لیڈر تھے کہ جنہوں نے نہ صرف اپنا خون پسینہ مسلمانوں کی آزادی کے لیے وقف کر دیا بلکہ اپنی محنت کی کمائی پوری جائیداد بھی پاکستان پر نثار کردی۔ آج کے پاکستان میں سیاستدان لوٹ مار کر کے قومی دولت ملک سے باہر لے جاتے ہیں اور پاکستان روزبروز غریب اور مقروض ملک ہوتا جا رہا ہے۔
’پاکستان جاگو تحریک‘ پاکستان کی واحد تنظیم ہے جس نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کو اپنا رول ماڈل بنایا ہے اور پاکستان کے نوجوانوں کو قائد اعظم کی عملی زندگی کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کو علم ہو سکے کہ عظیم سیاستدان کی شخصیت اور کردار کیسا ہوتا ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں کو کرپٹ سیاستدانوں سے بچانے کا واحد آپشن یہ ہے کہ ان کو قائد اعظم کی سیاسی زندگی کے ساتھ جوڑ دیا جائے کیونکہ وہ کرپٹ ماحول میں آنکھیں کھولتے ہیں، شعور کی منزلیں طے کرتے ہیں اور ان کے لاشعور میں یہ بات گھر کر لیتی ہے کہ سارے سیاستدان کرپٹ ہی ہوتے ہیں اور کرپشن ایک کلچر ہے جس کے بغیر ملک کو نہیں چلایا جاسکتا۔ نوجوانوں کی رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت جو بھی لیڈر تھے وہ کرپٹ نہیں ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قائد اعظم کی قیادت میں آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ جس سیاست دان کا اخلاقی وجود نہ ہو وہ رہبر نہیں رہزن ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے قائد اعظم کی شخصیت اور کردار سے متاثر ہو کر کہا تھا:
نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
٭…٭…٭
فرشتہ سیرت قائد اعظم
Dec 25, 2021