بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ 146واں یوم پیدائش25 دسمبرکو انتہائی عقیدت و احترام سے منایاجارہا ہے، برصغیر پاک و ہند کے مسلمان عظیم قائد کی بدولت آج آزادی کی زندگی گزار رہے ہیں-اے قائد اعظم تیرا احسان ہے یوں دی ہمیں آزادی کے دنیا ہوئی حیران بانی پاکستان کے یوم پیدائش کے سلسلے میں ملک بھر میں میں خصوصی تقریبات، سیمینار، کانفرنسز، مذاکروں، مباحثوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے، کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ شخص برصغیر کے مسلمانوں کی زندگی تبدیل کر دے گا۔ اپنی انتھک جدوجہد بہترین قیادت اصولوں پر ڈٹے رہنے والی شخصیت نے وہ کارنامہ سرانجام کر دکھایا جو رہتی دنیا تک مسلمانوں کے لئے یادگار رہے گا۔ ایک وکیل کی حیثیت سے پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز کرنے والے محمد علی جناح نے انڈین نیشنل کانگریس اور پھر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہمیشہ اصولوں پر مبنی سیاست کی۔ بقول علامہ اقبال:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے کام کیا لیکن جلد ہی یہ بھانپ لیا کہ ہندو اکثریت میں رہ کر مسلمانوں کو برصغیر میں ہمیشہ کیلئے محکوم قوم بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کی جدوجہد قلیل عرصے میں مسلمانوں کو ان کی جداگانہ شناخت نظریات ثقافت اور روایات کو پروان چڑھانے کے لئے علیحدہ مملکت خداد کی صورت میں سامنے آئی۔آج بھی اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو قائد اعظم ایسے رہنما تھے جنہوں نے آزادی کی جنگ بنا کسی ہتھیار کے لڑی اور اپنے دلائل سے جیتی۔ قائد اعظم کی شخصیت میں اصول پسندی سب سے زیادہ نمایاں رہی۔ آپ نڈر ،بے باک اور قائدانہ صلاحیت کے مالک تھے۔ آپ کی صلاحیتوں کو پورا ہندوستان مانتا تھا۔ آپ کی تمام خداداد صلاحیتوں کا اقرار آپ کے حریف برملا کرتے تھے۔آپ نیجب کانگریس جوائن کی تو بہت جلد ہی کانگریس کے قابلِ تعریف لیڈر بن گے۔ پھر کچھ عرصے بعد آپ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور مسلم لیگ کو ہندوستان کی عظیم سیاسی جماعت میں تبدیل کر دیا۔ قائد اعظم نے مسلمانوں میں وہ جذبہ پیدا کردیا، جس نے ان کے اندر آزادی کی امنگ جگا دی۔ اور اسطرح تاریخ میں ایک آزاد اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آیا۔معروف تاریخ داں اسٹینلے والپورٹ قائد اعظم کی سوانح حیات بعنوان "جناح آف پاکستان" میں لکھتے ہیں:" بہت کم لوگ تاریخ کے دھارے کو نمایاں طور پر تبدیل کرتے ہیں۔دنیا کے نقشے میں اب بھی بہت کم لوگ ترمیم کرتے ہیں۔شاید ہی کسی کو قومی ریاست بنانے کا سہرا دیا جائے۔محمد علی جناح نے یہ تینوں کام کیے۔" اسٹینلے والپورٹ آگاہ کرتے ہیں کہ لنکنز ان کے مرکزی ہال میں چار قانونی ماہرین کی تصاویر آویزاں ہیں جن میں سے تین برطانوی اور شاہی شخصیات ہیں جب کہ چوتھی پورٹریٹ جناح کی ہے۔ انگریز کسی کی تعریف یا پذیرائی میں تنگ نظری سے کام لیتے ہیں لیکن قائد اعظم کے معاملے میں وہ ان کی صلاحیتیں تسلیم کرتے ہیں-یہ امر قابل تحسین ہے کہ قائد اعظم نے لنکنز ان میں داخلہ اس وجہ سے لیا تھا کہ اس درسگاہ کے صدر دروازے پہ فہرست آویزاں ہے جس میں دنیا کو سب سے بڑے قانون دینے والوں میں ہمارے پیارے نبی ؐ کا نام سر فہرست ہے اور آج بھی وہی لسٹ وہاں آویزاں ہے۔قائد اعظم اپنی صحت کی خرابی کے باوجود پاکستان کے قیام کے لیے جد وجہد کرتے یہی وجہ ہے کہ ہماری آزادی کے بعد قائد اعظم ہم سے جلد بچھڑ گیے جبکہ ان کے دست راست شہید ملت لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا اور نوزائیدہ پاکستان یتیم ہو گیا ان کے بعد جو لیڈر ملے وہ قائد اعظم کے پیغام کو آگے نہ لے جا سکے۔
اے قائد ہم آپ سے شرمندہ ہیں ہم پاکستان کو ویسا نہ بنا سکے جیسا آپ نے سوچا تھا، جو تعبیر آپ نے دیکھی تھی۔ نہ یہ قوم آپ کے قول و عمل سے کچھ سیکھ سکی، نہ آپ کی سیاست کے طریقے کو اپنا سکی،نہ کوئی ایسا لیڈر پیدا کر سکی جسکی شخصیت آپ کا مظہر ہو۔ قائد تو انصاف کے علمبردارتھے لیکن آج یہ قوم انصاف کی ہی متلاشی ہے۔ قائد اعظم نے وکالت کے شعبہ سے وابسطہ رہ کر ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدمہ لڑا اور دنیا کو جیت کر دیکھایا۔
قائد اعظم کا دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے اور اب بھارت کا مسلمان اسی نظریہ پر اپنی شناخت کی لئے لڑ رہا ہے۔ نریندر مودی بھارت کے مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے۔ اس کے بنائے ہوئے کالے قوانین کے ذریعہ مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے5 اگست 2019 سے مقبوضہ کشمیر کی آینی حیثیت تبدیل کر کے کشمیری مسلمانوں کو نظر بند کیا گیا ہے- بھارت میں مسلمانوں کی آبادی پاکستان سے بھی زیادہ ہے لیکن ان کی حالت ابتر ہے۔ ان کی حیثیت دلت اور اچھوت ہندوؤں سے بھی بدتر ہے۔بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہوتی ستم ظریفی دیکھ کر ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے کہ اللہ نے ہمیں پاکستان جیسی نعمت سے نوازا، جہاں ہماری نسلوں کا مستقبل محفوظ ہیں۔ ہماری سوچ آزاد ہے۔ ہم آزادی سے جی سکتے ہیں۔ تو اب ہمیں اس نعمت کی قدر بھی کرنی چاہیے اور حفاظت بھی۔ بیرونی طاقتیں اب بھی پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں اور ہم اپنے دشمن کی گھناؤنی چالوں میں پھنستے چلے جارہیں ہیں۔ جو ہمیں تعصب میں ڈال کر ہمارے درمیان تفریق پیدا کررہا ہیاور ہمارے مستقبل کے نوجوانوں کے ذہنوں سے کھیل رہا ہے کہ وہ آپس میں ہی دستِ گریباں ہیں۔ شاید قائد نے اس وقت ہی ان خطرات کو بھانپ لیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا ’’ مسلمان گروہوں اور فرقوں کی نہیں بلکہ اسلام اور قوم کی محبت پیدا کریں، کیونکہ ان برائیوں نے مسلمانوں کو دو سو برس سے کمزور کر رکھا ہے‘‘آج اس قوم کو ایک بار پھر قائد اعظم جیسے با اصول ، بے باک ، نڈر اور باصلاحیت رہنما کی ضرورت ہے۔ جو ہم پاکستانیوں کو ایک قوم کے طور پر متحد کرسکے۔ جو اس پاک سر زمین کو ترقی پذیر ملک سے ترقی یافتہ ملک بنا سکے۔ جو قائد اعظم کی ان امیدیوں کو پورا کرسکے جو انھوں نے پاکستان کے لوگون سے وابستہ کی تھیں۔