ناممکن کو ممکن کوبدلنے کا عزم رکھنے والا راہنماء

بابو عمران قریشی سہام
imran.tanveer@hotmail.com
بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح  25دسمبر1876ء  کو کراچی کے ایک متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔دینی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اردو بھی سیکھی۔سندھ مسلم مدرسہ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد تقریباًسترہ سال کی عمر میں انگلستان گئے اور 1896ء میں بیرسٹر بن کر جب ہندوستان واپس آئے تو والد کی کاروباری حالت کمزور دیکھ کر چند سال تک گھریلومعاشی پوزیشن مضبوط کرنے میں صرف کئے۔سیاسی سرگرمیوں کا آغاز:انگلستان میں قیام کے دوران مشہور کانگرس لیڈردادابھائی نوروجی نے جب ہاؤس آف کا منز کا الیکشن لڑا تو مسٹر محمدعلی جناح   نے ایک کارکن کی حیثیت سے سیاسی میدان میں اپنی ذہانت کا سکہ منوالیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ آپ کانگرس کے صدر دادابھائی کے پرائیوٹ سیکرٹری بھی رہے۔ اس زمانے میں مسلم سیاست پر ایک جمودطاری تھا اور علی گڑھ کی سیاست کے باعث مسلم قومیت کا جھکاؤ انگلستان کی طرف زیادہ تھا۔ گھوکھلے جیسی معتدل شخصیت سے متاثر ہوکر آپ نے انڈین نیشنل کانگرس میں باقاعدہ شرکت کرکے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کر دیا۔جب بمبئی کی مسلم نشست سے مرکزی قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوئے تو کونسل میں اپنی جرأت ،دانشمندی اور قانون دانی سے اوقاف کے بارے میں اپنے مسودہ کو قانون کے طور پر پاس کرالیا تھا۔میثاق لکھنؤ:ملک کی آزادی کی جدوجہد کیلئے ہندومسلم اتحاد ضروری تھا جو بظاہر متعصب ہندؤں کی ہٹ دھرمی سے ناممکن نظر آتا تھا۔آپ نے اپنی مدبّر انہ صلاحیتوں کو برؤے کار لاکر ہندؤں اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا عظیم کارنامہ سر انجام دیا جس نے آگے چل کر برطانوی حکومت کی مضبوط دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا۔مسٹر محمدعلی جناح  کے پیش نظر دو نظر ئے تھے ایک ہندومسلم اتحاد اور دوسرا انگریز وں کی غلامی سے چھٹکاراحاصل کرنا۔1916ء میں آپ کی کوششوں سے ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے دس سالہ معاہدے کو میثاق لکھنؤ کہاگیا۔آپ1919ء کی اصلاحات کو مسترد کرنے کے اسلئے خلاف تھے کہ آپ دستوری طریقے سے آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھا نا چاہتے تھے۔ترک موالات کے تحت  ہندوستانیوں کا انتخابات کا بائیکا ٹ کرنا آپ کو پسند نہ تھا۔
کانگرس سے علیحدگی :آپ کو دراصل گھوکھلے کا معتدل انداز پسند تھا اِسلئے وہ ہر قسم کی غیر دستوری تحریکوں کے خلاف تھے چنانچہ استعفیٰ دے کر کانگرس سے علیحدگی اختیار کرلی پھر بھی کچھ عرصہ تک آپ کی ہمدردیاں کانگرس کے ساتھ رہیں لیکن جب آل پارٹیز کانفرس میں نہروکی رپورٹ نے کانگرس کی قوم پرستی ظاہر کیا تو آپ کانگرس سے قطعی مایوس ہوگئے ادھر مسلم قائدین کو مقامی اورزیر زمین سیاست سے فرصت نہ تھی چنانچہ دونوں سے دل برداشتہ ہو کر 1930ء میں انگلستان چلے گئے وہاں چارسال قیام کرنے کے بعد وطن واپس آئے اور مسلمانوں کو پھر سے متحدکرنے کی کوششیں شروع کردیں۔مسلمانوں کی حالت زار:مسلمانوں میں مذہبی او رسیاسی نفاق پیدا کرنے میں ہندؤں اور انگریز وں کا ہاتھ کارفرماتھا۔اور تو اور مسلم لیگ بھی دودھڑوں میں بٹی ہوئی تھی اور اس وقت مسلمان قو م اندرونی خلفشار اور بیرونی مداخلت کے باعث بے حد پریشان تھی۔ایسے آڑے وقت میں ایک ایسے ہمدرد اور غمگسار رہنما کی ضرورت تھی جو ان کی دستگیری کرسکے۔