قائداعظمؒ اور پابندیِ وقت


بانی پاکستان، بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ہمارے لئے جو درخشندہ روایات چھوڑی ہیں ان میں اور باتوں کے علاوہ پابندی وقت کا ورثہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
تاریخ کے صفحات میں یہ درخشاں واقعہ محفوظ ہے کہ جب قائداعظم 1948 ء میں سٹیٹ آف پاکستان کے افتتاح کی تقریب میں شمولیت کے لئے تشریف لائے۔ اس وقت تقریب کے مقررہ وقت پر شروع ہونے میں دس منٹ باقی تھے۔ قائداعظمؒ کی نگاہ سٹیج پر پڑی تو انہوں نے منتظمین سے دریافت کیا کہ سٹیج پر دو کرسیاں موجود ہیں۔ یہ کن کے لئے ہیں انہیں بتایا گیا کہ ایک کرسی آپ کے لئے ہے اور دوسری کرسی وزیراعظم لیاقت علی خان کے لئے ہے جواس وقت تک تشریف نہیں لائے تھے۔ 
قائداعظم نے منتظمین سے کہا کہ وزیراعظم کے لئے کرسی سٹیج سے ہٹا دیں کیونکہ وہ ابھی تک نہیں پہنچے۔ تقریب کے لئے وقت گیارہ بجے تھا۔ قائداعظم نے ہدایت کی کہ دس بج کر انسٹھ منٹ پر ہال کے دروازے بند کردیئے جائیں۔ وزیراعظم تشریف نہیں لائے تھے۔ قائداعظم کی ہدایت پر عمل کیا گیا اور تقریب وزیراعظم کا انتظار کئے بغیر شروع ہوئی اوراختتام تک پہنچی۔
جب سردار فاروق احمد خان لغاری صدر مملکت کے عہدہ پرفائز ہوئے تو انہوں نے ایوان صدر میں مدیران اخبارات کو مدعو کیا اور سب شرکاء کو سوال پوچھنے کا موقع دیا، جب خاکسار کی باری آئی تو عرض کیا کہ قائداعظم نے پابندی وقت کی یہ شاندار مثال چھوڑی ہے۔ کیا یہ ممکن ہوگا کہ آپ کو جن سرکاری و غیر سرکاری تقریبات میں مدعو کیا جائے آپ کارڈ پر لکھے ہوئے وقت پر شریک ہوں اورقائداعظم کی قائم کردہ روشن اورتابناک مثال کی تقلید کریں۔ 
سردار فاروق لغاری نے ایک لمحہ توقف کئے بغیر کہا۔ 
’’یہ تو ناممکن ہے۔ ہم پروٹوکول کے پابند ہیں۔ وقت مقررہ کے لحاظ سے تیار بھی ہوں تو پروٹوکول کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں جو فون پر بتاتے رہتے ہیں سر ابھی تو ہال خالی ہے جوں جوں مہمان آتے جائیں گے آپ کو آگاہ کر تے رہیں گے اور اس انتظار میں ایک گھنٹہ گزر جاتا ہے۔‘‘
جب جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنی کابینہ میں پاکستان قومی اتحاد کے وزراء کو شامل کیا تو کراچی سے جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی جناب محمود اعظم فاروقی کو اطلاعات و نشریات کا قلم دان سونپا۔ فاروقی صاحب منصورہ میں جماعت اسلامی کے مہمان خانہ میں قیام پذیر تھے انہیں پاکستان نیشنل سنٹر میں ایک تقریب سے خطاب کرنا تھا۔ 
یہ عاجز بھی ان کا خطاب سننے کے لئے نیشنل سنٹر پہنچا مگر فاروقی صاحب تشریف نہیں لائے تھے ہال اگرچہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا مگر مہمان خصوصی کے نہ پہنچنے کے باعث تقریب کے آغاز میں مسلسل تاخیر ہو رہی تھی۔ 
کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹے کے صبر آزما انتظار کے بعد وہ تشریف لائے تو میں نے ایک چٹ ان کی خدمت میں بھیجی کہ سب سے پہلے منتظر حاضرین کو یہ بتائیں کہ آپ کی آمد میں تاخیرہوئی تو وجہ تاخیر بھی بتائیں۔ فاروقی صاحب نے چٹ ہاتھ میں پکڑی اور تقریر شروع کرتے ہی اس استفسار کا حوالہ دیا اور کہا کہ میں تو یہاں آنے کے لئے تیار بیٹھا تھا مگر منتظمین کے فون آتے رہے کہ آپ ابھی روانہ نہ ہوں کیونکہ ہال میں شرکاء کی تعداد ناکافی ہے جب ہم آپ کو بتائیں گے کہ ہال بھرگیا ہے تب آپ روانہ ہوں۔ فاروقی صاحب نے اس وضاحت کے بعد تاخیر سے پہنچنے پر معذرت بھی کی۔
18 دسمبر کو تیسرے پہر زمان پارک میں کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کی سٹینڈنگ کمیٹی کے ارکان نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم جناب عمران خان سے ان کی رہائش گاہ واقع زمان پارک میں ملاقات کی۔ تقریباً تمام شرکاء نے سوالات پوچھے۔ 
جب میری باری آئی تو میں نے عرض کیا جناب! آپ بے شمار جلسوں ، جلوسوں، ریلیوں اور دھرنوں سے خطاب کرتے ہیں کیا یہ مناسب ہوگا کہ آپ کے ان اجتماعات کے پوسٹروں، بینروں اور ہورڈنگز پر جس وقت کا اعلان کیا جاتا ہے آپ ان سے مقررہ وقت پر خطاب کریں ۔کیوں کہ جلوس و جلسے کے اجتماع کے لئے وقت پانچ یا چھ بجے کا لکھا ہوتا ہے اور آپ خطاب کرتے ہیں آٹھ، نو یا دس بجے اور لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگ اپنے اہل و عیال اور بچوں سمیت کئی کئی گھنٹے آپ کے منتظر رہتے ہیں۔ 
پھر میں نے ایک اور سوال کیا کہ آپ کے اجتماعات میں لوگ بڑی تعداد میں شرکت کرنے میں اپنا پٹرول خرچ کر تے اور اپنا کام کاج چھوڑ کر آتے ہیں۔ ان پر جو مالی بوجھ پڑتا ہے کیاکبھی آپ غور فرمائیں گے کہ آپ کے عوام اس نقصان سے بچے رہیں اور یہی پیسہ کالجوں، یونیورسٹیوں ،ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں پر خرچ ہو۔ عمران خان نے پہلے سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کی۔ دوسرے سوال پر بھی وہ خاموش رہے البتہ ان کے پہلو میں بیٹھے بھاری بھر کم فواد چودھری نے میری طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم سیاست چھوڑ دیں، میں نے پھر جسارت کی اور عرض کیا پھر تو یہی بہتر ہے۔
آج قائداعظم کے یوم ولادت پر ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے یہ واقعات ذہن میں آئے۔ اب ان سوالات کا جواب قارئین کے ذمے ہے کہ کیا ہمیں بحیثیت قوم قائداعظم کی پیروی کرتے ہوئے وقت کی پابندی شعار کرنی چاہئے یا نہیں اور کیا ہمارے قومی قائدین کو ہزاروں گھنٹے فرزندان قوم کو انتظار کی زحمت میں مبتلا رکھنے کی عادت اختیار کرتے چلے جانا چاہئے؟
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن