زیڈ اے سلہری
قائداعظمؒ کی عظمت کے بارے میں مبالغہ آمیز اصطلاحات استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض لوگوں کو زبردستی عظیم بنایا اور قرار دیا جاتا ہے، جیسا کہ اکثر مغربی اہل قلم خودنمائی کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش کے تحت اپنے قومی اکابر کے بارے میں ایسا ہی کرتے ہیں یا پھر اس کی وجہ ناقابل علاج یرقان ہوتا ہے جو ان کی نظروں کو ان کے محدود افق سے آگے دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن جہاں تک قائداعظم کا تعلق ہے اتنی عظمت اور مقبولیت عالمی اکابر میں سے چند ہی کو حاصل ہوئی ہے۔ ایسے افراد کتنے ہیں؟ جنہوں نے بکھرے ہوئے انگریزوںکو ٹھوس قوم کی شکل دے دی؟ یا ایسے رہنما کتنے ہیں۔ جنہوں نے ایک بالکل نئے ملک کی بنیاد رکھی پھر یہ کہ وہ کون ہیں۔ جنہوں نے ایک اسلامی مملکت تشکیل دی ہو؟ معاملے کی صورت حال کو سمجھنے کے لئے انہی سوالات پر غوروفکر کافی ہے۔ سچ یہ ہے کہ قائداعظم عالمی رہنمائوں کی صف اول میں شمار ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کلی کی پوری دنیا معترف ہے حتیٰ کہ وہ انگریز بھی جوان کی صلاحیتوں سے نفرت کرتے تھے اور وہ ہندو بھی جنہوں نے اپنی تمام توانائیاں انہیں شکست دینے کے لئے وقف کر رکھی تھیں اور سیکولرزم و سوشلزم کی عالمی تحریکیں بھی، جو احیائے اسلام کے امکانات سے خوفزدہ تھیں۔قائداعظم کی عظمت کا اعتراف کرتی ہیں، المیہ یہ ہے کہ صرف ان کی اپنی قوم انکے حقیقی مقام کا ادراک نہیں کر سکی۔
آخری سلام
اس میں غلطی قوم کی نہیں ہے کیونکہ پہل بالعموم حکمران طبقہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ اگر ذمہ دار حضرات اپنے فرائض کو پہچانتے اور اس معاملے میں عزم و ثبات کا مظاہرہ کرتے تو فراموشی اور ان کی عظمت کو گھٹانے کا سنگدلانہ اور بے رحم عمل کبھی شروع نہ ہوتا۔ لیکن حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کا بڑے دکھ کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ بابائے قوم سے نارواسلوک کا رویہ روزاول ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ زیارت میں قائد کی شدید علالت کے دوران معروف فزیشن کرنل الٰہی بخش ان کے معالج تھے، اور اس معالج نے اس سلسلہ میں اپنی جو یادداشتیں قلمبند کی ہیں، انہیں پڑھنے والا کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا، جس کا سر ندامت سے نہ جھک گیا ہو۔ ہم ایئرپورٹ سے گورنر جنرل ہائوس تک کے آخری سفر کے لئے بھی انہیں چالو اور ٹھیک ٹھاک ایمبولینس تک مہیا نہ کر سکے۔ اور انہیں ان کی سرکاری رہائش گاہ تک پہنچانے کے لئے کسی امداد کی آمد سے قبل وہ کئی گھنٹے تک غم زدہ گرم دھوپ میں ایک شکستہ گاڑی میں پڑے رہے۔ ان کی موت کے فوراً بعد ان کے خدوخال اور تصویر کو مسخ کرنے کا آغاز ہوگیا، جبکہ ان کے جانشین تو خود کو دنیا کی عظیم شخصیتوں میں شمار کراتے رہے، اور ان کو گئے دنوں کی دھندلاہٹوں میں گم کر دیا۔
