بابائے قوم کا یوم ولادیت باسعادت

Dec 25, 2023

کامران امجد خان
پاکستان کا وجود میں آنا بیسویں صدی کا معجزہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس آفاقی معجزے کے پیچھے کوئی ایسی شخصیت موجود تھی جس کی ایمانداری‘ بے باکی اور پاکیزہ خیالی ہر طرح کے شبہات سے مبرہ تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مہاتما گاندھی کہنے پر مجبور ہو گیا ’’اگر ہندوئوں کے پاس ایک ہی قائداعظم جیسی شخصیت موجود ہوتی اور مسلمانوں کے پاس ہزاروں کی تعداد میں پنڈت جواہر لال نہرو اور مولانا آزاد ہوتے تو میں دیکھتا کہ ہندوستان کا بٹوارہ کیسے ہوتا؟‘‘
اس کو سیاسی تدبر کا نذرانہ عقیدت کہہ لیں یا مہاتما گاندھی کا ہندوانا تعصب کہ اس کے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوئے اور ذرا سوچئے کہ اس کے پیچھے قائداعظمؒ کی اپنی قوم اور اپنے مذہب سے کتنی پختہ عقیدت اور عزم تھا۔رئیس احمد جعفری مرحوم نے قائداعظم کے بارے میں تحریر فرمایا ہے ’’قائداعظم کے ساتھ سب سے بڑی بے انصافی یہ ہوتی چلی آئی ہے کہ ان پر لکھنے والوں میں سے کسی نے بھی ان کی شخصیت کو مومنانہ صفات‘ مذہبی جذبات‘ دینی تاثرات اور اعلیٰ رجحانات کے آئینے میں پیش نہیں کیا، گویا کہ دین اور مذہب سے جیسے قائداعظم کا کوئی واسطہ یا رشتہ ہی نہیں تھا۔ حالانکہ قائد کے ہر ارشاد‘ بیان اور تقریر میں اسلام اور مذہب کا رنگ اتنا گہرااور واضح ہے کہ مزید کچھ کہنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ گویا آپ منافقوں کی طرح ’’اسلام‘‘ اور ’’مذہب‘‘ کی رٹ نہیں لگاتے تھے تاہم اٹھتے ‘ بیٹھتے ’’اسلام‘‘ ہی کو اپنے مخصوص رنگ اور عصری تقاضوں کے مطابق پیش کرتے تھے۔ اگر آپ کی تقاریر کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان کے ارشادات ’’تبلیغ اسلام‘‘ کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں‘‘۔
مرد مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ ظاہر اور باطن میں ایک جیسا ہوتا ہے۔ قائداعظم کی پوری زندگی میں کوئی ایک واقعہ‘ کوئی ایک اشارہ‘ کسی ایک عمل اور کوئی ایک تقریر سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ظاہر اور باطن کے تضاد کا شکار تھے۔ کسی نے قائد سے پوچھا ’’آپ سنی ہیں یا شیعہ ؟‘‘اس کے جواب میں انہوں نے سوال کیا ’’کیا رسول اکرمؐ سنی تھے یا شیعہ؟‘‘ایسی مومنانہ فراست کسی راست گو انسان میں ہی پائی جا سکتی ہے۔قائداعظم کی خوراک کو دیکھا جائے تو ’’قلیل الطعام‘‘ تقریباً زندگی بھر ہی رہے۔ ناشتہ میں ایک انڈا‘ ایک توس اور چائے کی پیالی‘ دوپہر میں ہلکا پھلکا کھانا جس میں ابلے ہوئے چاول اور ساتھ کوئی سالن ہوتا تھا۔ قائد کے کچن میں روزانہ چار پانچ مرغیاں ذبح ہوتی تھیں مگر وہ صرف ایک چوزے کی یخنی استعمال کرتے تھے اور باقی کا تمام کھانا ملازمین کی لذت کام و دہن کیلئے ہوتا۔ اسی طرح موسمی پھل خاصی مقدار میں آتے اور ملازمین ہی استعمال کرتے تھے۔جناب محمود حسن ایک روز قائد کے ساتھ کھانے میں شریک تھے۔ قائد نے حسب معمول تھوڑا سا کھانا کھایا تو محمود حسن نے عرض کیا ’’آپ نے تو کچھ کھایا ہی نہیں‘‘
قائد نے جواب دیا ’’دنیا والے اسی لئے تکلیف میں مبتلا ہیں کہ وہ کھاتے بہت ہیں‘‘
