قائد کی آواز پر پنجاب کی بیداری

شریف فاروق
 جب پنجاب قائد کی آواز پر بیدار ہوا
 ہر سیاسی، معاشرتی یا اصلاحی تحریک کا کوئی نہ کوئی مرکزی مقام بن جاتا ہے اور اس کے گرد وہاں کے امیر و غریب ادنی و اعلیٰ پڑھے لکھے اور ان پڑھ تمام طبقات اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ تحریک یا تحریکوں کے قائدین اور کارکن شرکائے تحریک کی تربیت کرتے ہیں۔ اس عظیم مقصد کی وضاحت کرتے ہیں ان کے دل و دماغ میں غور وفکر اور عمل و کردار کی چنگاریاں روشن کرتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم قوت بن جاتے ہیں۔
 جہاں تک تحریک پاکستان اور قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت اور قائدانہ خوبیوں کا تعلق ہے ویسے تو ہندوستان کے طول و عرض میں انہوں نے ہمیشہ اپنی بلند کرداری کے باعث دھاک بٹھا دی تھی لیکن پنجاب کے مسلمان عوام ان پر پروانہ وار جان چھڑکنے لگے تھے پنجاب میں بھی لاہور نے تحریک پاکستان اور حصول پاکستان میں مثالی کردار انجام دیا۔ تاریخی اور روایتی طور پر ہمیشہ سے لاہور ایک ایسا شہر اور مقام چلا آ رہا تھا جو صدیوں سے اپنے مخصوص جذباتی اور ایثار پیشہ کردار کی وجہ سے جذباتی روایات کا امین تھا یہی وجہ تھی کہ برصغیر میں جو بھی تحریک اٹھتی اس کے لئے لازم تھا کہ وہ لاہور میں قبولیت عامہ حاصل کرے۔ یہی وجہ تھی کہ جب سر سید  اپنی علمی اور تعلیمی تحریک کے لئے لاہور کے دورے پر تشریف لائے اور انہوں نے اہل لاہور کا جوش و ولولہ دیکھا تو انہوں نے اہل لاہور کے حوالے سے انہیں زندہ دلان لاہور یا زندہ دلان پنجاب قرار دیا۔ سر سید کی اہل پنجاب کے لئے اصطلاح ایسی قبول ہوئی کہ آج بھی جب ان کی کسی خصوصیت کا ذکر کرنا ہوتا ہے تو انہیں زندہ دلان لاہور یا زندہ دلان پنجاب قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقاء نے تحریک پاکستان کو عوامی سطح پر متعارف کرانا چاہا تو لاہور ہی کو منتخب کیا اور منٹو پارک(موجودہ اقبال پارک) میں قرار داد پاکستان پیش اور منظور کی گئی اور یوں تحریک پاکستان کا آغاز 23 مارچ1940ء کو لاہور ہی سے اس سے پہلے 1930ء میں دریائے راوی کے کنارے کانگریس کا تاریخی اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں آزادی کامل کی قرار داد منظور کی گئی تھی اور اسی شہر میں اسی روز حصول آزادی کے سلسلے میں پنڈت جواہر لال نہرو کا ایک جلوس انارکلی سے نکالا گیا۔ پنڈت نہرو اس وقت سفید گھوڑے پر سوار تھے جواں سال نہرو اور کانگریس کے لئے یہ جلوس اور یہ اجلاس تاریخ میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اسی طرح 23 مارچ1940ء کو منٹو پارک میں قرار داد لاہور منظور کی گئی اور یہ مسلمانوں کی حالیہ سیاسی تاریخ میں انقلاب آفرین ثابت ہوئی۔ تحریک پاکستان کے اسی تسلسل میں 1946ء کے عمومی انتخابات نے پنجاب کو تحریک پاکستان کا سرخیل بنا دیا۔ چنانچہ وہی پنجاب جہاں سے اس سے پہلے 1937ء کے عمومی انتخابات میں مسلم لیگ صرف دو نشستوں پر کامیاب ہو سکی تھی اس کے ایک رکن راجہ غضنفر علی خان مرحوم نے یونینسٹ پارٹی میں شمولیت کر لی تھی عملاً اس صوبے پر پنجاب میں فیوڈلز اور انگریز پرست یونینسٹ پارٹی کا غلبہ تھا قائداعظم کے تدبر اور عزم مصمم اور علامہ اقبال کے فکری ارتقاء نے اسے مسلم لیگ کا گڑھ بنا دیا۔1940ء سے 1946ء کے دوران میں یہ تحریک عوامی تحریک بن گئی اور وہ صوبہ جہاں سے مسلم لیگ کے صرف دو ارکان منتخب ہو سکے تھے 1946ء کے انتخابات میں 72 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی یہ کوئی معمولی معرکہ نہیں تھا اس معرکہ میں جن شخصیات نے زبردست حصہ لیا ان میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے طلباء کے علاوہ اس دور کی کئی شخصیات جن میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، نواب افتخار حسین پیش پیش تھے۔
 پنجاب میں مسلم لیگ اس حد تک مقبول ہوگئی کہ کانگریس، برطانوی حکومت اور تحریک پاکستان کے مخالفین کی ہزار مخالفانہ کوششوں کے باوجود سنٹرل اسمبلی میں مسلم لیگ مسلمانوں کی تمام چھ نشستوں پر کامیاب ہوگئی۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں مسلمانوں کی 86 نشستوں پر مقابلہ ہوا۔ تمام یونینسٹ فیوڈلز اور جاگیرداروں کی مخصوص نشستوں کی وجہ سے 13 نشستوں پر یونینسٹوں کو کامیابی ہوئی جبکہ صرف ایک آزاد امیدوار میاں محمد رفیق مسلم لیگی امیدوار کے مقابلے پر کامیاب ہو سکا کیونکہ مدمقابل مسلم لیگی امیدوار کے کاغذات مسترد ہوگئے تھے۔
 جواں سال مسلم لیگی قائدین میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، سردار شوکت حیات خان، نواب افتخار حسین خان ممدوٹ، شیخ کرامت علی، میاں افتخار الدین کی جدوجہد اور قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قیام پاکستان کے موقع پر پنجاب کو دوسرے صوبوں کے مقابلے پر مہاجرین کی آباد کاری کا خاصہ بوجھ اٹھانا پڑا۔ اس دور میں میاں ممتاز دولتانہ کو پنجاب کا وزیر خزانہ مقرر کیا گیا انہوں نے اس اہم پورٹ فولیو کے حوالے سے بڑی محنت سے کام کیا۔ بعدازاں میاں صاحب مرحوم نے وزیراعلیٰ کے منصب کی ذمہ داریاں بھی سنبھالیں اور جب صدر ایوب خان کے دور میں کنونشن لیگ قائم کی گئی تو میاں صاحب نے مادر ملت فاطمہ جناح کے ارشاد پر کونسل مسلم لیگ کا ساتھ دیا اسی طرح انہوں نے اپنے دوسرے رفقاء کے ساتھ صدارتی انتخاب میں بھی ایوب خان کے مقابلے پر مادر ملت کا ساتھ دیا۔ الغرض پنجاب کا تحریک پاکستان کے حوالے سے کرداربڑی اہمیت کا حامل ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ای پیپر دی نیشن