ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com
بانی پاکستان محمد علی جناح کے بارے عام تصور یہ پھیلایا جاتا ہے کہ وہ سیکولر اور لادین ذہن کے مالک تھے،جبکہ انکی زندگی کے متعدد واقعات اس غلط تصوراور فرضی خیال کی مکمل نفی کرتے ہیں۔بہت اوائل اور نوجوان عمری میں جب کہ انسان کی اپنی سوچ ابھی پختہ نہیںہوئی ہوتی اور گھریلوتربیت کا بہت سا اثر باقی ہوتا ہے جب قائداعظم محمد علی جناح ؒانگلستان پہنچے اور قانون کی تعلیم کے لیے تعلیمی ادارے کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہوا تو دواداروں میں سے اس ادارے کا انتخاب کیا جس کے باہر دنیا کے مشہور قانون دانوں کی فہرست میں سب سے اوپر محسن انسانیت ؐ کا نام مبارک لکھا تھا۔قانون کی تعلیم سے فارغ ہوئے لندن کے ایک ڈرامیٹک کلب (سٹیج ڈرامہ)میں شمولیت اختیار کر لی اوران سے ادائیگی کا چیک بھی وصول کر لیا۔ایک ڈرامے کی مشق کے دوران ایک لڑکی کے چہرے پر بوسہ لینے کا مرحلہ آیا،تو 19برس کے نوجوان کے لیے یہ محض ایک حسین خیال ہو سکتا تھا۔ مگر لندن جیسے شہر میں برطانوی لڑکی کے ساتھ ایک ڈرامے کے اس منظر میں آپ نے مشق کرنے سے انکار کر دیا،کہ میرے مذہب میںاسکی اجازت نہیں ہے۔
ہندوستان میں اپنے والد بزرگوار محترم پونجا جناح کو خط لکھا کہ میں قانون کی تعلیم میں آگے بڑھنے کی بجائے ڈرامے کے میدان کا انتخاب کیا ہے اور ایک کلب میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔والد نے جوابی خط میں سختی سے اس بات سے منع کیا اور حکم دیا کہ فوراََ کلب سے مستعفی ہوجاؤ اور قانون کی مزیدتعلیم جاری رکھو۔قائد اعظمؒ نے ابھی وہ چیک بھنوایا نہ تھا اور بغیر کسی پس وپیش کے یہ کہہ کر کلب والوں کو لوٹا دیا کہ یہ میرے والد کا حکم ہے اور میرے مذہب میں والدین کی نافرمانی کی گنجائش نہیں۔
آپ قانون کی تعلیم کے بعد ہندوستان لوٹے اوربمبے میں وکالت کا آغاز کیا۔بمبے آزاد خیالی میں اس زمانے کے دوران بھی لندن اورپیرس سے کسی طور کم نہ تھا،ایک نوجوان اور خوبصورت مجوسی لڑکی قائداعظم پر فریفتہ ہو گئی،ہر طرح سے مایوس ہو چکنے کے بعدجب اس نے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو قائداعظم نے کہا مذہب کا اختلاف اسکی اجازت نہیں دیتا۔وہ مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ ہوئی تو اٹھارہ سال کی قانونی مدت پوری ہونے تک اسے ایک سال کا انتظار کرنا پڑا۔ایک برس بعد وہ عدالت سے مسلمان ہونے کی ڈگری لائی تب قائداعظم نے اس سے نکاح کیا۔
ہندوستان کے حالات سے مایوس ہونے کے بعد وہ ایک بار پھر انگلستان سدھار گئے کہ اب نہ لوٹیں گے۔لیکن آفریں ہو علامہ ڈاکٹر محمداقبال پرجنہوں نے خط لکھ کر انہیں واپس بلایا اور غلامی کے اس پرآشوب دور میں مسلمانوں کی قیادت کرنے کے لیے تیار کیا۔سوال یہ ہے کہ قائداعظم اگر سیکولراور لادین ذہن کے مالک تھے تو علامہ اقبال جیسا درد دل رکھنے والا بنیاد پرست مسلمان کی نظر انتخاب ان پر کیوں پڑی ؟کیا علامہ محمد اقبال جیسا راسخ العقیدہ مسلمان کہ جس کا ہاتھ تاریخ کی نبض پر تھا وہ مسلمانوں کی قیادت کے لیے ایک لادین شخص کا انتخاب کرتا؟ہر گز نہیں ۔
تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم کی تقاریر جہاں پاکستان کو نظریاتی اساس فراہم کرتی ہیں وہاں انکے ذہن تک رسائی کا بھی ایک وقیع ذریعہ ہیں،ذیل میں انکی تقاریر سے چند اہم اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں:
