قیام پاکستان کے بعد اس بحث نے سر اٹھایا کہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نئی مملکت کے لیے کس قسم کا نظام حکومت رائج کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ اس ضمن میں گروہ بندیاں شروع ہو گئیں۔ آزاد خیال لوگوں نے قائداعظم کے افکار کو لبرل ازم سے تعبیر کیا تو کچھ لوگ سوشل ازم کا نعرہ لگانے لگے۔ مجموعی طور پر جو نعرہ بلند ہوا وہ اسلامی نظام کے نفاذ کا تھا۔ اگر ہم تحریکِ پاکستان کا عمیق جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ مطالبۂ پاکستان کی تحریک میں اوّلین نعرہ ’ پاکستان کا مطلب کیا : لاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ‘ تھا۔
قدرت نے قائداعظم محمد علی جناحؒکو گراں قدر خوبیوں سے سرفراز فرمایاتھا۔ وہ ایک مفکر کی طرح سوچتے تھے اور ایک مجاہد کی طرح عمل کرتے تھے۔ بچپن ہی سے محنت کرنے کے خوگر تھے۔ ان کے عادات و اطوار دوسرے طالب علموں سے مختلف تھے۔ ان کی سوچ کا دھارا ہمیشہ مثبت رہا۔ امانت ، دیانت ، فراست، اعانت اور اخوت ان کی شخصیت کے نمایاں اوصاف رہے۔ قرآن کریم اور دیگر کئی اسلامی کتب کا مطالعہ ان کے معمولات میں شامل تھا۔
قائداعظم محمد علی جناح اسلامی نظام حیات کے خدو خال کو سمجھتے تھے۔ وہ جذبۂ ایمانی اور جذبۂ عشقِ رسول ﷺ کے خوگر تھے یہی وجہ ہے کہ وہ سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتے رہے ۔ کسی موڑ پر بھی انھوںنے اپنے اصولوں پر سودے بازی نہ کی۔
اگست 1941ء میں محمد علی جناح نے راک لینڈ کے شاہی مہمان خانے میں طلبہ سے تبادلۂ خیال کرتے ہوئے فرمایا:’جب میں انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورہ کے مطابق میرا ذہن ’خدا اور بندے ‘ کی باہمی نسبتوں اور روابط کی طرف منتقل ہوجاتاہے ۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ ’اسلام ‘ اور مسلمانو ں کے نزدیک ’مذہب‘ کا یہ محدود اور مقید مفہوم نہیں ہے ۔ میں نہ تو کوئی مولوی ہوں، نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے، البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے ’مطالعہ‘ کی اپنے طور پر کوشش کی ہے ۔ اس عظیم الشان کتاب یعنی قرآن مجید میں اسلامی زندگی کے متعلق ہدایات کے بارے میں زندگی کا روحانی پہلو، معاشرت، سیاست ، غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو قرآن کریم کی تعلیمات کے احاطہ سے باہر ہو۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا تیسواں سالانہ اجلاس دہلی میں 24 اپریل 1948ء کو منعقد ہوا۔ اس میں قائداعظم نے اپنے فی البدیہہ خطبۂ صدارت میں واشگاف الفاظ میں اعلان فرمایا: ’جب آپ لوگ واپس جائیں تو میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا کہ از راہِ عنایت طبقاتی مفادات ، بغض وحسد ، قبائلی نظریات اور خود غرضی کی بجائے ،اسلام اور اپنی قوم سے محبت جاری و ساری کردیجیے (تالیاں) کیوںکہ ان برائیوں نے آپ کو مغلوب کرلیا ہے لیکن مجھے روشنی نظر آتی ہے ایک بہت تاب ناک روشنی ۔ ‘ ایک اور اجلاس میں گفتگوکرتے ہوئے محمد علی جناح نے کہا: ’ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں کی آزادی کا مختصر ترین راستہ ہے ’پاکستان ‘ ۔ یہ میری زندگی میں آئے یا نہ آئے (آوازیں : یہ آئے گا، یہ آئے گا) یہ کوئی دائمی بات نہیں۔ آج کا دشمن کل کا دوست ہوتاہے ، یہی زندگی ہے ، یہی تاریخ ہے ۔ ‘
8 ستمبر 1945ء کوانھوں نے کراچی سے برعظیم پاک وہند کے مسلمانوں کے نام عید کے موقع پر پیغام دیا: ’ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام صرف مذہبی اور اخلاقی امور تک محدود نہیں ہیں۔‘ گبن (Gibbon)کے بقول’ اطلانتک سے گنگا تک، قرآن کریم کو ایک بنیادی ضابطے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے ، نہ صرف دینیات کے اعتبار سے بلکہ سول اور فوجداری ضابطوں اور ایسے قوانین کے لحاظ سے جو بنی نوع انسان کے افعال اور املاک پر اللہ تعالیٰ کے غیر مبدل قوانین کے طورپرمحیط ہے۔ ‘ جہلاء کے سوا ہر شخص اس امر سے واقف ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں کا عام ضابطۂ حیات ہے۔ ایک دینی ، معاشرتی ، سول ، تجارتی ، فوجی ، عدالتی، فوجداری ضابطہ ہے ۔ رسومِ مذہب ہی سے متعلق نہیں بلکہ روزانہ زندگی سے متعلق بھی، روح کی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک، حقوق العباد سے لے کر فردِ واحد کے حقوق تک ، اخلاقیات سے لے کر جرائم تک، اس دنیا میں سزا سے لے کر عقبیٰ میں سزا تک۔ ہمارے رسول ﷺ نے لازم قرار دیاـ۔ ’ ہر مسلمان کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کر سکے۔
