نون لیگ تحریک انصاف کے نقشِ قدم پر

تحریک انصاف کی نقالی میں مسلم لیگ (ن) نے وہ حربہ بچگانہ انداز میں استعمال کرناشروع کردیا ہے جس کے ذریعے سوشل میڈیا پر ناقدین کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔ ناقدین کی کردار کشی پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اس امر کی کوشش ہوتی ہے کہ جماعت کے بیانیے اور اندازِ سیاست کی بابت دیانتداری سے اٹھائے سوالات زیر بحث لانے کے بجائے مذکورہ سوالات اٹھانے والے کی ساکھ ہی کو مشکوک بنادیا جائے۔صحافیوں کے خلاف ’لفافے‘ والی تہمت کا عاشقانِ عمران خان نے اسی تناظر میں بھرپور انداز میں استحصال کیا تھا۔مخالفین پر آوازے کسنے کے دھندے میں نووارد ہوتے ہوئے مسلم لیگ (ن) فی الوقت اپنے ناقدین کے لیے ’لفافہ‘ جیسا طاقت ور لقب ڈھونڈ نہیں پائی ہے۔غصے سے مغلوب ہوئی ٹامک ٹوئیاں ماررہی ہے۔مثال کے طورپر میری عمر ’جواں سال‘ نواز شریف کے مداحین کو تجزیے کی صلاحیت سے محروم ہوئی نظرآتی ہے۔ 
اپنی ذات پر بے بنیاد وجوہات کی بنا پر مسلم لیگ (ن) کی سپاہ ٹرول کی جانب سے پھینکی غلاظت کو میں نہایت ڈھٹائی سے برداشت کرسکتاہوں۔ سیاسی جماعتوں کی بنیادی ذمہ داری مگر اپنے اہداف کے حصول پر توجہ مرکوز رکھنا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے ٹرولز یہ فرض بھلاچکے ہیں۔جمعہ کی سہ پہر سے مثال کے طورپر مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہ نما کاملاً بوکھلائے محسوس ہوئے ۔سپریم کورٹ نے اس روز ’سائفر کیس‘ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور میری دانست میں اب تک عمران خان کے خلاف بنائے مقدمات میں سے وہ سنگین ترین مقدمہ تھا۔
1980ء کی دہائی سے رواں صدی کے ابتدائی پانچ برس تک بطوررپورٹر مجھے پیشہ وارانہ فرائض کی بنا پر خارجہ امور پر بھی نگاہ رکھنا ہوتی تھی۔ مذکورہ تجربے نے مجھے سائفر کے ذریعے بھیجے پیغام کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا۔بیرونی ملک مقیم کسی سفیر کی جانب سے سائفر کے ذریعے حساس ترین پیغام خفیہ زبان میں بھیجا جاتا ہے۔ اس کا کوڈ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہوتا ہے۔پیغام ملتے ہی یہ ’ڈی کوڈ‘ ہوتا ہے اور سادہ زبان میں تیار ہوئے متن کو پانچ سے زیادہ اہم ترین ریاستی اور حکومتی عہدے دار دیکھنے کے مجاز نہیں۔
گزشتہ برس کے مارچ سے ان دنوں کے وزیر اعظم عمران خان شہر شہر عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے دہائی مچانا شروع ہوگئے تھے کہ امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ ان کی وطن پرستی سے ناخوش ہے۔عمران خان کا یوکرین پر حملے سے ایک دن قبل ماسکو پہنچ کر روسی صدر سے ملنا بھی اسے پسند نہیں آیا۔ بائیڈن انتظامیہ بالآخر اس حد تک مشتعل ہوئی کہ وزارت خارجہ کے ایک اہم افسر ڈونلڈ لو کو واشنگٹن میں تعینات ہمارے سفیر سے ملاقات کے لیے بھیجناپڑا۔ پاکستانی سفیر سے ملاقات کے دوران امریکی افسر نے خبردار کیا کہ اگر عمران خان اپنی آزادانہ روش سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف جماعتوں کو یکجا کرکے انھیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد پیش کردی جائے گی۔
