سلطانی ٔ جمہور کے تسلسل و استحکام کا متقاضی آج کا یومِ قائداعظم

بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کا 147واں یومِ ولادت آج جاری انتخابی عمل میں سلطانی ٔ جمہور کے فروغ و استحکام، قومی و ملی اتحاد و یگانگت کے جذبے اور ملک کے دفاع و سلامتی کیلئے فکرمندی کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر آج سرکاری اور نجی سطح پر مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ پرنٹ  میڈیا کی جانب سے یوم قائداعظم کے حوالے سے آج خصوصی ایڈیشنز شائع کئے جا رہے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا حیاتِ قائد اور تشکیل پاکستان کیلئے ان کی تاریخ ساز جدوجہد پر خصوصی پروگرامز کا اہتمام کر رہا ہے۔وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں مختلف سطحوں پر منعقد ہونیوالی تقاریب میں بانی ٔپاکستان کی یادیں تازہ کرتے ہوئے قیام پاکستان کیلئے انکی بے پایاں جدوجہد‘ قیام پاکستان کے مقاصد اور اسکے حصول کیلئے برصغیر کے مسلمانوں کی جانب سے دی گئی قربانیوں کو اجاگر کیا جائیگا۔ آج دن کا آغاز کراچی میں مزار قائد پر گارڈ کی تبدیلی سے ہوگا۔ اس موقع پر پاک فوج کا ایک چاق و چوبند دستہ سلامی پیش کریگا۔ قائداعظم کی روح کو ایصال ثواب کیلئے بھی آج خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس موقع پر ملک کی بقاء و سلامتی اور سسٹم کے استحکام کیلئے بھی خصوصی دعائیں مانگی جائیں گی۔
قیام پاکستان کے صرف ایک سال ایک ماہ بعد بانی ٔپاکستان کی وفات حسرت آیات ایک ایسا قومی المیہ ہے جس کے اثرات آج تک محسوس کئے جا رہے ہیں‘ کیونکہ قیام پاکستان کے بعد قوم کو درپیش سنگین مسائل کے حل اور اندرونی و بیرونی سازشوں سے نمٹنے کیلئے قائداعظم کی رہنمائی کی اشد ضرورت تھی۔ مہاجرین کے سیلاب‘ بھارت کی اثاثوں کی تقسیم میں ریشہ دوانیوں اور باؤنڈری کمیشن کے غیرمنصفانہ فیصلوں پر نتیجہ خیز بات نہ ہو پائی جن کے نتیجے میں کشمیر کے تنازعہ نے جنم لیا اور گورداسپور سمیت پنجاب کے متعدد علاقے پاکستان کا حصہ نہ بن سکے۔ اسی طرح ملکی آئین کی تدوین اور ملک کی مختلف اکائیوں کے مابین بنیادی معاملات پر اتفاق رائے کے حصول میں جو تاخیر ہوئی‘ وہ قائد کی وفات کی وجہ سے مزید الجھ گئے۔ قائداعظم کی زندگی میں نہ تو اسٹیبلشمنٹ کو جمہوری اداروں اور سیاسی نظام میں دخل اندازی کا موقع ملتا اور نہ ملک کے مختلف سیاسی و مذہبی طبقات اور جغرافیائی اکائیوں میں اختلاف کی خلیج گہری ہوتی‘ کیونکہ قوم کے بھرپور اعتماد‘ احترام اور عقیدت کے علاوہ خداداد بصیرت و صلاحیت کی وجہ سے قائد نہ صرف اتحاد و یکجہتی کی علامت تھے بلکہ لاینحل مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے بھی مالامال تھے اور یہ صلاحیتیں قوم کی کشتی کو مسائل کے گرداب سے نکالنے میں صرف ہوئیں۔ صرف ایک سال کے مختصر عرصہ میں قائداعظم رحلت فرما گئے اور ساڑھے تین چار سال بعد انکے جانشین لیاقت علی خان بھی شہید ہو گئے۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد مسلم لیگ بھی ملک کی بانی جماعت کے طور پر اپنا مضبوط اور موثر کردار ادا کرنے کے بجائے حصوں بخروں میں بٹتی چلی گئی اور اس کا فائدہ ان سیاسی ومذہبی قوتوں نے اٹھایا جن میں سے بعض یا تو قیام پاکستان کی مخالف تھیں یانظریۂ پاکستان سے اتفاق نہیں کرتی تھیں۔ مسلم لیگ کی تقسیم‘ قائداعظم کے ساتھیوں کی باہمی سرپھٹول‘ آئین کی تدوین میں بے جا تاخیر اور ملک کے مختلف حصوں میں جنم لینے والے نسلی‘ لسانی‘ علاقائی اور فرقہ ورانہ اختلافات کی وجہ سے جمہوری نظام کمزور ہوا اور سول و خاکی بیوروکریسی نے پرپرزے نکالنے شروع کئے۔ قائداعظم نے انگریز اور ہندو سے لڑ کر ذات برادری اور فرقے کی بنیاد پر منقسم مسلمانوں کے انبوہ کثیر کو ایک قوم بنایا تھا اور اپنی پرامن سیاسی جدوجہد‘ مثالی بصیرت‘ امانت و دیانت اور مسلم عوام کے تعاون سے ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام ممکن بنایا جسے انگریز اور ہندو  دیوانے کی بڑ قرار دیتے تھے مگر انکی وفات کے بعد مفاد پرست سیاست دانوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اس ارض وطن کو جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے سے متعلق قائداعظم کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیا اور مملکت خداداد کو اپنی خواہشات کا اسیر بنالیا۔
قائداعظم نے مسلم قوم کو متحد کیا‘ اسے ایک نصب العین دیا اور الگ وطن کے قیام کیلئے پرامن جمہوری جدوجہد کی راہ دکھائی‘ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے آئین کی تشکیل کا معاملہ عوام کے منتخب نمائندوں پر چھوڑا اور خود کو بطور گورنر جنرل سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ مسلم لیگ کی صدارت سے الگ کرکے پارلیمانی جمہوریت کی جانب پیش رفت کی جس میں پارلیمنٹ خودمختار اور عوام کے منتخب نمائندے ہی قومی معاملات اور حکومتی امور چلانے کے حق دار ہوں لیکن بدقسمتی سے قائداعظم کی وفات اور انکے جاںنشینوں کی کمزوریوں کی وجہ سے 1958ء میں ملک کو جمہوریت کی پٹڑی سے اتار دیا گیا اور پھر 1958ء سے لے کر 2007ء تک چار مارشل لاؤں نے اس ارض وطن کی عمر عزیز کے 33 سال غارت کر دیئے۔ مشرف کے 2008ء میں ختم ہونیوالے نیم جمہوری دور کے بعد آج جمہوریت بتدریج مضبوط ہو رہی ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی پر قوم نے اعتماد کیا‘ وہ توقعات پر پورا نہ اتر سکی تو 2013ء میں عوام نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ میں زمام اقتدار تھما دی مگر بدقسمتی سے پاکستان اس منتخب جمہوری دور میں بھی شدید بحرانوں اور مسائل کی آماجگاہ بنا رہا۔ حکمران اقبال و قائد کے وارث ہونے کے ضرور دعویدار تھے لیکن ملک و قوم کو درپیش مشکلات سے نجات دلانے کی ان میں وہ کمٹمنٹ مفقود ہی رہی جس کے حالات متقاضی رہے ہیں۔ قائد کی جانشینی کے دعوے دار مسلم لیگی حکمران بھی عوام کی توقعات اور قومی سلامتی کے تقاضوں پر پورا نہ اتر سکے تو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت  2018ء کے انتخابات کو مینج کر کے اقتدار کا تاج پی ٹی آئی اور اسکے قائد عمران خان کے سر سجا دیا گیا جس کی کہی ان کہی داستانوں کی صدائے بازگشت آج بھی سنائی دے رہی ہے اور کئی رموزِ حکومت و مملکت کی پرتیں کھول رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین نے اس ارض وطن کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کا اعلان و عہد کرکے بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کے وضع کردہ قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کا بیڑہ اٹھایا مگر وہ نہ ملک اور عوام کو گھمبیر اقتصادی مسائل سے نجات دلا سکے اور نہ ہی ملک کو ریاست مدینہ جیسی اسلامی‘ فلاحی جمہوری ریاست کے قالب میں ڈھال سکے۔ پی ٹی آئی حکومت کی مالی اور اقتصادی پالیسیوں سے عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل مزید بڑھے تو پی ٹی آئی حکومت کی انتقامی کارروائیوں سے عاجز آئی اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر وزیراعظم عمران عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے اور اسکے ذریعے پی ٹی آئی کو اقتدار سے باہر نکالنے کا موقع مل گیا اور جب اپوزیشن کی یہ اتحادی جماعتیں میاں شہبازشریف کی زیرقیادت اقتدار میں آئیں تو عمران خان نے بیرونی سازش کا بیانیہ تیار کرکے حکومتی اتحادیوں کے علاوہ ریاستی اداروں کیخلاف بھی اودھم مچانا شروع کر دیا۔ نتیجتاً قائداعظم کا پاکستان بدترین سیاسی عدم استحکام اور انتشار کی زد میں آیا اور ملک کی معاشرت و معیشت تباہی کے دہانے تک جا پہنچی جبکہ سیاسی انتشار و افراتفری، بلیم گیم کے فروغ پاتے کلچر اور ریاستی آئینی اداروں کے باہم ٹکراؤ کی پیدا ہوتی صورت حال نے سسٹم کے ساتھ ساتھ ملک کی بقاء و سلامتی کیلئے بھی سنگین خطرات پیدا کر دیئے۔ آج یہ خوش آئند صورتحال ضرورپیدا ہوئی ہے کہ ملک کی عسکری قیادت نے قائداعظم کے فلسفہ حکومت پر صاد کرتے ہوئے مکمل غیرجانبداری کے ساتھ اپنے آئینی دائرۂ کار میں رہ کر پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کو سدھارنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا بھی عزم باندھا ہے جس کیلئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے برادر دوست ممالک چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور امریکہ کے دورے ملک و ملت کے خوشحال مستقبل کیلئے دور رس نتائج کا ٹھوس عندیہ دے رہے ہیں مگر ہمارے سیاست دانوں کے ایک طبقے بالخصوص پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو اسٹیبلشمنٹ کا غیرجانبدارانہ کردار قبول نہیں اور انہوں نے ریاستی اداروں بالخصوص عساکر پاکستان اور عدلیہ کو رگیدنے اور اندرون و بیرون ملک ان کا تشخص خراب کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ افواج پاکستان کے اداروں، ان کی عمارات و تنصیبات پر جنونی اور پر تشدد حملوں پر مبنی 9 مئی کے واقعات پی ٹی آئی قیادت کے اسی خبث باطن کا اظہار تھا جس پر ریاستی اتھارٹی حرکت میں آئی اور پی ٹی آئی قائد اور اسکے دوسرے عہدے داران و ارکان اسی پاداش میں آج قانون کی عملداری کی زد میں ہیں۔ اب پوری قوم کی نگاہیں آٹھ فروری کے عام انتخابات پر مرکوز ہیں جن کیانعقاد کے عمل پر سپریم کورٹ بجا طور پر پہرہ دے رہی ہے اور بعض مخصوص عناصر کی جانب سے انتخابات مؤخر کرانے کی ہر سازش ناکام بنا رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ قائداعظم پاکستان کو جدید اسلامی جمہوری‘ فلاحی ریاست کے قالب میں ڈھالنا چاہتے تھے مگر بدقسمتی سے قائداعظم کا یہ خواب آج تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا اور اتحادی جماعتوں کی حکومت میں بھی بیرونی قرضوں کے دلدل میں دھنسی اس ارض وطن کے باسیوں کیلئے پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر ہوتے روٹی‘ روزگار کے مسائل اور مہنگائی کے آئے روز اٹھتے سونامیوں نے اس ملک خداداد کی تشکیل کے مقاصد ہی گہنا دیئے ہیں۔ آج عوام بلا شبہ اس سے بھی زیادہ برے اقتصادی حالات کا سامنا کر رہے ہیں جو غیرمنقسم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے الگ خطے کے حصول کا باعث بنے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندو اور انگریز کی سازش کے تحت قطعی بے وسیلہ خطہ ارضی پر مشتمل پاکستان اس یقین کے ساتھ قائداعظم کے حوالے کیا گیا تھا کہ وہ تادیر اسے سنبھال نہیں پائیں گے۔مگر قائداعظم نے اپنی کمٹمنٹ کے تحت اسی کمزور معیشت والے پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے دکھایا۔ اگر قائداعظم حیات رہتے تو اسکی سلامتی کیخلاف بھارت کی کوئی سازش پنپ نہ پاتی مگر انکے انتقال کے بعد ہندو بنیاء لیڈر شپ کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی گھناؤنی سازشیں پروان چڑھانے کا بھی نادر موقع مل گیا۔  یہ سازشیں آج جنونی مودی سرکار کے دور میں انتہاء کو پہنچ چکی ہیں جس نے قائداعظم کی قرار دی گئی شہ رگ کشمیر پر اپنے پانچ اگست 2019ء والے جبری اقدام کے تحت مستقل تسلط جما کر اس وقت سے اب تک کشمیریوں کو گھروں میں محصور کر رکھا ہے اور پاکستان ہی نہیں پورے علاقے کی سلامتی خطرے میں ڈال رکھی ہے جبکہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت کسی عالمی دباؤکو بھی خاطر میں نہیں لا رہا اور اب اس نے بھارتی سپریم کورٹ سے بھی اپنے زیر تسلط مقبوضہ وادی ٔکشمیر کو بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنانے کے جبری اقدام کی توثیق کرا لی ہے۔ پاکستان کی سلامتی کیخلاف  بھارتی عزائم بھانپ کر ہی عساکر پاکستان اپنے سپہ سالار جنرل عاصم منیر کی زیرکمان ہر محاذ پر مستعدد و چوکس ہیں اور عسکری قیادتوں کی جانب سے بھارتی جنگی جنونی اقدامات کے تناظر میں جنگی تیاریاں بڑھانے کا گاہے بگاہے عندیہ دیا جاتا ہے کیونکہ آج بھارت کی مودی سرکار کے ہاتھوں پاکستان کی سالمیت کو پہلے سے بھی زیادہ خطرات لاحق ہیں جو پاکستان دشمنی پر مبنی ایجنڈا کی تکمیل کیلئے پاکستان پر جارحیت مسلط کرنے پر تلی بیٹھی نظر آتی ہے۔ 
موجودہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد و یگانگت پیدا کریں‘ ملک کو سیاسی انتشار اور اقتصادی عدم استحکام کا شکار نہ ہونے دیں۔ بلیم گیم کی سیاست کی بنیاد پر دشمن کو اپنی اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع نہ دیں اور امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں خطے میں بگاڑا جانیوالا طاقت کا توازن بہتر سفارتی اور سیاسی حکمت عملی سے درست کرنے کی کوشش کریں۔ اس کیلئے ہمیں چین اور روس کے ساتھ بالخصوص دفاعی تعاون مضبوط بنانا ہوگا۔ خدا قائد کے پاکستان کو ہر قسم کی اندرونی اور بیرونی سازشوں سے بچائے رکھے اور یہ وطن عزیز بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کی امنگوں‘ آدرشوں کے مطابق جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بن کر اقوام عالم میں سر بلند ہو۔ بے شک انتخابات کے تسلسل سے بانیان پاکستان کا سلطانی ٔجمہور کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو پائے گا۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...