محمد علی جناح بہترین سیاست دان

Dec 25, 2023

عتیق انور راجا

ملک میں نئے انتخابات کا بگل بج چکا ہے ۔سیاسی جماعتیں کمر کس کے میدان میں نکلنے والی ہیں ۔لیکن پاکستانی عوام کو سیاست دانوں سے کچھ ناراض ناراض لگتے ہیں۔پاکستانی عوام یہ سمجھتی ہے کہ ہمارے سیاستدان خدمت کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں لیکن اقتدار ملتے  ہی اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے مال بنانا شروع کردیتے ہیں۔محمد علی جناح کسی سیاسی بصیرت اور کردار عوام کو موجودہ راہنماوں میں نظر نہیں آرہا۔محمدعلی جناح جنہیں قائد اعظم کا لقب دیا گیا تھا ان کی سیاست اور کردار سے بدترین مخالفین تک معترف رہے ہیں۔ تقسیم برصغیر کے چند سال بعد لارڈ ماونٹ بیٹن بی بی سی کو انٹرویو میں قائداعظم کی سیاسی عظمت کا برملا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ حکومتِ برطانیہ نے انہیں ہندوستان بھیجا ہی اس لیے تھا کہ کسی صورت بھی پاکستان کا قیام عمل میں نہ آنے دیا جائے۔ وہ کہتا ہے کہ میری راتوں کی نیندیں حرام ہوچکی تھیں کہ کس طرح قائداعظم کو پاکستان کے حصول سے باز رکھ سکوں گا۔ طاقت اور سیاست ہر طرح کی تدبیریں اختیار کیں۔ مگر قائداعظم ایک چٹان کی طرح قیام پاکستان کے لیے ڈٹے رہے۔ ان کے پاس ہر سوال کا مکمل جوا ب ہوتا تھا۔ ان سے بات کرتے ہوئے صاف لگتا تھا کہ ان سے اپنی مرضی کی کوئی بھی بات منوانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ مسٹر جناح نے جب بھی کوئی معاہدہ کیا تو جھک کے نہیں بلکہ برابری کے بنیاد پہ کیا۔ فخر الدین بھارتی صدر قائداعظم کو جنگِ آزدای کا بہادر سپاہی کہتا ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی کا راہنما جسونت سنگھ کہتا ہے کہ قائد صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ سبھی ہندوستاینوں کے لیڈر تھے۔ امریکی مورخ اسٹینلے کہتا ہے بہت کم لوگ تاریخ کا دھارہ بدل پاتے ہیں ان میں چند ہی دنیا کے نقشے میں تبدیلی لاتے ہیں۔ اور مشکل سے ہی کوئی لیڈر اپنی قوم کے لیے الگ وطن حاصل کر پاتا ہے۔ محمد علی جناح میں یہ تینوں خصوصیات تھیں اور انہوں نے اپنی سیاست سے یہ تینوں کام عملی طور پہ کر کے دکھا دئیے۔ پنڈت جواہر لعل کی بہن وجے پنڈت قائد اعظم کی سیاسی بصیرت پہ بات کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ اگر مسلمانوں کے پاس سو گاندھی سو نہرو اور سو پٹیل ہوتے اور اسکے جواب میں کانگریس کے پاس صرف ایک محمد علی جناح ہوتا، تو ہندوستاں کسی صورت تقسیم نہ ہوتا۔ موہن داس کرم چند گاندھی کہتا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ محمد علی جناح کو نہ ڈرایا جاسکتا ہے نہ جھکایا جاسکتا ہے اور نہ وہ کسی قیمت پہ خریدے جاسکتے ہیں۔ اطالوی وزیراعظم مسولینی قائد کو خراج پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایسا شخص صدیوں میں کوئی ایک ہی پیدا ہوتا ہے۔ سر ونسٹن چرچل کہتا ہے کہ وہ قائد اعظم کو اپنے دل سے کبھی بھی بھلا نہیں سکتا۔ اور پنڈت جواہر لعل نے حد کردی اور وہ قائد کی عظمتوں کا اعتراف یوں کیا۔ کہ ’اچھا کردار اور اچھی سیاست ہی وہ راز ہیں جن کی وجہ سے محمد علی جناح  نے کامیابیاں حاصل کیں۔ برطانوی صحافی بیورلی نکلس قائداعظم سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کا گن کچھ اس طرح گاتے ہیں۔ ’میرے سامنے ایشیا کی عظیم ترین شخصیت بیٹھی ہے۔ یہ انسان اس وقت 67 سال کا ہو چکا ہے۔ دراز قد، چھریرا بدن یک چشمی عینک ایک سفید کالر گلے میں، وضعدار سلک سوٹ۔ ان کی باتوں سے میں محسوس کر رہا ہوں کہ وہ ہندستان کی سیاست کو جس طرف چاہے لے جائیں گے۔ ہندوستان کے مسلم ان کے ایک اشارے پہ سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں۔ پوری ہندو لیڈر شپ کو قائد جیسا مقام حاصل نہیں ہے۔ مگر ہندووں کے پاس گاندھی کی جانشینی کے لیے نہرو ہے۔ راج گوپال اچاریہ ہے۔ پٹیل ہیں۔ اور دوسرے بہت سے قدر آور سیاسی راہنما موجود ہیں۔ مگر مسلمانوں کے پاس محمد علی جناح کے بعد سیاست کے داو پیچ کو سمجھنے والا دوسرا اور کوئی نہیں ہے۔ بابائے قوم کی ذات میں وہ سب سیاسی خوبیاں تھیں جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہیں۔ قائداعظم انگریزوں سے آزادی بھی چاہتے تھے مگر وہ ہندووں کے ارادوں کو بھی بھانپ چکے تھے۔ اسی لیے وہ ایک آزاد اسلامی ریاست سے کم کسی سمجھوتے پہ راضی نہیں تھے۔ ٹکڑوں میں بٹے مسلمانوں کو ایک نقطے پہ جمع کرنا اور دو دو شاطر لوگوں سے اپنے حق کے لیے مقابلہ کرنا بے شک قائداعظم کا ہی کمال تھا۔ قائد کی شخصیت، معاملہ فہمی، دور اندیشی، مدبرانہ سوچ، دو ٹوک موقف اور قائدانہ صلاحیت کا ثبوت ہے کہ ہم آج ایک آزاد اسلامی ملک میں آزادی کی سانسیں لے رہے ہیں۔ جنہیں اپنی آزادی کی قدر نہیں وہ بھارت میں مسلمانوں کی حالت دیکھ لیں۔ بھارت میں مسلمانوں کے لیے مذہب پہ چلنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ قائداعظم کا برصغیر کے مسلمانوں پہ احسانِ عظیم ہے۔ اور رہتی دنیا تک ہم انہیں محبت و عقیدت سے یاد کرتے رہیں گے۔ مگر اس کے لیے قائد کی طرح سوجھ بوجھ کا ہونا، دلیری، دلائل کے ساتھ ذاتی طور پہ مضبوط کردار کا حامل ہونا بہت ضروری ہے۔ جسے نہ ڈرایا جاسکے‘ نہ ہی دشمن اسے خرید سکتے ہوں۔ جس کے دل میں مسلمانوں کی محبت ہو۔
امریکہ کا حمایت یافتہ یا یوں کہیے کہ امریکی پالیسوں کو کنٹرول کرنے والا اسرائیل غزہ کے نہتے مسلمانوں پر ہر طرح کے ہتھیار استعمال کررہا ہے ۔اقوام متحدہ میں جنگ بند کرنے کی قرار داد کو امریکہ ویٹو کردیتا ہے۔ دنیا کو امن کا درس دینے والے مغربی ملکوں اور اقوام متحدہ پہ اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔کہیں سے کوئی طاقتور آواز بلند نہیں ہورہی ہے ۔کاش مسلم دنیا میں محمد علی جناح جیسا کوئی مدبر،مدلل اور باکردار سیاسی راہنما ہوتا جو اقوام متحدہ کے مسلم دشمن کردار کو بے نقاب کرتا اورویٹو پاور جیسی بدمعاشی ختم کرنے  اور سب کو برابری کی سطح پر رائے دہی کے اختیار کی بات کرتا۔لیکن افسوس  قائد اعظم جیسا کوئی راہنما کہیں نظر نہیں آرہا ہے ۔ ساری مسلم دنیا کے راہنما اپنی کرسیوں پہ بیٹھے اپنی ذاتی حیثیت و مرتبوں میں اضافہ کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ 

مزیدخبریں