اولاً یہ کہ ان کی کوئی ایسی مکمل اور جامع سوانح حیات مرتب نہیں کی گئی جو آئندہ نسلوں کے لئے خالق پاکستان کی حقیقی شخصیت کا عکس ہوتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قدرے نوجوان نسل مکمل تاریکی میں گر گئی۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرانی نسل کی یادداشتیں بھی دھندلا گئیں۔ قائداعظم ظاہر بین نہ تھے۔ وہ جہاں اپنی مشترکہ مفادات و مقاصد کی خاطر لڑائی کے سلسلے میں مسلسل لوگوں کے سامنے رہے، وہاں اپنی نجی زندگی کے بارے میں بالکل خاموش رہے، پھر یہ کہ ان کے کیریئر کا آخری مگر پرشکوہ دور۔ پاکستان کے لئے لڑائی کا دور، اتنا ہی محنت طلب تھا، جتنا کہ شاندار اور پرشکوہ تھا، یہ تحریک اس قدر طوفانی تھی کہ کسی کو اتنی مہلت نہ تھی کہ وہ شخص کا قریبی مطالعہ کرتا جس نے ساری دنیا کو دم بخود کر رکھا تھا۔ اس کے برعکس گاندھی نہ صرف یہ کہ کانگرس پر آمرانہ گرفت کے باعث ربع صدی تک شہرت کے آسمان پر جلوہ فگن رہا اور خوب تشہیر کرائی بلکہ اس نے اپنے عجیب و غریب اور انوکھے ہتھکنڈوں سے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے رکھی۔ اس نے اپنی آپ بیتی لکھی جو اگرچہ’’سچ کی تلاش‘‘ کہلاتی ہے لیکن کوک شاستر کی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس نے جرائد کی ادارت کی اور غیر ملکی صحافیوں کو نوازا۔ اس نے حضرت عیسیٰ جیسا بہروپ دھار کر اور اخلاقی داستانیں بیان کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ گول میز کانفرنس کے وقت اپنی بکری کو اپنے ساتھ لندن لے گیا، اور اخباری فوٹو گرافروں کو بھی شغل ہاتھ لگ گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے اپنے بارے میں کتابیں لکھوانے کے لئے مصنف کی حوصلہ افزائی کی بلکہ بعض اوقات متمول عقیدت مندوں کے ذریعہ انہیں سرمایہ بھی فراہم کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنی زندگی ہی میں لیجنڈ بن گیا اور اس کے بارے میں لٹریچر کا انبار لگ گیا۔
مگر قائداعظم کو دریافت کرنے کی ضرورت ہے، کہ یہ بھید ابھی تک پردہ راز میں ہے، اور ان کی خاطر دریافت کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ تو تاریخ میں اپنا مقام متعین کر چکے ہیں اور ہم مداحی کے محتاج نہیں بلکہ اس کی ضرورت اس لئے ہے تاکہ قومی روح اور نفسیات کو اپنے بانی کے بارے میں آگہی کے ذریعے نمو دی جا سکے کہ اس نے یہ ملک کیسے حاصل کیا؟ اس کے لئے اس نے کیا کیا قربانیاں دیں؟ اس جدوجہد میں اسے کن مشکلات سے دو چار ہونا پڑا؟ ہم اپنے قائد کے عزم و ہمت اور بہادری کی تفصیلات محض اس لئے بیان کرتے ہیں کہ مشترکہ یادیں اور ان کے احساسات قبائل کو متحد رکھنے کا باعث بنتے ہیں۔ پھر قائداعظم کے ذہن کو پڑھے بغیر ہم ان کے پاکستان کے حقیقی عوامل اور اس غایت کو کیسے پہچان سکتے ہیں جس کے لئے یہ ملک حاصل کیا گیا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ قائداعظم کی شخصیت کو نظر انداز کر کے ہم اپنے وجود کے حوالے ہی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ملک میں جو فکری انتشار ہے وہ دراصل رابطہ کی اس کڑی کے گم ہو جانے کے سبب سے ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ کبھی ہم مغربیت سے مرعوب ہو جاتے ہیں کبھی سوشلزم کی طرف دوڑتے ہیں اور کبھی وہ عناصر جنہوں نے قیام پاکستان کی اسلام کے نام پر مخالفت کی تھی، ملک کی نظریاتی اساس کا تعین اپنی پسند کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔
زندہ انقلاب:۔ وہ بلا شبہ انتقال کر گئے لیکن ان کا برپا کردہ انقلاب زندہ اور قائم دائم ہے اور قوم کو لازم ہے کہ وہ سوچے کہ انہوں نے یہ انقلاب کیسے برپا کیا؟ وہ دشمنانِ اسلام کے پہلو میں تو واقعی کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں کہ انہوں نے دشمنوں کو قیام پاکستان کے لئے مجبور کردیا۔ تاہم یہ بات ان دشمنوں انگریز اور ہندوؤں کے حق میں جاتی ہے کہ انہوں نے قائداعظم کی اہمیت و عظمت کو تسلیم کیا ہے اور ہندوؤں نے اگر یہ کہہ کر ان کی عظمتوں کا اعتراف کیا ہے کہ اگر ذہن و قلب کی ان خصوصیات کا حامل رہنما انہیں مل جاتا تو ہندوستان کا مقدر یقیناً مختلف ہوتا تو انگریزوں نے انہیں یوں خراج تحسین پیش کیا کہ وہ آ ج تک ان کے ہاتھوں اپنی شکست فاش کو نہیں بھلا سکے۔ سچ یہ ہے کہ قائداعظم برصغیر کی سیاست میں یکسر ایک انوکھا مظہرتھے۔ ان کا ظاہر و باطن ایک تھا دو عملی یا دو رخ پن سے ان کو سخت نفرت تھی اور اگر ان کے سیاسی ماضی کو بھی کھنگالا جائے تو یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ روز اول ہی سے ان کی تمام تر جدوجہد اپنے اس مشن کی تکمیل کے لئے تھی۔ وہ ایک متوسط گھرانا میں پیدا ہوئے، وہ بحیثیت طالب علم نہایت ذہین اور محنتی تھے۔ ان کے والد نے جب انہیں قانون کی تعلیم کے لئے انگلستان بھیجا تو انہوں نے لنکنز ان کا محض اس لئے انتخاب کیا کہ اس کے صدر دروازے پر حضرت محمدؐ کا نام نامی ایک عظیم قانون ساز اور قانون دان کے طور پر درج تھا۔
مسلمان پہلے:۔
دراصل وہ سب سے پہلے اپنی قوم کے وفادار تھے۔ انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے بعض عملی وجود کی بنا پر رابطہ قائم کیا تھا، انہیں توقع تھی کہ آزاد ہندوستان میں مسلمان مساوی بنیادوں اور مساوی شریک کار کی حیثیت سے زندہ رہ سکیں گے۔ لیکن جب تجربے نے ثابت کر دیا اور گاندھی کی آمد کے وقت یہ تجربہ اپنی پوری شدت کے ساتھ زندہ تھا کہ ہندو ان کے تصوراور خواب کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ مسلمانوں کے جذبہ آزادی کو محض اپنی اغراض کی تکمیل کے لئے استعمال کر رہے ہیں، تو ان کی پرخلوص اور حقیقت پسندانہ فطرت نے اس مسلسل خود فریبی کے خلاف بغاوت کر دی۔ گاندھی نے مسند خلافت کو جس طرح اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا تھا، وہ آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی تھا۔ اس نے واضح کر دیا کہ گاندھی نے کس ڈھٹائی سے مسلمانوں کو ایک لاحاصل مقصد کے نام پر کانگرسی مقاصد کے لئے قربانی کا بکرا بنایا ہے۔ ستم یہ ہوا کہ مسلمانوں کی قربانیاں اور مسلمانوں کی پہلی منظم عوامی تحریک کے نتیجہ میں نہ صرف کانگرسی انڈیا کے واحد رہنما کی حیثیت سے ابھرے بلکہ برطانیہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ خلافت کے طوفان میں تباہ ہونے والی مسلم لیگ کے ملبہ پر کانگرس سے معاملہ کرے۔ اس صورت حال نے کانگرس کے اس دعویٰ کے لئے ساز گار ماحول مہیا کر دیا تھا کہ ملک میں صرف دو قوتیں ہیں۔ کانگرس اور حکومت۔ مسلمانوں کی یہ کم مائیگی اور بے بسی تیسرے وہے کے آخر تک برقرار رہی، کہ جب قائداعظم قوم کی تنظیم نو کے لئے اس اعلان کے ساتھ میدان میں آئے کہ ملک میں تیسری طاقت بھی ہے اور وہ ہے مسلم لیگ۔
ایک تنہا آدمی:۔