محمدعلی جناح  ایک قائدکی حیثیت سے انگلستان سے واپس آئے مسلم لیگ کے دونوں دھڑوں کو متحد کیا مسلمانوں میں باہمی اتفاق و اتحاد کی فضا قائم کرکے ایشیا ء￿  کی عظیم ترین شخصیت کے طور پر ابھرے مرکزی قانون ساز کونسل کے ایک رکن کی حیثیت سے تین قراردادیں پاس کراکر اپنی سیاسی قابلیت کا ثبوت فراہم کیا ،انتخابات کے موقعہ پر 54افراد پر مشتمل ایک پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا اور اس موقعہ پر کا نگرسی مسلمانوں نے بھی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد قائد اعظم نے فیصلہ کرلیا کہ مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کراکے آئندہ برابری کی بنیاد پر گفت و شنید کی جائے گی۔ وائسرائے نے تو مسلم لیگ کا یہ مطالبہ تسلیم کرلیا لیکن کانگرس کو منظور نہ تھا چنانچہ انہوں نے وائسرائے سے مطالبہ کرایا کہ جنگ عظیم کے بعد حکومت ہندواکثریت کو سونپی جائے جب یہ شرط
 تسلیم نہ ہوئی تو صوبائی وزارتوں سے مستعفی ہوگئے ان کا یہ اقدام مسلمانوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہوا کیونکہ اقتدار میں رہ کر وہ من مانی کار روائیاں کرتے رہتے تھے چنانچہ مسلمانوں نے اس خوشی میں یوم نجات منایا اور کانگرسی وزارتوں کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔انگریزوں کو بخوبی عِلم تھا کہ مسلمان ایک دلیر قوم ہے جن کے تعاون کے بغیر جنگ میں کامیابی ممکن نہیں ہوگی چنانچہ سیاست کا رخ قائداعظم کے حق میں ہوگیا۔آپ نے ایک تاریخی خطبہ میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا :مسلمان محض ایک اقلیت نہیں بلکہ ہر تعریف کے لحاظ سے ایک قوم ہیں جنکے لئے الگ وطن کی ضرورت ہے  چنانچہ قرار داد پاکستان منظور کرکے علیحدہ مملکت کیلئے جدوجہد شروع ہوگئی۔کانگرسیوں نے زہر اگلنا شروع کردیا۔برصغیر کے مسلمانوں کی بھاری اکثریت کی طرف سے پاکستان کے مطالبہ کی پر جوش حمایت نا صرف دنیا بھر کے مسلمانوں نے کی بلکہ غیر مسلم اقوام نے بھی پرزور تائید کی۔ انگریزوں کو بھی اس مقبولیت کا اعتراف کرنا پڑا اور مسلمان قوم نے اپنے عظیم قائد کی دانشمندانہ قیادت میں سات سال کی مخلصانہ اور مسلسل جدوجہد کے بعد آخر کا راپنی منزل مراد کو پالیا۔قائد اعظم محمدعلی جناح کی پر خلوص محنت عزم صمیم ،قوم کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں وہ گھڑی آگئی جب دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک علیحدہ مملکت کی حیثیت سے ابھرا۔دراصل پاکستان کا قیام قائد اعظم  کی سیاسی بصیرت او ر عزم و عمل کا نتیجہ تھا جو معجزانہ طور پر آپ کا عظیم کارنامہ ثابت ہوا۔گوکہ قائد اعظم محمدعلی جناح   ایک عظیم رہنما کی حیثیت سے قوم کو آزادی کی نعمت سے مالامال کرکے خود اب ہم میں موجود نہیں ہیں تاہم جب تک پاکستان زندہ اور تابندہ ہے اپنے محسن کی یاد ہمارے دلوں میں جو ان رہے گی کیونکہ انہی کی کاوشوں سے صبح آزادی نے مردہ دلوں کو حیات نو کا پیغام دیا اور زندہ دلوں کو ایک ولولہ تازہ بخشا۔ایک طرف مسلمانوں کو پاکستان دے کر آزادی دلائی اور دسری طرف برطانوی استعمار کی شاطر انہ چالوں اور ہندو استبداد کی فریب کا ریوں سے نجات دلائی۔اپنے محسن اور عظیم رہنما کا یوم ولادت مناتے ہوئے جہاںان کی کا وشوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ضروری ہے وہاں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا یہی وجہ تھی کہ قائد اعظم  پاکستان کے سیاسی معاشرتی او ر اقتصادی ڈھانچے کی بنیاد اسلام کے اصول عدل و مساوات پرر کھنا چاہتے تھے۔

ای پیپر دی نیشن