قائد اعظم ؒ اورآج کا پاکستان 


 25 دسمبر ہر سال بانیء پاکستان کے یوم ِ وفات کے طورپر منایا جاتا ہے ۔ اس روز مختلف جماعتوں ، علمی ،ادبی اور سماجی تنظیموں اور اداروں کی طرف سے خصوصی پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں جن میں بابائے قوم کو ان کی ملی و قومی خدمات کے اعتراف کے طورپر بھرپور خراج ِ عقیدت پیش کیا جاتا اور ان کے فرمودات پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا تاہے۔
 قائد اعظم محمد علی جناح ؒ محض ایک سیاست داں ہی نہیں تھے وہ حقیقی معنوں میں ایک مصلح، مدبر ، ایک ماہر قانون اور ایک عہد ساز شخصیت کے مالک بھی تھے۔ انہوںنے اپنی تمام زندگی اعلیٰ اخلاقی اقدار اور اصولوں کے مطابق بسر کی ۔وہ غیر معمولی قوت ارادی اور فولادی عزم رکھنے والے انسان تھے۔انہوںنے ان تھک محنت، پیہم جدوجہد اور عزم ِ صمیم کی بدولت نہ صرف قوم کو انگریز اور ہندو کی غلامی سے نجات دلائی بلکہ ایک آزادو خود مختار ، جمہوری ، فلاحی ریاست کی بنیاد بھی رکھی ۔وہ قانون پسند تھے اور جمہوری قدروں پر یقین رکھے تھے۔وہ ایسے راست باز اصول پسند سیاست داں تھے کہ جن کی عظمت ِ کردار کے اپنے اور مخالف سب ہی معترف تھے۔انہوںنے تمام عمر قانون کی حکمرانی کو حرز جاں بنائے رکھا اور کبھی مصلحت کاشکار نہیں ہوئے ۔ان کا شمار دنیا کے ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے کہ جن پر کبھی بھی شخصی کمزوریوں ، کردار کی کجی ، مفاد پرستی ا ور مصلحت کوشی کی تہمت نہیں لگائی جا سکی۔ وہ کامیابی کے حصول کیلئے کسی شارٹ کٹ کے قائل نہیں تھے بلکہ محنت ، جدوجہد اور کوشش و کاوش پر یقنی رکھتے تھے۔
جس دور میں قائد اعظم نے مسلمانان بر صغیر کی قیادت سنبھالی مسلمان معاشی بدحالی ، سماجی نا انصافی کا شکار تھے۔ایک سو سال تک اس خطے پر حکمرانی کرنے کے بعدباہمی چپقلش اور اپنی بد اعمالیوں کے باعث اقتدار  سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اقتدار پرستی ،حب ِ جاہ ان میں سرائت کرچکی تھی ۔لالچ، طمع ، مفاد پرستی ،دنیا وی عیش وعشرت نے انہیں ذلیل و رسوا کر رکھا تھا۔انگریز ان پر مسلط ہو گئے تھے ۔اگرچہ اس عرصہ میں سرسید احمد خان سمیت بہت سے اکابرین او رمصلحین نے مسلمانوں کی عظمت ِ رفتہ بحال کرنے اور انہیں اس مایوسی سے نجات دلانے کیلئے کوششیں کیں۔ انکے خفتہ مقدر کو جگانے کی اپنے تئیں سعی کی کہ اس دبی راکھ میں چنگاری پیدا ہوسکے لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد جب حالات نے قدرے پلٹا کھایا اور انگریز سامراج کا تسلط کمزور ہونے لگا تو ہندو راج کے خدشات سر پر منڈلانے لگے۔ اس صورتحال میں حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال ؒ ملت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کیلئے آگے بڑھے اور قافلۂ درماندہ کو درست سمت دینے کیلئے بھرپور کردارا دا کیا ۔اس دوران ان کی نگہ انتخاب ایک ایسے آفتاب پر پڑی جس کی ضوفشانی نے مسلمانان ِ ہند کو حوصلے اور امید کی کرن دکھائی اور اسے اس کی منزل کا پتا دیا۔