حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت مریمؑ کی ولادت معجزانہ طور پر ہوئی تھی ۔ حضرت عیسیٰؑ کی والدہ پاکدامن اور متقی خاتون تھیں جن کی گواہی قرآن کریم میں موجود ہے۔فرشتوں نے جب حضرت مریمؑ کو بِن باپ کے بیٹے کی ولادت کی بشارت دی تو بیٹے کا نام مسیح بتاکر ان کے اعلیٰ مرتبے کا ذکر فرمایااور یہ بھی بتایا کہ نومولود ماں کی گود میں ہی باتیں کرے گا۔حضرت مریم ؑنے فکرمند ہوکر عرض کیا ۔’’اے رب ! کہاں سے ہوگا میرا لڑکا مجھ کو ہاتھ نہیں لگایا کسی آدمی نے !فرمایا اِس طرح پیداکرتاہے جو چاہے جب ارادہ کرتاہے کسی کام کا تو یہی کہتاہے اُس کو کہ ہوجا سو وہ ہوجاتاہے‘‘۔ (سورۂ اٰ ل عمران 47)۔حضرت مریمؑ کو بچے کی بشارت دیتے وقت بتلایاگیاتھا کہ تجھے کلمتہ اللہ کی خوشخبری دی جاتی ہے جس کانام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا ۔’’اللہ کا حکم ‘‘اسلئے فرمایا گیاتھا کہ اُ ن کی ولادت محض اللہ کے حکم سے ہوئی تھی حضرت مریمؑ کے والد عمران کا سلسلۂ نسب حضرت ابرہیم ؑ پر پہنچتاہے تواس لحاظ سے اٰل عمران آل ابرہیمؑ کی ایک شاخ بن گئی اور دوسرے تمام پیغمبروں کی طرح حضرت عیسیٰ ؑ بھی خاندان ابرہیمی کے ایک فرد بن گئے۔حضرت مسیح ؑ کی ولادت کے بارے میں بائیبل میں لکھا ہے کہ رومی حکمران نے مردم شماری کیلئے تمام یہودیوں کو یر و شلم جاکر نام درج کرانے کا حکم دیا۔حضرت مریم ؑ بھی یوسف کے ساتھ روانہ ہوئیں بیت اللحم کے قریب پہنچے تو ولادت کے آثار نمودار ہوئے ایک ویران جگہ پر حضرت مسیح ؑکی ولادت ہوئی ۔ مجوسیوں نے بچے کو دیکھ کر یہودیوں کے بادشاہ ہونے کی پیشن گوئی کی تو بادشاہ نے بچوں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔حضرت مریم ؑ بچے کو لیکر مصر گئیں جب بادشاہ مرگیا تو چھ ماہ بعد واپس آکر ناصرہ میں قیام پذیر ہوئیں۔حضرت مسیح ؑ 30برس کی عمر میں نبوت سے سرفراز ہوئے ۔وہ اطباء کا زمانہ تھا چنانچہ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے معجزات عطا فرمائے۔ بیمار کو شفادینا اور مردے کو زندہ کرنا ایسے معجزات تھے کہ طب کی دُنیا میں تہلکہ مچ گیا ۔ قرآن کریم نے آپؑ کے معجزات کا ذکر ان الفاظ میں کیاہے ۔’’بیشک میںآیاہوں تمہارے پاس نشانیاں لے کر تمہارے رب کی طرف سے کہ میں بنا دیتاہوں تم کو گارے سے پرندہ کی شکل ۔پھر اس میں پھونک مارتاہوں تو ہوجاتاہے وہ اُڑتاجانور اللہ کے حکم سے اور اچھا کرتاہوں مادرزاد اندھے کو اور کوڑھی کو او ر زندہ کرتا ہوں مردے کو اللہ کے حکم سے اور بتادیتاہوں تم کیا کھاکر آئے ہواور جو کچھ رکھ آئو اپنے گھر میں ‘‘۔(اٰل عمران)۔آپؑ کی تعلیمات او رمعجزات سے متاثر ہوکر سب سے پہلے شاگردی اختیار کرنے والے دو خواری کہتے ہیں۔حضرت مسیح ؑ کا ظہور اس پُر آشوب دور میں ہواجب یہودی قوم طرح طرح کی برائیوں میں ڈوب کر منتشر ہوچکی تھی ان پر ظالم حکمران مسلط کر دئیے گئے ۔فلسطین کے رومی حاکم ہیروڈنے یہودی قوم پر ظلم وستم کی انتہا کردی تھی پوری یہودی قوم یہ اُمید لگاکر بیٹھی تھی کہ کوئی نہ کوئی ان کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کرے گا۔حضرت مسیح ؑبطور نجات دہندہ کے نام سے وہ آشنا تھے۔لیکن جب ان کو مبعوث فرمایا گیا تو اُن کی تبلیغ و تعلیمات کو مان کر عمل کرنے کے بجائے ان کو ستایا نافرمانی کی ۔اور ان کے خلاف سازشوں کے متعدد جال پھیلائے اور پھانسی کے پھندے تک پہنچانے میں کوئی کسرنہ اُٹھا رکھی ۔ہردین کے پیروکار اپنے بزرگوں کی عزت واحترام کرکے ان کی پیروی کرتے ہیںلیکن یہودیوں کا عجیب و غریب طریقہ او ر عقیدہ ہے۔ ایک طرف تو انبیاء کرام پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں دوسری طرف ان پر الزامات لگاکر ان کی کردار کشی بھی کرتے ہیں۔ اسکے بر عکس قرآن پاک میں ان تمام انبیاء ورسل کی پاکیزگی ،معصومیت بلند اخلاق بیان کرنے کے علاوہ ہر قسم کے صغیر ہ وکبیرہ گناہوں سے ان کو پاک قرار دیا گیاہے۔شروع میں عیسائیت یہودیت کا ایک حصہ تھی ۔اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی ہدایت او ررہنمائی کیلئے جو انبیاء کرام ؑ بھیجے ان کے ساتھ ان کا رویّہ نہ صرف بے حد شرمناک تھا بلکہ بعض کوقتل کرڈالا۔بعض کو قید و بند کی تکلیفیں دیں۔اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیلیوں پر اپنی نعمتوں کی انتہاکردی۔فضل وکرم اور انعامات کی ان پر بارشیں ہوئیں ۔بابلیوں فرعونوں اور رومیوں کی غلامی سے نجات دلائی مگر ان تمام نوازشات کے باوجود انہوںنے اللہ کی نافرمانی کی اور آسمانی کتابوں کے احکامات ماننے سے انکار کردیا۔یہودیوں نے پہلے انبیاء کرام ؑکی طرح حضرت مسیح ؑ کو بھی چین نہ لینے دیا ان کے خلاف درپردہ اور اعلانیہ سازشیں کیں۔بادشاہ وقت کے کان بھرے ۔رومی حاکم نے 30رکنی یہودی علماء کی کمیٹی کوان کے خلاف فیصلہ دینے کا اختیاردیا۔یہودی علماء نے آپ ؑ پر کفر کافتویٰ جاری کرکے سزائے موت کا حکم دیا۔ قرآن پاک صلیب کے واقعہ کی سرے سے تردید کرتاہے۔مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق جب حضرت مسیح ؑ کو ختم کرنے کی سازشیں ہورہی تھی تواللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر کو مطمئن کردیاکہ وہ آپ کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے اور ان کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملادیاجائے گا۔جب یہودیوں نے اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کیلئے صلیب تیارکرکے آپؑ کو پھانسی دینی چاہی تو حق تعالیٰ آپؑ کو زندہ سلامت آسمان پر لے گیا۔