قائداعظم ؒ کا شہید ِ صحافت

حمید نظامی مرحوم نوائے وقت اخبار کے بانی اور حضرت قائد اعظم کے سچے اور کھرے سپاہی تھے۔ حمید نظامی 3جنوری1915ءکو سانگلہ ہل ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوئے، اسلامیہ کالج لاہور سے گریجوایشن اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ وہ ایک حساس دل نوجوان تھے اور تحریک پاکستان کے نامور کارکن تھے۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کیلئے بھرپور جوش و جذبہ سے ہمہ وقت مصروف عمل رہتے تھے۔ وہ قائد اعظم کے عاشق اور جان نثار تھے اور انکے حکم پر اپنا تن من دھن قربان کرنے کے جذبہ عشق سے ہر دم سرشار رہتے تھے وہ ایک تاریخی لمحہ تھا جب قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے نظریاتی صحافت کی ترویج کا بیڑا اٹھایا۔ ادھر 23 مارچ 1940ءکو منٹو پارک لاہور کے تاریخی اجتماع میں قرار داد پاکستان پیش کی گئی۔ پاکستان کی تشکیل کیلئے برصغیر کے مسلمانوں نے باقاعدہ جدوجہد کا آغاز کیا، ادھر پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی صدر نے پندرہ روزہ اخبار ”نوائے وقت“ نکالا۔ شاید ہی قدرت کسی خوش نصیب پر ایسے رتبہ بلند کی گھڑی نازل کرتی ہے مگر حمید نظامی جیسے انسانوں کو اللہ تعالیٰ قوموں پر انعام کے طور پر نازل کرتا ہے تاکہ وہ اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنے خون جگر سے رنگ بکھیریں۔ پھر تمام دنیا نے دیکھا کہ قائد اعظم نے حمید نظامی مرحوم کو نظریاتی صحافت کے جس مورچے پر نظریہ پاکستان کے دفاع کیلئے کھڑا کیا وہاں انہوں نے اسکا بھرپور حق ادا کیا۔ حمید نظامی نے تحریک پاکستان کے ہراول دستے کے سرفروش مجاہد کا ایسا کردار ادا کیا جو آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ بن چکا ہے۔
حمید نظامی نے بڑے کٹھن اورنامساعد حالات میں نوائے وقت کا اجراءکیا۔ جذبوں میں خلوص کی شمع روشن ہو تو منزل کا حصول انسان کا مقدر بن کر چہار عالم رنگ و نور کے سیلاب بکھیر دیتا ہے۔ 15 نومبر 1942ءکو حمید نظامی نے نوائے وقت کو ”ہفتہ وار“ کر دیا جبکہ 1944ءمیں نوائے وقت روزنامہ ہو گیا۔
 حمید نظامی حکیم الامت علامہ اقبال کے افکار اور بانی¿ پاکستان کے سیاسی تصورات اور اسلامی وحدت کے فلسفہ و فکر سے بے حد متاثر تھے۔ وہ مسلمانوں کی نشاة¿ ثانیہ کے آرزو مند تھے اور امت مسلمہ میں اسلامی اقدار کی آبیاری کو اپنا جزو ایمان خیال کرتے تھے۔ وہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست دیکھنے کو اپنا جزو ایمان خیال کرتے تھے۔ حمید نظامی کی زیر ادارت نوائے وقت کا پہلا شمارہ 22 جولائی 1944ءکو منصہ شہود پر آیا۔ حمید نظامی صحافت کو انسانیت کی فلاح و بہود کیلئے ایک مشن سمجھتے تھے۔ وہ اسلام اور نظریہ پاکستان کیلئے صحافت کو کس قدر اہم سمجھتے تھے اس کا اظہار اس واقعہ سے ہوتا ہے۔ حضرت قائد اعظم نے جناب حمید نظامی صاحب کو پیشکش کی کہ آپ ”مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی“ کے رکن بن جائیں مگر انہوں نے انتہائی ادب اور احترام سے قائد کو عرض کیا کہ وہ تو ان کی فوج کے ادنیٰ سپاہی ہیں اور ان کا حکم ان کیلئے ایمان کا درجہ رکھتا ہے مگر آپ اجازت دیں تو میں جو کام کر رہا ہوں ورکنگ کمیٹی کا ممبربننے کی بجائے اسے بھی جاری رکھوں۔ قائد اعظم مسکرائے اور اس نوجوان کی پرخلوص اور پرجوش دلیل سے قائل ہو گئے کیونکہ قائد اعظم کی بصیرت نے بھانپ لیا کہ یہ نوجوان صحافت کے میدان میں ہی تحریک آزادی کیلئے بہتر کردار ادا کر سکتا ہے چنانچہ حمید نظامی نے مرتے دم تک بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کے جمہوری تصورات کی روشنی میں بامقصد اور نظریاتی صحافت کو ہمیشہ قیام پاکستان کے حصول کے مقاصد سے ہم آہنگ رکھا مگر یہ بھی قدرت کا عجیب بھید ہے کہ خدا تعالیٰ جن انسانوں کو اوائل عمری میں اعلیٰ اور ارفع رتبے سے سرفرار کر دیتا ہے اور ان سے انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے جو کام جس وقت تک لینا چاہتا ہے، لے لیتا ہے۔ خوشگوار اور حسین سراپا شخصیت خدا نے ذہنوں میں ہمیشہ کیلئے انمٹ نقوش مرتب کر دیئے۔ مگر کیسا عجیب المیہ ہے کہ جس انسان (صدر ایوب) کو قائد اعظم ناپسند کرتے تھے وہ شومئی قسمت سے پاکستان کے تخت پر قابض ہو گیا اور بانی¿ پاکستان کے جمہوری تصورات کو اپنی ڈکٹیٹر شپ کے پاﺅں تلے کچل دیا تو پھر کیسے ممکن تھا کہ حمید نظامی جیسا آئیڈیل پرست اور اصول پرست جمہوری انسان کا دل و دماغ قائد اعظم کے جمہوریت کے خواب کو روندھے جانے سے آزردہ خاطر نہ ہوتا چنانچہ ایوب خان کے مارشل لاءکے گھٹن اور جبر نے انکے آبگینہ دل کو لرزا کر رکھ دیا۔ 24فروری 1962ءکو مجید نظامی صاحب آغا شورش کاشمیری کے کہنے پر لندن سے واپس لاہور پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ حمید نظامی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ اس رات مارشل لاءکے پہلے شہید کے دل پر کس قدر اذیت طاری تھی۔ بقول فیض:
درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
میرے ویرانہ¿، تن میں گویا
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھل کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں
رخصتِ فاصلہ¿ شوق کی تیاری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا
مگر جونہی حمید نظامی نے اپنے بھائی کو دیکھا تو اتنا کہا کہ ”مجید تم آ گئے“ ہاتھ آگے بڑھایا اور اپنے آدرشوں کی مشعل انکے ہاتھ میں تھما دی۔ درد دل حد سے گزر گیا۔ دل نے ٹھہرنا چاہا مگر ٹھہر نہ سکا۔ مگر حمید نظامی کی روح مطمئن تھی کیوں اس کا مشن محفوظ ہاتھوں میں پہنچ گیا تھا۔ مجید نظامی کیلئے یہ آخری لمحہ دلداری کا تھا۔ حمید نظامی نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو انسان تھے۔ انہوں نے نظریہ پاکستان کو نوائے وقت کی پالیسی بنایا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ نظریہ پاکستان دو قومی نظریہ ہے۔ چنانچہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر انشاءاللہ پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔ اسی مشن کی تکمیل کیلئے حمید نظامی کے جانشین مجید نظامی نے ہمیشہ ظالم اور جابر حاکموں کے سامنے کلمہ¿ حق باآواز بلند کیا۔ اگرچہ نوائے وقت اپنے ابتدءہی سے مسلم لیگ اور پاکستان کا ترجمان رہا مگر قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کے بعض طالع آزماﺅں نے قائد اعظم کے اصولوں کے برعکس اقدامات کیے تو حمید نظامی ان پر تنقید کرنے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ انہی کی روایت پر نوائے وقت نے مجید نظامی کی ادارت میں ہمیشہ ہر حکومت کی غلط پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا اور انتہائی جرا¿ت اور بے باکی سے آزادی¿ صحافت اور جمہوریت کی جنگ لڑی۔ بے خوفی اور حق گوئی کی سزا کے طور پر نوائے وقت کو کئی مرتبہ پابندی اور بندش کے مراحل سے گزرنا پڑا مگر بقول اقبال:
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
حمید نظامی کے مشن، خوابوں اور آدرشوں کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچانے کیلئے مجید نظامی کس قدر باعزم اور کمیٹڈ تھے اس کا اندازہ ہم اس عہد سے کر سکتے ہیں جو مجید نظامی نے نواب آف کالا باغ کے سامنے کیا۔
نواب آف کالا باغ نے مجید نظامی صاحب سے کہا ”دیکھیے آپ کے بھائی نے جو پالیسی چھوڑی ہے اگر آپ اسے جاری نہیں رکھتے تو پھر
"You will be less than a man"
مجید نظامی نے جواب دیا، نواب صاحب آپ فکر نہ کریں۔
"You won't find me less than a man"
مجید نظامی اپنے بھائی کو پاکستان میں پہلا شہید مارشل لاءقرار دیتے ہیں۔ انکے خیال میں حمید نظامی کی وفات کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ ایوب خان کی آمریت کو نظریہ¿ جمہوریت، نظریہ¿ پاکستان، تعلیمات اقبال اور قائد اعظم کے فلسفہ و فکر کے منافی سمجھتے تھے اور وہ مارشل لاءکی گھٹن میں زندہ نہ رہ سکے۔ مجید نظامی نے نہ صرف نوائے وقت کو حمید نظامی کے خوابوں کی تعبیر بنایا بلکہ برسوں انکی اولاد کو بھی اپنی آغوش میں سینچا۔ حمید نظامی نے تمام زندگی قائد اعظم اور علامہ اقبال کے افکار کے فروغ کیلئے ہمیشہ جدوجہد کی، وہ برصغیر کی صحافت کے عظیم لیجنڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج بھی حمید نظامی مرحوم اپنے بھائی مجید نظامی کی صورت میں زندہ و پائندہ ہیں۔ انکے مشن پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ وہ آسمان صحافت پر طلوع ہونے والا ایسا آفتاب ہے جو رہتی دنیا تک جب تک پاکستان قائم آباد رہے گا۔ حمید نظامی کا چمکتا دمکتا چہرہ نوائے وقت کے اوراق پر جگمگاتا رہے گا۔ جناب حمید نظامی لاہور ہی میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ¿ خاک ہیں....
کچھ ایسے بھی لوگ اٹھ جائیں گے اس بزم سے
ڈھونڈنے نکلو گے جنہیں مگر پا نہ سکو گے
حمید نظامی کی زندگی شمع فروزاں تھی، چینی فلاسفر ایتھل مینل (Ethal Menal) کے مطابق:
My life's candle is burnning on its both Ends.
And I know
It should not last the night
But Oh, My friends and
Aha, my foes,
It gives such a lovely light!

ای پیپر دی نیشن