’’کوئی شبہ نہیں کہ لوگ ہمارا مدعا پوری طرح نہیں سمجھتے ،جب ہم اسلام کا ذکر کرتے ہیں تو اسلام صرف چندعقیدوں،روایتوںاورروحانی تصورات کا مجموعہ نہیں ۔اسلام ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اسکی زندگی اور کردار کو سیاست اور معیشت تک کے معاملات میں انضباط عطا کرتا ہے‘‘قائد اعظم(کرم حیدری،قائداعظم کا اسلامی کردار،صفحات101,102مکتوبات حرمت راولپنڈی1984ئ)
’’اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس میں اطاعت و وفا کیش کا مرجع خدا کی ذات ہے۔ قرآن مجیدکے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کر سکتے ہیں اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میںقرآنی اصول و احکام کی حکمرانی ہے۔‘‘قائداعظم(کرم حیدری،قائداعظم کا اسلامی کردار،صفحہ103)
’’وہ کونسا رشتہ ہے جس میں تمام مسلمان منسلک ہو کر جسد واحد کی طرح ہو جاتے ہیں ۔وہ رشتہ خدا کی کتاب قرآن مجید ہے ،ایک خدا ایک رسول ایک امت‘‘قائداعظم(سعیدراشد،قائداعظم گفتاروکردار،صفحہ513،مکتبہ میری لائبریری لاہور1986)
’’ہماری اسلامی تہذیب کو کوئی نہیں مٹا سکتا ،اس اسلامی تہذیب کو جو ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ہمارا نور ایمان زندہ ہے ،ہمیشہ زندہ رہے گا۔دشمن بے شک ہمارے اوپر ظلم کرے ،ہمارے ساتھ بدترین سلوک روا رکھے لیکن ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں اور ہم نے یہ سنگین فیصلہ کر لیا ہے اگر مرنا ہی ہے تو لڑتے لڑتے مریں گے‘‘قائداعظم(آغا اشرف ۔مرقع قائد اعظم صفحہ41مقبول اکیڈمی لاہور1992)
’’مسلمان ایک جھوٹے احساس سلامتی میں مبتلائے فریب رہے اور اقلیت کی اصطلاح کو تاریخی ،آئینی اور قانونی سمجھا جانے لگا لیکن مسلمان کسی حیثیت سے بھی یورپی ممالک کی اقلیت نہیں ہیں،ایک چیز قطعی ہے اور وہ یہ کہ ہم کسی طرح بھی اقلیت نہیں ہیں بلکہ ہم اپنے نصب العین کے ساتھ بجائے خود ایک علیحدہ اور ممتاز قوم ہیں ‘‘قائداعظم(ڈاکٹراسعد گیلانی،اقبال،قائداعظم اورمولانامودودی،صفحہ75) قائداعظم کے ان فرمودات واضح طور پر یہ پتہ دیتے ہیں کہ وہ کبھی بھی لا دین یاسیکولر نہیں رہے،زمانہ طالب علمی اور پیشہ ورانہ زندگی کے واقعات اور تحریک پاکستان کے دوران تقریروں کے اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں اسلامی تعلیمات پوری طرح راسخ تھیں۔ایک بار انہوں نے قرآن مجید کو بھی پوری طرح پڑھ چکنے کا عندیہ دیا تھالیکن اردو ،عربی اور فارسی سے بہت زیادہ واقفیت نہ ہونے کے باعث وہ ہندوستان کی روایتی مذہبیت سے دور ہی رہے۔پھرکیایہ ایک تاریخی شہادت نہیں ہے کہ غازی علم دین شہیدؒکامقدمہ قائداعظم نے اس وقت مفت لڑا تھاجب کہ انکاشمار ہندوستان بھر کے مہنگے ترین وکیلوں میں ہوتاتھا۔قائداعظم ؒنے پیرصاحب آف مانکی شریف کو تحریک پاکستان میں شامل ہونے کی دعوت دی۔پیرصاحب فرماتے ہیں کہ میں بہت پریشان ہواکہ بغیرداڑھی والے کی قیادت کیونکرقبول کی جائے،انہوں نے ذہنی کشمکش کے باعث استخارہ کیااوردیکھاکہ میدان عرفات میںآپؐبے شمارحاجیوں کے درمیان کھڑے ہیں اورسب حجاج نے سفیداحرام زیب تن کیے ہوئے ہیں لیکن ایک شخص بدیسی لباس میں آپ ؐکے ساتھ کھڑاہے اور آپؐ اس کی طرف بہت التفات اور محبت فرمارہے ہیں،پیرصاحب کہتے ہیں کہ میری طرف اس شخص کی پشت تھی پھرجب میں نے آگے بڑھ کر دیکھاتووہ قائداعظم محمد علی جناح تھے۔