سائفر کے حوالے سے عمران خان نے جو کہانی بنائی اسے بنیاد بناتے ہوئے مارچ 2022ء میں قومی اسمبلی کے سپیکر باقاعدہ انداز میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی کروانے میں لیت ولعل سے کام لیتے رہے۔ بالآخر وہ پیش ہوئی تو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اسے ’قومی مفاد‘ کے خلاف ٹھہراکر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ عمران خان نے اس کے بعد اسمبلی کی تحلیل یقینی بنانے کے لیے صدر کو چٹھی بھیج دی۔موصوف نے حکم کی فوراً تعمیل کی تو سپریم کورٹ متحرک ہوا اور تحریک اعتماد پر گنتی نے عمران خان کووزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا۔
وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوجانے کے بعد مگر عمران خان اپنے وعدے کے مطابق ’مزید خطرے ناک‘ ہوگئے۔ شہر شہر جاکر عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے سائفر کہانی دہراتے رہے۔ اس کہانی کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے ہماری قومی سلامتی کے ضامن اداروں کی نیت اور کارکردگی پر بھی سنگین سوالات اٹھائے۔ بعدازاں طاقت ور قوتوں کے حوالے سے انھوں نے ’ہم کوئی غلام ہیں‘ والا سوال دہرانا شروع کردیا اور بتدریج قوم کو ’حقیقی آزادی‘ کی جنگ لڑنے کے لیے تیار کرنا شروع ہوگئے۔’حقیقی آزادی‘ کی تحریک کی اصل بنیاد ’سائفر‘ کے حوالے سے اچھالا بیانیہ تھا۔
سابق سفیر پاکستان اسد مجید خان کی جانب سے جو ’سائفر‘ بھیجا گیا تھا اس کے ڈی کوڈ ہوئے متن کی ایک کاپی بھی افواہوں کے مطابق سرکاری ریکارڈ سے ’غائب‘ ہوگئی تھی۔ایک ٹی وی انٹرویو میں عمران خان نے کندھے اچکاتے ہوئے یہ ’اعتراف‘ کردیا تھا کہ ان کے پاس جو کاپی آئی تھی وہ غالباً ان سے ’کھو‘ گئی ہے۔ عمران خان کا دیا انٹرویو عندیہ دے رہا تھا کہ ڈی کوڈ ہوا ’سائفر‘ سیاسی اہداف کے حصول کے لیے استعمال ہورہا تھا۔بات یہاں ختم نہ ہوئی۔
امریکہ میں ایک ویب سائٹ ہے۔ نام ہے اس کا Intercept۔ اس سے وابستہ پاکستانی نژاد صحافی عمران خان کے حامی شمار ہوتے ہیں۔چند ماہ قبل اس ویب سائٹ نے ’اس سائفرکا متن‘ چھاپ دیا جس کے بارے میں سابق وزیر اعظم کئی مہینوں سے دہائی مچائے جارہے تھے۔جب وہ متن چھپ گیا تو امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان سے اس کی تصدیق یا تردید کے حصول کے لیے سوالات ہوئے۔ ترجمان کو بالآخر کیمرے کے روبرو خجالت بھری مسکراہٹ سے اعتراف کرنا پڑا کہ ’انٹرسپٹ‘ میں سائفر کا جو متن چھپا ہے وہ حقیقت کے حوالے سے "Sam(E)ISH"ہے۔ اس انوکھے لفظ کے استعمال سے امریکی وزار ت خارجہ کے ترجمان نے گویا اس امر کی تصدیق کردی کہ ’انٹرسپٹ‘ میں سائفر کا جو متن چھپا تھا وہ حقیقت کے قریب تر ہے۔عمران خان کے دعویٰ کی گویا تصدیق کردی گئی۔ ایک اورنگاہ سے مگر امریکی ترجمان کے تبصرے کو ذہن میں رکھیں تو ریاست پاکستان کا یہ دعویٰ بھی درست سنائی دیتا ہے کہ سائفر کے ڈی کوڈ ہوئے متن کی نقل ’غیر متعلق‘ لوگوں تک پہنچ چکی ہے۔ریاست کے لیے خفیہ اور حساس ٹھہرائی دستاویز’غیروں‘ کے ہاتھ لگ گئی۔