خدا جانتا ہے کہ انہیں ان فیصلوں تک پہنچنے کے لئے سوچ بچار کے کتنے کربناک لمحوں سے دو چار ہونا پڑے گا۔ جن سے ان کے کروڑوں ہم مذہبوں کا مستقبل وابستہ تھا۔ انہیں اس تحریک کی معمولی سے معمولی جنبش پر نظر رکھنا تھی۔ ہر لمحہ ان کی توجہ شطرنج کے مہروں پر مرکوز تھی۔ وہ آرام نہیں کر سکتے تھے کہ وہ اس کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے تھے، ان حالات میں اگر مائونٹ بیٹن کو وہ سرد مہر نظر آئے تو اس میں حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ کہ ان کی ساری سوچیں ہمہ وقت اس ایک نکتہ پر مرکوز رہتی تھیں کہ وہ اپنے دونوں دشمنوں کو اپنے خلاف کوئی حرکت یا سازش کرنے اور اکٹھے ہونے کا موقع نہ دیں، انہیں الگ ا لگ رکھیں۔ اگر انگریز اور ہندو دونوں اکٹھے ہو جاتے تو اس مرحلے پر ان کی مجموعی قوت کو شکست دینا بہت مشکل تھا جبکہ فرزندان قوم کے حوصلے پست تھے اور نفسیاتی جنگ میں پرعزم وار کا مرحلہ آ پہنچا تھا۔ انگریزوں کو جانے کی جلدی پڑی تھی اور وہ سالوں کے بجائے مہینوں کی باتیں کرتے تھے۔ دیول نے بتدریج پسپائی کا منصوبہ تیار کر لیا تھا۔ اور گاندھی ان پر دبائو ڈال رہا تھا کہ وہ ہندوستان کو’’خدا اور انارکی‘‘ کے حوالے کرکے خود چلے جائیں، انگریزوں کا جھکائو بھی کانگرس کی طرف تھا کیونکہ وہ ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی ہندوئوں کی خیر سگالی کے خواہاں تھے۔ توازن بری طرح مسلم لیگ کے خلاف تھا۔ اس لئے جب کیبنٹ مشن پلان مرکز کے تحت زونل سکیم کا منصوبہ پیش کیا تو قائداعظم نے اسے فوراً قبول کر لیا اور سب کچھ کانگرس کے متوقع استرد ادپر چھوڑ دیا۔ کیونکہ انہوں نے ہندو ذہن کو جس توجہ سے پرکھا تھا، اس کو کسی غلطی کا کوئی امکان نہ تھا، انہیں یقین تھا کہ وہ جس شے کو بھی قبول کریں گے ہندو کے خلاف رویہ اختیار کرے گا کیونکہ قائد کی ہر بات کو اپنے خلاف ایک جال ایک چال قرار دیتا تھا۔ انہوںنے جال پھیلا دیا اور ہندو کانگرس اس میں سر کے بل آ گری۔ اس نے تجویز کو مسترد کر دیا۔
اس صورتحال نے پاکستان کی منطق کو ناقابل تردید بنا دیا کیونکہ کوئی متبادل حل سامنے نہیں تھا۔ انگریزوں اور ہندوئوں کو بادل نخواستہ اسے قبول کرنا پڑا۔ مشکلات کی اس یلغار اور نامساعد حالات کی اس بھرمار میں قائداعظم نے اپنی قوم کی نجات کا راستہ ہموار کرلیا اس کے لئے انہیں جذبات کے کس قدر دبائو سے گزرنا پڑا۔ اور کس قدر لگن، سوچ بچار اور منصوبہ بندی سے کام کرنا پڑا اور کتنے اعصابی تنائو کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ اس کا تصور بھی نا ممکن ہے۔ قائداعظم تنہا تھے ان کے اردگرد کوئی دوسرا یا تیسرا نہیں تھا جو ان کے مشن پر اس قدر ایمان رکھتا ہو یا سامراجی سیاست کے اس قدر خطرناک کھیل کو اتنی مہارت سے کھیل سکتا کہ اس سامراجی کھیل میں بڑی بڑی اقوام مات کھا چکی تھیں، انگریزوں کو اس میں کمال مہارت تھی اور عیار و مکار ہی ان کے خصوصی چیلے تھے۔ سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ برصغیر کو آزادی انہی بنیادوں پر ملی جن کی نشاندہی قائداعظم نے تیس سال قبل کر دی تھی یعنی مسلمانوں اور ہندوئوں کی مساعی کی ہم آہنگی سے اور پاکستان ایک سہ فریقی معاہدہ کے نتیجہ میں قائم ہوا۔ یہ عظیم وطن میرے قائداعظم کے اس سیاسی تدبر کا نتیجہ ہے جو بہت کم سیاسئین کا حصہ ہوتا ہے۔