تحریک پاکستان کے دوران ہندو قیادت نے انگریز سے مراعات لینے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا ۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی کتاب میں نہرو کے اپنی بیوی سے تعلقات تک کا ذکر بھی کیا ہے،لیکن اس طرح کے ماحول میں رہنے اور طویل جنگ لڑنے کے باوجودمحترمہ فاطمہ جناح کو مردوں سے ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہ تھی، قائداعظم نے یہ ثابت کیا کہ ایک سچے مسلمان کے لیے ایمان اورشرم و حیا سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتا۔
زیارت ریذیڈنسی میںقائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے،انکے خدمتگار سے جب ان ایام کا احوال پوچھا گیا تو اس نے بہت ساری باتوں کے ساتھ ساتھ انکی آخری نماز کا بھی تذکرہ کیا۔ آخری نمازجو انہوں نے ادا کی اس کا حال خدمت گار کی زبانی سنئے’’ظہر کی نمازکی ادائیگی کے بعد انہوں نے کہا کہ عصر کا وقت ہوتے ہی مجھے بیدار کر دینا میں نے کہا جی اچھا،لیکن آنکھ کھلنے پر انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ابھی عصر کا وقت نہیں ہوا؟ میں نے کہا ہو چکا ہے لیکن آپ ابھی آرام کر لیں ،میں تھوڑی دیر بعد آپ کو نماز پڑھا دوں گا ۔کیونکہ نقاہت بہت زیادہ تھی ،انہوں نے خدمت گار سے نماز کی ادئیگی کیلئے اپنی کمر کے نیچے تکیہ رکھنے کیلئے کہا تاکہ وہ نماز پڑھ سکیں،وضو کے بعد یہ انکی زندگی کی آخری نماز تھی جس کے بعد وہ قومے میں چلے گئے اور بالآخر اﷲ تعالی سے جا ملے۔قائد اعظم کی اولادچونکہ اسلام سے گریزاں رہی اس لئے جب انتقال ہوا تو وصیت میں یہ لکھ کر گئے کہ ایک حدیث نبویؐ کے مطابق چونکہ مسلمان کسی کافر کا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا اس لیے میرے ترکے میں سے ایک پائی بھی میری اولاد کو نہ دی جائے ۔چنانچہ ساری کی ساری جائیدادپاکستا ن میں مدرسۃ الاسلام سندھ اور اسلامیہ کالج پشاور کے نام کر گئے۔قائداعظم اگر سیکولراور لادین خیالات کے مالک ہوتے توعلامہ شبیر احمد عثمانی جیسے جید عالم دین انکی نمازجنازہ کیوں پڑھاتے؟،علامہ صاحب مرحوم سے منقول ہے کہ مجھے خواب میں حکم ہواتھاکہ یہ مراسپاہی ہے اورآپ اس کاجنازہ پڑھائیں۔
ٹھیک ہے وہ اس طرح سے مذہبی انسان نہ تھے جس کا تصور ہمارے ہاں پایا جاتا ہے لیکن بہرحال وہ ایک راسخ العقیدہ اور پکے مسلمان تھے۔جن فاضل مصنفین نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر انہیں سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اس سے بھی قائداعظم کے پختہ ایمان کی تصدیق ہوتی ہے کہ اگر کسی زمانے میں ان پر سیکولر خیالات کا سایہ رہا بھی ہے تو وہ اسلام اور قرآن کے مطالعے کے بعد ان خیالات سے دستکش ہوکرتوشعوری طور پر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہے اور ایک سچے مسلمان اور امت محمدی ؐ کے فردکی حیثیت سے اپنے رب کے حضور پیش ہوئے۔
ہندو قیادت نے انگریز سے مراعات لینے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا ، لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی اہلیہ سے نہرو کے تعلقات بھی رہے