اس بنیاد پر عمران خان کے خلاف مقدمہ بنا اور اس پر کارروائی کا آغاز ہوا تو میں اسے نظربظاہر ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر سنگین ترین مقدمہ تصور کرتا رہا۔ میرے خدشات کی تصدیق عمران خان کی بہن محترمہ علیمہ خان نے تواتر سے یہ بیان دیتے ہوئے بھی فراہم کرنا شروع کردی کہ سائفر کے حوالے سے بنائے مقدمے کے ذریعے حکومت اگر عمران خان کو موت کی سزا دلوانے میں ناکام رہی تب بھی انھیں تاحیات قید میں رکھنا یقینی بنایا جارہا ہے۔اکثر مجھے یہ گماں بھی ہوا کہ خفیہ دستاویز کے حوالے سے عمران خان کے خلاف ریاستِ پاکستان نے ایسا ہی مقدمہ قائم کیا ہے جو سابق امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف خفیہ دستاویزات کے حوالے سے قائم کیا گیا ہے۔
8فروری2024ء کے دن طے ہوئے انتخاب کے لیے تیاری کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کو بھی سائفر کے حوالے سے قائم ہوئے مقدمہ کی بابت بہت امیدیں تھیں۔ گزرے جمعہ کے روز مگر سپریم کورٹ نے سائفر کے حوالے سے عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ضمانت فراہم کرتے ہوئے ان کے خلاف بنائے مقدمے کی دھجیاں اڑادی ہیں۔جو فیصلہ آیا اس نے مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہ نمائوں کے اوسان خطا کردئے۔ بتدریج وہ اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ عمران خان کا مقتدر کہلاتی قوتوںسے بالآخرملک مکا ہوگیا ہے۔اس کے نتیجے میں شاید عمران خان چند ہفتوں کے بعد انتخابی مہم چلانے کو رہا بھی ہوجائیں گے اور وہ اگر براہ راست عوام سے انتخابی مہم کے دوران مخاطب ہوتے رہے تو تحریک انصاف کے لیے 8فروری 2024ء کے روز ہوا انتخاب یک طرفہ ہوجائے گا۔مسلم لیگ (ن) نوازشریف کے وطن ہوتے ہوئے بھی بمشکل اپنی عزت بچاپائے گی۔
ان کی تسلی کے لیے اگرچہ جمعہ ہی کی شام الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک فیصلہ آیا۔ اس نے تحریک انصاف سے بلے کا نشانہ چھین لیا ہے۔اس جماعت کے وفادار کارکن اور رہ نما اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروانے اور انھیں درست ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے تب بھی ان سب کو ’آزاد‘ امیدواروں کی حیثیت سے الگ الگ انتخابی نشانات پر انتخاب لڑنا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کومگر یہ خوف لاحق ہے کہ عدلیہ کا موجودہ موڈ بالآخر تحریک انصاف کے امیدواروں کوبلے کا انتخابی نشان بھی واپس لوٹادے گا۔مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں عدم اطمینان کی جو لہر پھیلی ہے اس کی شدت اور وجوہات کو میں بخوبی سمجھتا ہوں۔یہ سب تو مگر ہونا ہی تھا۔اس کا اندازہ لگانا مگر میری نہیں مسلم لیگ (ن) کے قائدین کی ذمہ داری تھی۔مسلم لیگ (ن )کی سپاہ ٹرول کو لہٰذا میرے بجائے ان کی ’فراست‘ کی بھد اڑانا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن