معزز قارئین ! آج 25 دسمبر ہے ۔ آج ہم اہلِ پاکستان اور بیرون ملک فرزندان و دُخترانِ پاکستان بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی 145 ویں سالگرہ منا رہے ہیں ۔ یوم آزادی ( 14 اگست ) ہو یا کوئی اور قومی دِن پاکستانی قوم کے سبھی لوگ تحریک پاکستان ، قیام پاکستان اورموجودہ پاکستان کے ماضی ، حال اور مستقبل کے بارے میں تو، کچھ نہ کچھ تو سوچتے ، کہتے اور بیان کرتے ہیں ۔
’ ’ شہادتیں ہی شہادتیں !‘‘
تحریکِ پاکستان کے دَوران ہندوستان کی دہشت گرد تنظیم ’’آرایس ایس‘‘ ( راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ) کی ذیلی تنظیموں اور سِکھوں نے 18 لاکھ مسلمانوں کو شہید اور تقریباً 85 ہزار مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی عصمت دری کی تھی۔ سِکھ ریاستوں نابھہؔ اور پٹیالہ اور ضلع امرتسرؔ میں ہمارے خاندان کے 26 افراد سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہُوئے۔ تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان ’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے رضا کاروں کو ’’ لٹھ بازی‘‘ سِکھایا کرتے تھے ۔ پھر ہمارا خاندان مشرقی پنجاب کی مسلمان ریاست ’’مالیر کوٹلہ‘‘ منتقل ہوگیا تھا۔
’’ میری بلوچ رجمنٹ!‘‘
معزز قارئین ! نواب آف مالیر کوٹلہؔ کے فوجی دستے کی نگرانی میں دو اڑھائی سو مسافروں (مہاجروں) کی ٹرین (پاکستان کی طرف ) قصور ؔ کیلئے روانہ ہُوئی تو اُس میں ہمارا خاندان بھی سوار تھا ۔ راستے میں ہر ریلوے سٹیشن پر کرپانیں لہراتے او ر ’’ ست سری اؔکال ، جو بولے سونہالؔ‘‘ کے نعرے لگاتے ہُوئے سِکھوں نے ٹرین کو روکنے کی کوشش کی لیکن ٹرین کے محافظ مسلمان فوجی دستے کی فائرنگ سے ، اُنہیں ٹرین پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہُوئی۔ فیروز پور ریلوے سٹیشن سے چار میل دُور قصور سے پہلے ٹرین کے ڈرائیور کو ٹرین روکنا پڑی کیونکہ اُس سے آگے سِکھوں نے ریل ؔکی پٹڑی کو اُکھاڑ دِیا تھا ۔ ٹرین کے محافظوں نے تمام مسافروں کو ایک کھلے میدان میں جمع کردِیا ۔ نعرے لگاتے ہُوئے سِکھوں کے کئی جتھے ہمارے قریب آ رہے تھے کہ اچانک ٹرکوں پر سوار ’’بلوچ رجمنٹ ‘‘ کے افسران اور جوان۔ ’’ نعرۂ تکبیر ۔ اللہ اُکبر‘‘ ۔ کی گونج میں وہاں پہنچ گئے۔ سِکھوں کے جتھّے کو ہمارے قریب آنے کی جُرأت نہیں ہُوئی۔ اُس وقت مَیں گیارہ سال کا تھا ۔ پاکستان میں ہمارا خاندان پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا۔
’’ قائداعظم ریذیڈنسی!‘‘
11 ستمبر 1948ء کو انتقال سے پہلے قائداعظمؒ نے 1892ء سے قائم بلوچستان میں زیارتؔ کے مقام پر (ہندوستان میں برطانوی گورنر جنرل کے نمائندے کی سرکاری اقامت گاہ) میں (تقریباً دو ماہ ) قیام کِیا پھر اُسکا نام ہی قائد اعظم ریذیڈنسی پڑ گیا۔ مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا ، اردو اور پنجابی میں شاعری شروع کی ۔ 1960ء میں مسلک صحافت اختیار کِیا جب مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ’’ بی۔ اے۔ فائنل ‘‘ کا طالبعلم تھا ۔ 1964ء میں قائداعظمؒ کے یوم پیدائش پر مَیں نے قائداعظمؒ کی عظمت بیان کرتے ہُوئے یہ نظم لکھی جو ، اخبارات میں چھپی ۔ نظم کے تین شعر پیش خدمت ہیں … ؎
نامِ محمد مصطفیٰؐ ،نامِ علیؓ عالی مُقام!