اس کے بقول قائداعظم باقائدگی سے فقہ حنفی کے مطابق نماز ادا کرتے تھے۔ آخری نمازجو انہوں نے ادا کی اس کا حال خدمت گار کی زبانی سنئے’’ظہر کی نمازکی ادائیگی کے بعد انہوں نے کہا کہ عصر کا وقت ہوتے ہی مجھے بیدار کر دینا میں نے کہا جی اچھا،لیکن آنکھ کھلنے پر انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ابھی عصر کا وقت نہیں ہوا؟ میں نے کہا ہو چکا ہے لیکن آپ ابھی آرام کر لیں ،میں تھوڑی دیر بعد آپ کو نماز پڑھا دوں گا
؛؛؛؛؛؛
ٹھیک ہے وہ اس طرح سے مذہبی انسان نہ تھے جس کا تصور ہمارے ہاں پایا جاتا ہے لیکن بہرحال وہ ایک راسخ العقیدہ اور پکے مسلمان تھے۔جن فاضل مصنفین نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر انہیں سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اس سے بھی قائداعظم کے پختہ ایمان کی تصدیق ہوتی ہے کہ اگر کسی زمانے میں ان پر سیکولر خیالات کا سایہ رہا بھی ہے تو وہ اسلام اور قرآن کے مطالعے کے بعد ان فرسودہ خیلالات سے دستکش ہوکرتوشعوری طور پر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہے اور ایک سچے مسلمان اور امت محمدی ؐ کے فردکی حیثیت سے اپنے رب کے حضور پیش ہوئے۔
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہواکرتا ہے،اگر قائداعظم کی نیت ایک سیکولر ریاست بنانے کی تھی تو وہ ریاست اسلام کا قلعہ کیسے بن گئی؟حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں تبلیغ و ارشاد کے لیے یہاں سے جماعتیں روانہ ہوتی ہیں،دنیا بھر میں جہاں جہاںجہاد کا میدان سجااس کے لیے اسی مملکت خداداپاکستان نے اپنے سپوت اور عسکری راہنمائی کے ساتھ ساتھ ممکنہ وسائل بھی فراہم کیے،تین سو سال کے بعد امت کو دفاع کے میدان میں ایٹمی قوت کی خوشخبری اسی اسلامی ریاست سے میسر آئی اور مستقبل میں بھی مشرق سے مغرب تک کل مسلمانوں کی امیدیں اسی پاکستان سے وابسطہ ہیں گویا پاکستان،اس حدیث نبوی ؐ کی عملی تصویر بنا کہ ’’مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے‘‘ اوراس سب کا سہرا قائداعظم کے سر ہے۔دراصل تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں پر ملوکیت کا سایہ ہویاغلامی کی اندھیری غار،غداروں کی دغا بازیاں ہوں یا دشمن کے پالتو لوگوں کی حکمرانیاں،سازشوں کے جال ہوں یا تہذیبی و ثقافتی یلغار اس امت کی کوکھ قیادت کے میدان میں ہمیشہ سرسبزو شاداب رہی ہے،یہ آخری نبیؐ کی دعاؤں کا ثمرہ ہے اقوام عالم کو صدیوں کے بعد کوئی قابل قدر راہنما میسر آتا جسے وہ قرنوں تک یاد رکھتے ہیں اور کتنی ہی قومیں محض اس لیے تاریخ کے صفحات میں دفن ہو گئیں کہ انہیں کوئی راہنما میسر نہ آیا جبکہ امت مسلمہ کا دامن کبھی بھی مخلص دیندار اور جرات مند قیادت سے خالی نہیں رہا۔
اﷲ کرے مدارس اسلامیہ سے قال اﷲ تعالی اور قال قال رسول اﷲ ﷺ کی صدائیں بلند ہوتی رہیں،اﷲ کرے مساجد کے مینار صدائے بلالی کے امین رہیں ،اﷲ کرے ختم نبوت اور علی مولائیت سے اس امت کے نوجوانوں کے سینے سرشار رہیں اور اﷲ کرے اس امت کا اجتماعی ضمیرہمیشہ زندہ و تابندہ رہے کہ یہی عناصر ہیںبانی پاکستان جیسی صاف ستھری قیادت کی فراہمی کے اور یہی امت کے روشن مستقبل کے سنگ ہائے میل ہیںاور میرے اﷲ نے چاہا تو وہ دن دور نہیں جب یہی پاکستا ن شاعر مشرق کے خوابوں کی سچی حسین تعبیر بنے گا اور اس مملکت کی وجہ جواز نظریہ پاکستان کے منکر راندہ درگاہ
ہو کرہمیشہ کے لیے لعنت و ملامت کا نشان بن کر عبداﷲ بن ابی،میر جعفر اور میر صادق کی صف میں شامل ہوں گے۔