قائد اعظم نے اپنے عزم و استقلال ، تدبر و حکمت اور فہم و ادراک کی بدولت مسلمانان ِ ہند کی ڈولتی کشتی کو نہ صرف سہارا دیا بلکہ اسے کنارے تک پہنچانے کا خوش گوار فریضہ بھی انجام دیا ۔مسلمانان ِ ہند نے قائد اعظم ؒ کو نجات دہندہ تصور کرتے ہوئے انکی قیادت میں جدوجہدکی اور آسمان ِ دنیا نے دیکھا کہ صرف سات سال کی مختصر مدت میں مطالبہ ء پاکستان کا مقدمہ اس مضبوطی کے ساتھ لڑا کہ فرنگی اور ہندو چارو ں شانے چت ہوگئے ۔14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد و خودمختار ملک پاکستان کے نام سے وجود میں آیا ۔گویا وہ دیرینہ خواب جو قوم ایک عرصہ سے دیکھتی چلی آرہی تھی وہ تعبیر آشنا ہوا۔
 قیام ِ پاکستان کی منزل پا لینے کے بعد بابائے قوم نے اس مملکت خداداد کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے دن رات ایک کردیا۔انہوںنے اپنی گرتی ہوئی صحت کی بھی پروا نہیں کی اور اپنی حیات ِ مستعار کا ایک ایک لمحہ ملک و قوم کیلئے وقف کردیا ۔ نومولو د ریاست کو بہت سے مسائل و مشکلات کا سامنا تھا۔انتظامی ڈھانچے کی تشکیل، بے خانماں افراد کی بحالی ، داخلہ وخارجہ پالیسیوں کاتعین، معیشت ، دفاع ، آئین ساز اسمبلی کا قیام سمیت ایسے معاملات تھے کہ چیلنج بن کر کھڑے تھے اور جن کے حل کیلئے ایک تجربہ کار ٹیم کی ضرورت تھی۔ آپکے پرخلوص ساتھی لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، راجہ غضنفر علی وغیرہ آپ کی ابتدائی ٹیم میں شامل تھے۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہ قائد اعظم کی کرشماتی شخصیت ہی کا کما ل تھا کہ نوزائدہ مملکت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی۔ورنہ ہندو قیادت تو اسے چند ماہ کی مہمان تصور کرتی رہی ۔لیکن بدقسمتی سے قائد اعظم جلد ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ان کی وفات کے بعد قوم ابھی پوری طرح سنبھلی بھی نہیں تھی کہ تھوڑے ہی عرصہ بعد بابائے ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا۔انکی شہادت کے بعد سے اس ملک کیخلاف سازشوں کا ایسا جال بنا گیا کہ جس نے پاکستان اور اس قوم کی جان آج تک نہیں چھوڑی ۔وہ لوگ جنہوںنے قائد اعظم کی بے مثال قیادت میں اس ریاست کے قیام میں حصہ لیا تھا انہیں آہستہ آہستہ امور ِ مملکت سے الگ کیا جانے لگا اور طالع آزما، مفاد پرست لوگ اس پر قابض ہوتے چلے گئے ۔آج یہاں پر نہ تو قانون کی حکمرانی ہے نہ آئین کی بالادستی ، شخصی آزادی ، انصاف اور بنیادی حقوق کی فراہمی ایک خواب بن چکا ہے ۔کرپشن ، بد عنوانی ، لاقانونیت نے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیاہے ۔یہ وہ پاکستان ہے ہی نہیں جس کی بنیاد قائد اعظم ؒ نے رکھی تھی ۔ انگریز اور ہندو کی غلامی سے نجات پانے والے آج اپنوں ہی کی غلامی کے شکنجے میں دھکیل دیے گئے ۔اس غلامی سے نجات پانے اور دنیا کی اقوام میں ایک باعزت مقام حاصل کرنے کیلئے ہمیں از سر ِ نو قائد اعظم ؒ کے افکارو نظریات سے رجوع کرنا پڑے گا۔صرف اسی صورت میں ہم اس ملک کو قائد اعظم کا پاکستان بناسکیں گے ۔ 

ای پیپر دی نیشن