کِتنا بابرکت ہے ، حضرت قائداعظمؒ کا نام؟
ٹوٹ کر، گِرنے لگے، ہر سُو، اندھیروں کے صَنم!
رَزم گاہ میں ، آیا جب، وہ عاشقِ خَیرُ الانامؐ!
سامراجی مُغ بچے بھی ، اور گاندھیؔ کے سپُوت!
ساتھ میں رُسوا ہوئے، فتویٰ فروشوؔں کے اِمام!
’’ مارِ وطن سے ۔۔۔!‘‘
معزز قارئین ! ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران مَیں نے پاک فوج کی شان میں دو ملّی ترانے لکھے ۔ ایک ترانہ ریڈیو پاکستان سے بار بار نشر ہوتا رہا پھرجنوری 1999ء میں جب ، میرے دوست سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات ، سیّد انور محمود ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تھے تو اُنہوں نے کئی شاعروں کے ترانوں کو از سر نو ریکارڈ کرایا میرا ترانہ بھی ، جسے پٹیاؔلہ گھرانہ کے گلوکار حامد علی خان صاحب نے گایا ۔ ترانے کا عنوان، مطلع اور دو بند یوں ہیں …؎
’’اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!‘‘
’’ زُہرہ نگاروں، سِینہ فگاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
دُنیا میں بے مثال ہیں ، اربابِ فن ترے!
ہر بار فتح یاب ہُوئے ، صف شکن ترے!
شاہ راہِ حق کے ،شاہ سواروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!
پھیلے ہُوئے ہیں ، ہر سُو، وفائوں کے سِلسلے!
مائوں کی پُر خُلوص دُعائوں کے سِلسلے!
مضبوط ، پائیدار ، سہاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو!‘‘
’’قائداعظمؒ ریزیڈنسی پر حملہ!‘‘
معزز قارئین! 15 جون 2013ء کو بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے دہشت گردوں نے بموں اور راکٹوں سے حملہ کر کے ’’ قائداعظمؒ ریزیڈنسی‘‘ کی عمارت کو تباہ کردِیا تھا اور ( بچے کھچے عمارت سے ) پاکستانی جھنڈا اُتار کر وہاں اپنا جھنڈا لہرا کر بلوچ قوؔم کو شرمندہ کردِیا تھا ۔ اُن دِنوں پاکستان مسلم لیگ ؔ (ن) کے صدر میاں نواز شریف وزیراعظم تھے۔اُنہوں نے ابھی تک نہیں بتایا کہ ’’ اُن دہشتگردوں سے کیا سلوک کِیا گیا؟‘‘
’’پیارا پاکستان ہمارا !‘‘
’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ جناب مجید نظامیؒ کی صدارت میں 20 فروری 2014ء کو چھٹی سہ روزہ ’’نظریۂ پاکستان کانفرنس ‘‘ کے آغاز سے پہلے مَیں نے ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر ملّی نغمہ لکھا جسے نظریاتی ثمر سکول کے میوزک ٹیچر جناب آصف مجید نے کمپوز کِیا اور "The Causeway School" کے طلبہ و طالبات نے مل کر گایا تو وائیں ؔہال تالیوں سے گونج اُٹھا تھا جس پر جنابِ مجید نظامیؒ نے مجھے ’’ شاعرِ نظریہ ٔ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا تھا ۔ مَیں اُس ترانے کے صِرف دو شعر پیش کر رہا ہُوں …؎
’’پیارا ؔپاکستان ہمارا ، پیارے ؔپاکستان کی خیر!
پاکستان میں رہنے والے ، ہر مخلص انسان کی خیر!
خِطّہ پنجاب ؔسلامت ، خیبر پختوؔنخوا ، آباد!
قائم رہے ہمیشہ ، میرا سِندھ ؔ، بلوچستان ؔکی خیر!
معزز قارئین!13 دسمبر 2020ء کو فرزند ِ بلوچ گاؔندھی محمود خان اچکزئی نے جس انداز میں پنجابیوں ؔ کے بارے میں بد زبانی کی شاید اُسی وجہ سے’’ پھر بلوچ دہشت گردوں نے آواران کے علاقوں پر دہشت گردی کا مظاہرہ کِیا ۔ حسب سابق جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں پاک فوج کے افسران اور جوان اپنا فرض پورا کر رہے ہیں ۔ "Wikipedia" کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ 24 اکتوبر 1980ء کو سیالکوٹ کنٹونمنٹ میں "16th Baloch Regiment" میں بھرتی ہُوئے تھے‘‘ ۔میری بلوچ رؔجمنٹ میں !۔
٭…٭…٭