 قائداعظم کے زیر مطالعہ یوسف علی کا انگریزی ترجمے والا قرآن پاک ہمیشہ ہی رہا۔ محترمہ فاطمہ جناح کے بیان کے مطابق اس کا مطالعہ ان کے معمولات کا حصہ تھا۔ اس کے علاوہ اپنی ذاتی لائبریری میں موجود اسلامی تاریخ ‘ رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ‘ دیگر اسلامی رہنمائوں کی کتب کے انگریزی ایڈیشن زیر مطالعہ رہے اور ہر کتاب کو بڑے غور سے پڑھا۔ اس کے علاوہ سید امیر علی کی کتب خاص طور پر مطالعہ کیں۔ یہ قائد کے وسیع مطالعہ ‘ پختہ ذہنی اور مذہبی رجحانات کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ جب بھی بات کرتے‘ ناپ تول کر‘ دلیل کے ساتھ اور آسان ترین جملوں میں قرآن حکیم اور احادیث کے حوالے سے بات کرتے۔کسی کے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے فرمایا ’’اگر کوئی چیز اچھی ہے تو عین اسلام ہے اور اگر کوئی چیز اچھی نہیں ہے تو وہ اسلام نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام کا مطلب ہی عین انصاف ہے۔‘‘
یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ قائداعظم سحر خیز تھے۔ اس بارے میں بہت سے اصحاب نے اپنے تاثرات اپنے اپنے انداز میں تحریر فرمائے ہیں لیکن مولانا حسرت موہانی نے جو آپ کی سحر خیزی ‘ سجدہ میں گریہ زاری اور خداوندکریم سے رہنمائی کے حوالے سے بیان فرمائی ہے وہ قابل غور ہے۔مولانا حسرت موہانی لکھتے ہیں ’’میں ایک روز جناح صاحب کی کوٹھی صبح ہی صبح ایک نہایت ضروری کام سے پہنچا اور ملازم کو کہا کہ وہ میرے آنے کی اطلاع کر دے۔ ملازم نے جواب دیا کہ اس وقت ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں ہے آپ تشریف رکھیں‘ تھوڑی دیر بعد جناح صاحب خود ہی تشریف لے آئیں گے تو مل لیجئے گا۔ مجھے چونکہ بہت ہی ضروری کام تھا اور جناح صاحب سے فوری ملنا بھی ضروری تھا اس لئے مجھے ملازم پہ غصہ آیا اور میں خود ہی اندر چلا گیا ایک کمرے سے دوسرے اور پھر تیسرے میں پہنچا تو برابر کے کمرے میں مجھے کسی کے بلک بلک کر رونے اور کچھ کہنے کی آواز آئی۔ آواز جناح صاحب کی تھی۔ میں گھبرا گیا۔ آہستہ سے پردہ ہٹایا تو دیکھا کہ وہ سجدے میں پڑے ہوئے ہیں اور بڑی بے قراری سے دعا مانگ رہے ہیں۔ میں دبے پائوں واپس آ گیا۔ اس کے بعد میں جب بھی ان کی کوٹھی گیا اور ملازم نے بتایا کہ جناح صاحب اندر کمرے میں ہیں تو میں ہمیشہ یہی سمجھتا رہا ہوں کہ وہ سجدے میں پڑے دعا کر رہے ہوں گے۔ میرے تصور میں جناح صاحب کی وہی تصویر اور وہی آواز رہتی ہے‘‘۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے ایک خواب کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت قائداعظم کو اولیائے کرام کی صفوں میں بیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ مومن اعظم ہیں۔ فرماتے ہیں ’’جب مولا پاک نے جہاد پاکستان کی کمان اس نحیف و ناتواں بوڑھے جرنیل کے ہاتھوں میں دی تو اس نے اس جہاد میں کامیابی اور کامرانی کیلئے یہ غیبی امداد بخشی کہ ان کی بات میں تاثیر پیدا کر دی۔اسے خود اعتمادی اور خدا اعتمادی کا مجسمہ بنا دیا۔ اس کے عزم و ارادہ میں 9 کروڑ مسلمانوں کی تاب و طاقت رکھ دی۔ دشمنوں اور مخالفوں پر اس کا رعب طاری کر دیا اور تائید کیلئے حجروں اور خانقاہوں میں گوشہ نشین علماء اور روحانی شخصیات کو میدانِ عمل میں بھیج دیا۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ایک روز اپنے خواہر زادے مولانا ظفر احمد عثمانی کو طلب فرمایا اور کہا ’’میں بہت کم خواب دیکھتا ہوں۔ مگر آج میں نے عجیب خواب دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا کہ بہت بڑا مجمع ہے گویا میدان حشر معلوم دیتا ہے۔ اس مجمع میں اولیائے کرام‘ علمائے دین اور صالحین کرسیوں پر تشریف فرماہیں۔ مسٹر محمد علی جناح بھی اسی مجمع میں عربی لباس پہنے کرسی پر بیٹھے ہیں۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اس ہجوم میں وہ کیسے شامل ہو گئے تو مجھ سے کہا گیا کہ محمد علی جناح آج کل اسلام کی بڑی خدمت کر رہے ہیں اس لئے انہیں یہ درجہ دیا گیا ہے‘‘