محمد علی جناح سے محبت کرنے والی عظیم مذہبی شخصیت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ نے قائداعظمؒ کی خدمت میں قرآن کریم کا ایک نایاب نسخہ ، غلافِ کعبہ کا ایک ٹکڑا اور آبِ زم زم بھی بھیجا ۔
قائداعظم محمد علی جناح نے 18 تا 20 دسمبر 1946ء مصر میں قیام کیا۔ اس سے پہلے وہ لندن گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے۔ ڈاکٹر ممتاز حسن کا کہنا ہے کہ محمد علی جناح نے مختلف اکابر کے سامنے قرآن کریم کی تعلیمات کے حوالے سے کہا کہ ’یہ ایک واضح اور روشن حقیقت ہے کہ ہر مسلمان کے لیے قرآن کریم کے لازوال قوانین جو ہمارے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات کی حیثیت سے مسلمہ ہیں ، ان کے خلاف چلنا یا انھیں نظر انداز کرنا اور شریعت اسلامیہ کے بنیادی اصولوں سے روگردانی کرنا بعید از قیاس ہے، یہاں تک کہ ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے اور اگر کوئی انسان بالخصوص مسلمان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کوئی باشندہ ایسا ارتکاب کرتا ہے تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتاہے یعنی مسلمان نہیں رہتا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا بھی یہی ایمان اور یقین تھا۔
دسمبر1943ء میں سندھ مسلم لیگ کراچی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے قرآن کریم کی حقانیت یوں بیان کی: ’ وہ کون سا رشتہ ہے جس کے ساتھ منسلک ہونے سے تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے امت مسلمہ کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے ؟ پھرانھوں نے خود ہی جواب میں فرمایا: ’وہ بندھن ، وہ رشتہ ، وہ چٹان، وہ لنگر اللہ کی کتاب ’قرآن کریم ‘ ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، ہم میں زیادہ سے زیادہ ’وحدت‘ پیدا ہوتی جائے گی۔ ‘
قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مسٹر گاندھی کے مابین 10تا 30 ستمبر 1944ء خط و کتابت رہی۔ قائداعظمؒ نے گاندھی کے نام مکتوب میں لکھا : ’قرآن مجید مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے ۔ اس میں مذہبی ، مجلسی، دیوانی، فوجداری ،عسکری، تعزیری، معاشی ، سیاسی اور معاشرتی غرض یہ کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ کے امورِ حیات تک ، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک ، اخلاق سے لے کر انسداد جرم تک، زندگی میں جزا اور سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا اور سزا تک ، ہر ایک قول و فعل اور حرکت کے احکامات کا مجموعہ ہے ۔ ‘
جولائی1947ء کا واقعہ ہے ، قائداعظم محمد علی جناحؒ کی رہائش گاہ واقع دہلی میں قیام پاکستان کے ممکنہ مسائل کے حوالے سے نشست ہورہی تھی۔ دورانِ گفتگو علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے قائداعظمؒ سے استفسار فرمایا: ’ پاکستان کا دستور کیسا بنایا جائے گا؟‘ قائداعظمؒ نے علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: ’پاکستان کا آئین ’قرآن مجید‘ ہوگا۔ میں نے قرآن کریم ترجمے کے ساتھ پڑھا ہے ۔ میرا پختہ ایمان ہے کہ قرآنی آئین سے بڑھ کر کوئی آئین نہیں ہوسکتا۔ میں نے مسلمانوں کا سپاہی بن کر پاکستان کی جنگ جیتی ہے ۔ میں قرآنی آئین کا ماہر نہیں۔ آپ اور آپ جیسے دوسرے علماء کو میرا مشورہ ہے کہ آپ مل بیٹھ کر نئے قائم ہونے والے پاکستان کے لیے قرآنی آئین تیار کریں۔ ‘
٭…٭…٭
قائداعظم اورپاکستان میں اسلامی نظامِ حکومت
Dec 25, 2021