بطلِ حریت، قائد حق گوئی، شہسوارِ صحافت جناب حمید نظامی اپنی ذاتی اور صحافتی زندگی میں جہدِ مسلسل، حق گوئی و حق پرستی کا ایک ایسا شہکار تھے جس کی مثال اردو صحافت میں ہمیشہ دی جاتی رہے گی۔ انہوں نے اپنے قائد حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر جب اردو صحافت کے میدان میں قدم رکھا اور 1940ءمیں پندرہ روزہ نوائے وقت کی بنیاد رکھی تو کسی کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ ایک نوآموز صحافی اور سیاسی رہنما جو ابھی مسلم لیگ کی ہنگامہ خیز تحریک پاکستان میں کالج کے طلبہ کی رہنمائی بھی کرتا رہا ہو اور کالج سے باہر گلی کوچوں، شہروں اور دیہات میں مسلم لیگ اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو مضبوط بنانے کے عمل میں مصروف رہا کس طرح ایک نئے اخبار کو بامِ عروج تک پہنچائے گا اور یہ اخبار اردو صحافت کے آسمان کا مہر عالمتاب بن کر نہ صرف تحریک پاکستان بلکہ قیام پاکستان اور اس کے بعد استحکام پاکستان میں بھی قائدانہ کردار کرتا رہے گا۔ یہ جناب حمید نظامی کی ذاتی محنت، ذہنی قابلیت اور قلبی محبت کا حُسین امتزاج تھا کہ ابتدا ہی سے ان کا اخبار پاکستان اور پاکستانیوں کے دلوں کا ترجمان اور 4 سال بعد ہی روزنامہ بن گیا۔
جناب حمید نظامی نے جب صحافت کا آغاز کیا تو ان کو کسی سرمایہ دار کی دولت یا کسی حکومتی مشینری کی حمایت حاصل نہیں تھی صرف حق اور سچ کی طاقت اور عوام کی حمایت حاصل تھی جس کی وجہ سے انہوں نے نظریہ پاکستان کو اس وقت زندہ اور پائندہ رکھا جب قائداعظم محمد علی جناح کی وفات اور ان کے بعد قائد ملت خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلم لیگ کے بڑے بڑے قائدین جو اس قوم کی اصلاح کر سکتے تھے اس نوزائیدہ ملک کو چلا سکتے تھے یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ مفاد پرست عناصر، سرمایہ دار، جاگیر دار، بیورو کریٹس اور سیاسی شاطروں نے مل جُل کر اس ملک و قوم کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ کوئی اور ایسی طاقت نہیں تھی جو ان کو روک سکتی، ٹوک سکتی، یہ اعزاز جناب حمید نظامی اور ان کے اخبار ”نوائے وقت“ کو حاصل ہے کہ انہوں نے اس وقت ان بے لگام ملک لوٹنے والے عناصر پر گرفت کی جب یہ سب مل جُل کر اس ملک کو گِدھوں کی طرح نوچ رہے تھے جس کے نتیجہ میں ان کو کئی مرتبہ مالی دشواریوں اور دیگر انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا مگر جناب حمید نظامی کے پایہ¿ استقلال میں لغزش نہ آئی، ان کا صحافتی سفر جاری، ان کی خودی اور خودداری اس آن بان اور شان سے جاری رہی جو نوائے وقت کے آغاز میں تھی بقول اقبال ....
ہزار چشمے تیرے سنگ راہ سے پھوٹیں گے
خودی میں ڈوب کر ضربِ کلیم پیدا کر
نوائے وقت وہ عصائے کلیمی تھا جو حمید نظامی صاحب کے دست سے ضرب کلیمی بن کر مفاد پرستوں اور ان کے بعد آنے والے آمروں کے سروں اور سینوں پر برس رہا تھا اور انہیں کہیں جائے پناہ نہیں مل رہی تھی۔
اس دوران انہیں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ جب اس وطن پر عزیز پر مارشل لا کی منحوس سیاہ رات طاری ہوئی اور فوجی آمریت نے اصلاح کے نام پر تخریب کو تعمیر سمجھ لیا تو حمید نظامی اور ان کا نوائے وقت ایسے میں چٹان بن کر اس آمر فوجی کے سامنے ڈٹ گیا جس کے خوف سے بڑے بڑوں کو پتہ پانی ہو گیا۔ جب مادر ملت کو الیکشن میں خوبی آمر نے دھاندلی کر کے اپنے بناتے ہوئے بلدیاتی الیکٹورل کالجوں سے ہروایا تو گیا اس وقت بھی جناب حمید نظامی نے حق صحافت ادا کرتے ہوئے نوائے وقت کے صفحات سے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کیا جس کی پاداش میں اخبار کی بندش، اشتہارات سے محرومی، کاغذی کوٹہ میں کمی اور ذاتی طور پر حکومت کی طرف سے ہراساں کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں تو کارِ مسلسل اور دباﺅ نے آپ کو صاحب فراش کر دیا اور آپ عارضہ قلب میں مبتلا ہو گئے۔ اس موقع پر آپ نے اپنے مخلص بھائی جناب مجید نظامی کو لندن سے واپس بُلا کر نوائے وقت کی باگ دور ان کے سپرد کر دی اور جناب مجید نظامی نے مارشل لا کی سیاہ رات سے عوام کو نجات دلانے کے لئے اس سفر کا آغاز کیا جو آج بھی جاری ہے۔ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق ہویا مشرف ۔حمید نظامی کے قلمی فرزند اور ان کے بھائی مجید نظامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کی پالیسیوں سے ذرا بھر بھی انحراف نہیں کیا اور مارشل لا کے ناخداﺅں سے برسر میدان ٹکر لی اور ان کو رخصت کر کے دم لیا۔ آج اگر جمہوریت کا پودا ملک میں ہرا بھرا ہے تو اس کی آبیاری میں، حفاظت میں نظامی برادران کا بڑا حصہ ہے۔
مارشل کی زیادتیوں، جبر اور پابندیوں نے جناب حمید نظامی کی صحت کو اس قدر گھائل کیا کہ وہ زیادہ تر اپنے وطن عزیز پر منحوس آمریت کا سایہ برداشت نہ کر سکے اور فروری 1962ءمیں خالق حقیقی سے جا ملے تاہم ان کی جلائی ہوئی شمع جو انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بھائی مجید نظامی کے سپرد کی تھی جسے جناب مجید نظامی نے اس آن بان اور شان کے ساتھ روشن رکھا ہے کہ آج 73 برس گزر چکے ہیں مگر کئی آمروں اور سیاسی جمہوری حکمرانوں کے رعب و دبدبے کے باوجود نوائے وقت کی شکل میں موجود یہ شمع حریت، وطن دوست، عوام، سیاستدانوں اور پاکستانیوں کےلئے مشعل راہ کی حیثیت سے فروزاں ہے اور پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی جمہوری ریاست بنانے کے سفر کی رہنمائی کر رہی ہے۔
شہسوارِ صحافت کی جہدِ مسلسل
Feb 25, 2013