منشی عبدالرحمن خان نے قائداعظم پر دو مفصل کتابیں ’’کردار قائداعظم‘‘ اور ’’قائداعظم کا مذہب و عقیدہ‘‘ بڑی تحقیق اور تجسس کے بعد تحریر کی ہیں۔منشی عبدارحمن خان تحریر فرماتے ہیں ’’ایک بزرگ کہ جن کا نام کسی کو بھی معلوم نہیں تھا مگر عرفی نام ’’غازی‘‘ مشہور تھا‘ کسی زمانے میں بغداد (عراق) میں سونے کا کاروبار کرتے تھے۔ لاکھوں کا لین دین ہوتا۔ اس زمانے کی مہنگی ترین کار رولز رائس زیر استعمال رہتی۔ صاحب دل تھے‘ نیک نیت اور اسلام دوست تھے۔ وہاں ایسی کایا پلٹی کہ قائداعظم کی روحانی اصلاح کیلئے سب کچھ چھوڑ کر امرتسر پہنچ گئے۔ ان غازی صاحب کے بارے میں منشی صاحب رقم طراز ہیں کہ بظاہر تو وہ تاجر کتب تھے مگر بباطن ابدالی تھے اور کسی کی ’’خصوصی فرمائش‘‘ پر قائداعظم کی ہمراہی کیلئے تشریف لائے تھے۔منشی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ’’روحانی دنیا‘‘ کے مطابق’’عارف‘‘ کی تدفین ’’ابدالی‘‘ کے ذمہ ہوتی ہے۔ غازی صاحب کو جدہ جانے والے جہاز ’’محمدی‘‘ پہ قائداعظم کی رحلت کی خبر ملی تو وہ فوراً ہی جہاز سے اتر آئے۔ یہ قومی صدمے کا نتیجہ تھا کہ کراچی میں مکمل ہڑتال تھی‘ پوری قوم سوگ میں ڈوبی ہوئی تھی‘ بس ‘ ٹیکسی‘ رکشہ یعنی کوئی سواری نظر نہ آئی اتنے میں ایک فوجی ٹرک گزرا تو غازی صاحب نے اسے روک لیا اور درخواست کی کہ انہیں جنازگاہ تک پہنچا دیا جائے۔ وہاں پہنچے تو لاکھوں کے مجمع میں راستہ دشوار نظر آیا مگر مرد مومن تھے اس لئے راستہ بنتا گیا اور غازی صاحب ملٹری کے اُس حلقہ تک پہنچ گئے جنہوں نے جنازے کے گرد حصار باندھ رکھا تھا۔ اس حصار کے اندر جانے کی ممانعت تھی مگر جب مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی ان پر نظر پڑی تو حلقہ کے اندر انہیں بلا لیا گیا اور فرمایا ’’لو بھائی! اپنے دوست کو سنبھالو‘‘
چنانچہ غازی صاحب نے تن تنہا قائداعظم کے جسد خاکی کو اپنے بازوئوں پر اٹھایا اور لحدمیں اتار دیا۔ اسی سلسلہ میں غازی صاحب نے منشی عبدالرحمن کے نام جو 17ستمبر 1948ء کوخط تحریر کیا اس کی عبارت یوں ہے۔
’’12ستمبر کی صبح کو جہاز کی روانگی تھی کہ قائد کا انتقال ہو گیا۔ یہ ایسا اچانک صدمہ تھا کہ طبیعت پہ قابو نہ رہا‘ سامان جہاز میں چھوڑا اور خود نماز جنازہ کیلئے شہر آ گیا۔ خدا کا شکر ہے کہ کندھا دیا اور میں نے اپنے ہاتھوںسے اس بطل جلیل کو قبر میں اتارا۔ ان کا وزن بمشکل پندرہ بیس سیر ہو گا۔ جب میں نے سرکی طرف کا بند کھولا اور ان کی پیشانی پر آخری بوسہ دیا تو ایسا معلوم ہوا کہ کوئی گہری نیند سو رہا ہو۔ سکرات موت کا کوئی اثر نہیں تھا۔ قوم کا غم آخر اس بوڑھے جرنیل کو قبر میں لے گیا…‘‘
قائداعظم کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ جیسے جید اور غیر متنازعہ عالم نے پڑھائی۔ وہ بڑے بوڑھے جنہوں نے قائد کی نماز جنازہ میں شرکت کی وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ جس وقت جنازے کا جلوس ان کی آخری آرام گاہ کی طرف رواں تھا تو اس وقت مغرب کی طرف سے آنے والے خوشبو کے عطر بیز جھونکے ہر شخص نے محسوس کئے۔ قائداعظم کی شخصیت کے روحانی پہلو پر ڈالی گئی روشنی غوروفکر کے بہت سے دروازے وا کرتی ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ ان کے افکار سے لیکر اعمال تک کو محفوظ کر لیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں یہ ادراک کر سکیں کہ قوموں کی تاریخ میں فرد واحد کا کیا کردار ہوتا ہے ۔

مزیدخبریں